بعض اداروں کی کہانی عجیب ہوتی ہے۔ انجمن ترقی اردو کا کچھ ایسا ہی معاملہ ہے ۔ یہ ادارہ 1903 میں قائم ہوا اور جب انگریز حکمرانوں نے اپنی نوک قلم سے برصغیرکو دولخت کیا تو ہزاروں شہر اور قصبے اور لاکھوں گھرانے لہو میں نہا کر تتر بتر ہوگئے۔
ان ہی میں سے ایک ادارہ انجمن ترقی اردو بھی تھا۔ مولوی عبدالحق انجمن کی چند ہزار کتابیں اور مخطوطے لے کر نقل مکانی کے عذاب سے گزرے۔ انھوں نے کراچی پہنچ کر انجمن ترقی اردو پاکستان کی بنیاد رکھی اور جمیل الدین عالی ، مشفق خواجہ اور دوسرے ادیبوں اور بااثر افراد کے ذریعے اسے ملک کا ایک اہم علمی اور تحقیقی ادارہ بنا دیا۔ان کی وفات کے بعد ہمارے ملک کے ایک اہم شاعر اور دانشور جمیل الدین عالی نے انجمن کو اپنے اثر و رسوخ اور ادبی کاوشوں سے پروان چڑھایا۔ ان کے بعد ان کے صاحبزادے ذوالقرنین جمیل (عرف عام میں راجو جمیل ) محترمہ فاطمہ حسن اور جناب سحر انصاری اس ادارے کے معاملات کو چلاتے رہے۔ فاطمہ حسن کی مشاورت سے ایک تین رکنی کمیٹی قائم کی گئی ، جو صدر جناب واجد جواد ، خازن سید عابد رضوی اور اس حقیر فقیر (معتمد اعزازی) پر مشتمل ہے۔
واجد جواد صاحب کی ساری زندگی صنعت و تجارت کے شعبے سے وابستہ رہی۔ کبھی وزیر رہے، کبھی کسی اہم ادارے کے سر دبیر رہے۔ اس کے ساتھ ہی شعر و ادب سے ان کی گہری دلچسپی رہی ہے۔ انھوں نے غالب، میر، فیض اور افتخار عارف کا دیوان ، کلیات یا انتخاب جیبی سائز میں ہزاروں کی تعداد میں چھپوایا اور اسے شعر وادب سے دلچسپی رکھنے والے دوستوں میں تبرک کی طرح بانٹتے ہیں۔ ان کی عطا اور جود و سخا نے پاکستان میں ہی نہیں ہندوستان میں بھی بہت سے ادب دوستوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرا لی۔کئی برس پہلے ہندوستان میں ایک علمی اور ادبی ادارہ ’’ریختہ ‘‘ قائم ہوا جو سنجیو صراف کی ادبی اور علمی دلچسپی کا نتیجہ ہے۔ میں ان کے بارے میں پہلے بھی لکھ چکی ہوں کہ اردوکو انیسویں اور بیسویں کے اوائل میں پنڈت نول کشور اور بیسویں اکیسویں صدی میں سنجیو صراف مل گئے جنھوں نے اردو کے علمی اور ادبی خزانے کو ’’ریختہ ‘‘ کے عنوان سے نہ صرف یکجا کیا بلکہ اردو اور ہندی کے اہم اور معروف ادیبوں کی مدد سے کئی کامیاب جلسے کیے۔
اس زمانے میں جب کہ ہندوستان اور پاکستان کی سرحدوں پر ہزاروں پہرے ہیں ، یہ سنجیو جی کا کمال ہے کہ ایسی ادبی محفلیں کیں جن میں دونوں ملکوں اور بہت سی زبانوں کے ادیب اور شاعر اکٹھا ہوئے اور انھوں نے اپنے اپنے دل کی باتیں کیں۔’’ ریختہ ‘‘ نے دلی میں ایسا ہی ایک ادبی جشن منایا جس میں دوسروں کے ساتھ میں بھی مدعوکی گئی تھی۔ اس میں اردو کی مشہور افسانہ نگار جیلانی بانو ، ان کے شوہر انور معظم، ہندی کے معروف شاعر اور دانشور اشوک باجپائی، انامیکا ، ناصرہ شرما اورکئی دوسرے موجود تھے۔ کراچی سے جانے والوں میں انور مقصود اور ان کی بیگم بھی ’’ریختہ‘‘ کی مہمان تھیں۔
وہ چند دن جس میں ہم نے ’’ریختہ‘‘ کی میزبانی کے لطف اٹھائے ، وہ بہت دل خوش کن تھے۔ گلزار صاحب کے ساتھ ایک محفل شعر و سخن ’’ وانی پرکاشن‘‘ کے لوگوں نے سجائی تھی جس میں ادتیہ بھی شامل تھیں۔ گلزار صاحب کی شاعری ، ہم لوگوں کی داد اور یہ احساس کہ ہم سب ابھی جدا ہوجائیں گے۔ پاکستان اور ہندوستان کے لوگ مل بیٹھتے ہیں تو انھیں یہ احساس چین سے نہیں رہنے دیتا کہ یہ محفل ابھی بکھرنے والی ہے۔بات ہورہی تھی ’’ ریختہ ‘‘ کی اور سنجیو صراف کی اس خواہش کی کہ اب 2022 میں ہم کیوں نہ اردو صحافت کو اس کا حق دیں ، خراج ادا کریں جو اس نے اردو زبان و ادب کی خدمت میں ادا کیا۔ وہ صحافت جس کا ہندوستان کی آزادی میں ایک بڑا کردار ہے، وہ نئی نسل کے سامنے لائی جائے تاکہ اسے اندازہ ہوکہ آج جو چمکتے دمکتے اخبار ہماری نگاہ کے سامنے آتے ہیں ، ان کے بنیاد گزاروں نے زندگی کی کتنی صعوبتیں سہہ کر انھیں نکالا، ان کا تحفظ کیا، خود کیسی روکھی سوکھی کھا کر زندگی گزاری اور کتنے لمبے عرصے جیل کی کٹھنائیاں سہیں۔
سنجیو صراف نے اس 200 سالہ سفر کی کہانی، مولوی باقر کی زندگی کے ذکر سے آغاز کی ہے۔ مولوی صاحب ’’ آب حیات ‘‘ کے مصنف مولانا محمد حسین آزاد کے والد تھے اور انھوں نے ’’ دہلی اردو اخبار‘‘ نکالا۔ اس کا میں تفصیلی تذکرہ اپنے حالیہ کالم میں کرچکی ہوں۔ یہ اخبار 1836 سے 1857 تک نکلتا رہا اور اس نے نہ صرف اردو صحافت میں ایک سنگ میل کی حیثیت اختیار کر لی بلکہ جنگ آزادی میں بھی اپنا اہم کردار ادا کیا۔کہا جاتا ہے کہ مولا محمد حسین آزاد سر بازار اپنے والد اور دلی کے دوسرے عمائدین کو انگریز افسران کے اشارے پر سولی چڑھتا دیکھ رہے تھے، وہ لپک کر ان کی طرف آنا چاہتے تھے لیکن باپ نے بیٹے کو سر کے اشارے سے آگے آنے اور باپ کو پہچاننے سے منع کر دیا۔ یوں بیٹے کی آنکھوں کے سامنے ہندوستان کے پہلے جواں مرد صحافی محمد باقرکا لاشہ پیڑ کی بلندی پر پھڑکتا رہا۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ مولانا محمد حسین آزاد کا ذہنی جنون اسی دل خراش اور ناقابل فراموش سانحے کا نتیجہ تھا۔
’’ ریختہ ‘‘ نے 200 سالہ اردو صحافت پر جوکتابچہ نکالا ہے اس میں دوسرا نام منشی دیا نرائن نگم کا ہے۔ انھوں نے کانپور کے مشہور کرائسٹ چرچ سے بی اے کیا۔ ماں باپ چاہتے تھے کہ وہ وکالت کریں لیکن بیٹا ادب اور شاعری کا رسیا تھا۔ انھوں نے 1903 میں ماہنامہ ’’زمانہ ‘‘ نکالا اور چالیس برس تک اس کے مدیر رہے۔ اس رسالے میں اس وقت کے نامی گرامی ادیب اور شاعر مثلاً علامہ شبلی ، مولانا حالی ، حسرت موہانی، اکبر الہ آبادی اور دوسرے چھپتے رہے۔اسی طرح ہمیں ’’ریختہ ‘‘ میں مولانا محمد علی جوہر کا ذکر ملتا ہے۔ انھوں نے 1912 میں روزنامہ ’’ہمدرد ‘‘ جاری کیا جس میں وہ حکومت برطانیہ اور انگریز افسروں کے ظلم و ستم کو کھل کر لکھتے رہے۔ رام پور میں ان کی ذاتی جائیداد ضبط ہوتی رہی ، وہ جیل بھیجے جاتے رہے اور جب بھی چھوٹ کر آتے پھر سے انگریز حکومت کے خلاف لکھتے ۔ غرض یہ سلسلہ چلتا رہا۔
مولانا ابو الکلام آزاد جو ہماری جنگ آزادی کے ایک عظیم رہنما تھے ، آزادی سے پہلے ان کا اخبار ’’الہلال ‘‘ ہمیشہ برطانوی حکومت کا ناقد رہا اور وہ خود انگریزوں کے زیر عتاب رہے ، بعد میں وہ آزاد ہندوستان میں پہلے وزیر تعلیم رہے اور آزادی سے پہلے انگریز افسروں کی آنکھوں میں کھٹکتے رہے۔اسی طرح مولانا حسرت موہانی تھے۔ وہ کہنے کو ایک دین دار اور عبادت گزار مسلمان لیکن اس کے ساتھ ہی وہ ایک سیاست دان ، ادیب ، شاعر ، صحافی اور آزادی کے خواستگار تھے۔ بارہا جیل گئے اور یہ مشہور شعر ان ہی کا ہے کہ
ہے مشق سخن جاری، چکی کی مشقت بھی
اک طرفہ تماشہ ہے حسرت کی طبیعت بھی
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے