دنیا کے دو خطے ایسے ہیں جن کو دیکھ کر لگتا ہے یہ ہمیشہ ایک دوسرے سے کٹے ہوئے رہے ہیں۔ ایک برِ صغیر ہے اور دوسرا وسطِ ایشیا۔ لیکن ان کا حال چاہے جتنا بھی ٹوٹا ہوا نظر آئے، لیکن اِن خطوں کا ماضی ایک ہی ہے۔ ایک زمانہ تھا یہ خطے ایسے ملے ہوئے تھے کہ بخارا و سمرقند سے جو بھی نکلتا تھا، اس کے قدم دلّی آ کر ہی ٹھیرتے تھے، چاہے وہ آریائی ہوں یا پھر مغل۔ لیکن پھر ہندوستان انگریزوں کی غلامی میں چلا گیا اور وسط ایشیا سرخ استعمار کے پنجوں میں ، یوں یہ علاقے ایک دوسرے سے دُور ہوتے چلے گئے۔ جو کسر رہ گئی تھی وہ افغانستان کے حالات نے پوری کر دی۔ یوں یہ دُوریاں صدیوں پر پھیلتی چلی گئیں۔
وسطِ ایشیا ایک مردم خیز علاقہ رہا ہے اور اسلامی تاریخ میں اس کا بہت اہم اور نمایاں مقام ہے۔ اس پر پہلی کاری ضرب تاتاریوں کے حملے میں پڑی جب منگولوں نے اس علاقے کو تاراج کیا اور پھر پچھلی صدی میں روس نے باقی کا کام تمام کر دیا۔ اب یہ علاقہ علمی و سیاسی دونوں لحاظ سے اسلامی دنیا میں وہ اثر و رسوخ اور اہمیت نہیں رکھتا جو اسے پہلے کبھی حاصل تھا۔
لیکن اقبال کہتے ہیں
جہاں میں اہلِ ایماں صورتِ خورشید جیتے ہیں
اِدھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے، اِدھر نکلے
تو اسی کے مصداق یہ خطہ اک نیا جنم بھی لے سکتا ہے اور اس میں بلاشبہ پاکستان کا کردار بہت اہم ہوگا۔ ان دونوں خطوں کو ایک مرتبہ پھر ایک دوسرے سے قریب لانے، ان کے بارے میں آگہی پھیلانے اور مستقبل کی پیش بندی کے لیے 'دلیل' ایک نئے سلسلے کا آغاز کر رہا ہے۔ جس میں ہم وسطِ ایشیا کی جغرافیائی اور تاریخی اہمیت اور پاک و ہند کے ساتھ اس کے تعلق کے علاوہ اِس خطے کی معروف شخصیات، اُن کے کارناموں، تاریخ کے اہم ادوار اور ان کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیں گے۔
لیکن وسطِ ایشیا ہے کس علاقے کا نام؟ اس کی حدود کیا ہے؟ کون کون سے ملک اس خطے کا حصہ سمجھے جاتے ہیں؟ تو ہم اپنے سفر کا آغاز اسی سوال کے جواب سے کریں گے۔ پھر تاریخ کے میدان میں قدم رکھیں گے کہ جس میں قبل از اسلام کے وسطِ ایشیا کا مختصر احوال ہوگا اور پھر خطے میں اسلام کی آمد سے آج تک کے حالات بلکہ مستقبل کے امکانات پر بھی روشنی ڈالیں گے۔
وسطِ ایشیا، جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے کہ برِ اعظم ایشیا کا درمیانی علاقہ ہے۔ یہ دنیا کی کئی عظیم تہذیبوں کے قلب میں واقع ہے۔ اس کے مشرق میں چین ہے، جنوب میں ایران اور شمال میں روس، اس کے علاوہ اس کی سرحد تقریباً پاکستان سے بھی ملتی ہے یعنی ہندوستانی تہذیب سے بھی اس کا بہت قریبی اور گہرا تعلق رہا ہے۔ یعنی یہ علاقہ تہذیبوں کے سنگم ہے۔ عظیم شاہراہِ ریشم اس کے درمیان سے گزرتی ہے اور اسی کی بدولت تاریخ میں مصنوعات کے علاوہ خیالات اور نظریات بھی یہاں سے گزرتے بلکہ یکجا ہوتے تھے۔
اگر آپ نے تھوڑی بہت تاریخ پڑھی ہے تو آپ سمرقند، بخارا، خوارزم، تاشقند، نیشاپور اور بلخ جیسے ناموں سے ضرور واقف ہوں گے۔ یہ سب وسطِ ایشیا ہی کے شہر ہیں بلکہ خراسان کا عظیم علاقہ بھی اسی خطے میں آتا ہے۔
پھر اگر شخصیات کا دامن کھولیں تو ایک سے بڑھ کر ایک ہیرا اس خطے سے نکلا ہے۔ امام بخاری، امام مسلم، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، غزالی، رازی، شیخ طوسی، پھر مولانا رومی، ابنِ سینا، فردوسی، نظام الملک طوسی اور بہت سے نام ہیں جن کا تعلق اسی علاقے سے تھا۔ فاتحین میں تیمور اور بابر بھی یہیں سے نکلے تھے اور عظیم سلجوقی سلاطین بھی۔ اس سلسلے میں ہم ان تمام شہروں کی تاریخ اور اہمیت کے بارے میں بھی آپ کو بتائیں گے اور ان عظیم شخصیات کے بارے میں بھی۔
عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ وسطِ ایشیا صرف اُن ممالک پر مشتمل ہے جو سابق سوویت ریاستیں ہیں یعنی ازبکستان، ترکمنستان، تاجکستان، قرغزستان اور قزاقستان۔ غلطی سے یا نام کی مماثلت کی وجہ سے چند لوگ آذربائیجان کو بھی اس کا حصہ سمجھ لیتے ہیں جبکہ حقیقت یہ نہیں ہے۔لیکن تاریخی لحاظ سے یہ علاقہ اس سے کہیں بڑا ہے۔ اس میں مشرقی ترکستان بھی شامل ہے جو آج سنکیانگ کہلاتا ہے اور چین کا حصہ ہے۔ اس کے علاوہ ایران اور افغانستان کا علاقہ بدخشاں اور خراسان بھی اس کا حصہ ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ جدید اصطلاح میں جس علاقے کو وسطِ ایشیا کہتے ہیں اسے پہلے ترکستان کہا جاتا تھا اور ہمارا یہ سلسلہ دراصل اسی ترکستان کی داستان ہوگی، جس میں روسی تاتارستان اور ملحقہ علاقے بھی شامل ہوں گے۔ یہ تقریباً تمام ہی علاقے مسلم اکثریت کے ہیں بلکہ چند علاقوں میں تو مسلمانوں کی آبادی 95 فیصد سے بھی زیادہ ہے۔ اس خطے کے تمام آزاد ممالک اسلامی کانفرنس تنظیم کے رکن بھی ہیں۔
آئیے شروعات کرتے ہیں فی زمانہ وسطِ ایشیا میں آنے والے ممالک کی مختصر ابتدائی معلومات سے:
قزاقستان
قزاقستان تقریباً 27 لاکھ 25 ہزار مربع کلومیٹرز پر پھیلا ہوا ملک ہے۔ رقبے کے لحاظ سے دیکھیں تو یہ دنیا کے 10 بڑے ملکوں میں سے ایک ہے۔ لیکن اس کی آبادی صرف 1.8 کروڑ ہے یعنی رقبے کے لحاظ سے کچھ بھی نہیں۔ یہ فی کلومیٹر صرف 6 افراد بنتے ہیں یعنی اس ملک کا بہت بڑا حصہ مکمل طور پر خالی ہے۔
لیکن یہ خطے کا سب سے امیر ملک ضرور ہے۔ اس کی کُل مقامی پیداوار یعنی جی ڈی پی لگ بھگ 161 ارب ڈالرز ہے، جو فی کس تقریباً 9 ہزار ڈالرز بنتی ہے۔
محلِ وقوع کے لحاظ سے دیکھیں تو قزاقستان کے شمال اور مغرب میں روس، جنوب میں ازبکستان اور قرغزستان اور مشرق میں چین واقع ہیں۔ دارالحکومت نور سلطان ہے۔ یہ وہی شہر ہے جس کا نام پہلے آستانہ تھا۔ 2019ء میں ملک کے سابق صدر نور سلطان نظر بایوف کے نام پر اسے نور سلطان کا نام دے دیا گیا۔
قزاقستان لینڈ لاکڈ (landlocked) ہے یعنی اس کی سرحد کسی سمندر سے نہیں ملتی۔ صرف قزاقستان ہی نہیں بلکہ اس خطے کے کسی ملک کے پاس ساحل نہیں ہے۔ یعنی ازبکستان، ترکمنستان، تاجکستان اور قرغزستان بھی لینڈ لاکڈ ہیں۔ اور اگر افغانستان کو بھی وسط ایشیا کا حصہ سمجھا جائے تو وہ بھی۔
جس زمانے میں زمینی راستوں سے تجارت ہوتی تھی تو ان علاقوں کی بہت اہمیت تھی لیکن جب سے بحری تجارت نے فروغ پایا ہے، عالمی معیشت میں اس علاقے کا وہ کردار باقی نہیں رہا۔
خیر، چلتے ہیں اگلے ملک کی طرف، جو آبادی کے لحاظ سے وسط ایشیا کا سب سے بڑا ملک ہے، یعنی ازبکستان۔
ازبکستان
ازبکستان تاریخی بلکہ ہر لحاظ سے وسطِ ایشیا کا سب سے اہم ملک ہے اور دنیا کا واحد ملک ہے جو ڈبل لینڈ لاکڈ ہے یعنی نہ صرف یہ کسی سمندر سے نہیں ملتا بلکہ اس کے تمام پڑوسی ممالک بھی ساحل کی نعمت سے محروم ہیں۔
آمو دریا اور سیر دریا کے درمیان واقع علاقہ بہت ہی طویل اور شاندار تاریخ رکھتا ہے۔ یہی ملک ہے جہاں سے امام بخاری بھی آئے اور علمِ حدیث کو اپنے عروج پر پہنچایا اور تیمور جیسا جابر فاتح بھی کہ جس نے دنیا کو تاراج کیا۔
محلِ وقوع دیکھیں تو ازبکستان کے شمال اور مغرب میں قزاقستان واقع ہے جبکہ جنوب میں ترکمنستان اور افغانستان اور مشرق میں تاجکستان اور قرغزستان ہیں۔
ملک کا دارالحکومت تاشقند ہے۔ جی ہاں! وہی تاشقند جس سے ہماری تاریخ کا ایک اہم حصہ جڑا ہوا ہے۔ 1965ء کی پاک-بھارت جنگ کے بعد امن معاہدہ اسی شہر میں ہوا تھا۔
ازبکستان بذریعہ افغانستان پاکستان تک ایک راہداری بنانے کا خواہشمند ہے تاکہ پاکستان کی بندرگاہوں سے تجارتی سامان براہِ راست ازبکستان پہنچ سکے۔ اس منصوبے پر ابتدائی کام بھی ہو چکا ہے اور امید ہے کہ مستقبلِ قریب میں یہ منصوبہ اس علاقے کی قسمت بدل دے گا۔
ترکمنستان
خطے کا تیسرا اہم ملک ترکمنستان ہے۔ یہ ایران کے شمال میں واقع ہے۔ اس کی سرحدیں شمال اور مشرق میں قزاقستان اور ازبکستان، جنوب مشرق میں افغانستان اور جنوب میں ایران سے ملتی ہے۔
یہاں کی آبادی صرف 58 لاکھ ہے حالانکہ رقبے کے لحاظ سے یہ قزاقستان کے بعد وسط ایشیا کا دوسرا سب سے بڑا ملک ہے اور تقریباً پانچ لاکھ مربع کلومیٹرز پر پھیلا ہوا ہے۔
ترکمنستان کا دارالحکومت عَشق آباد ہے، جو ملک کا سب سے بڑا شہر بھی ہے۔ لیکن یہاں کے جس شہر نے تاریخ میں بہت شہرت حاصل کی، وہ مرو ہے۔ کبھی یہ دنیا کا سب سے بڑا شہر اور اسلامی دنیا کا اہم ترین شہر بھی تھا جہاں سے شاہراہِ ریشم گزرتی تھی۔
تاجکستان
تاجکستان وسطِ ایشیا کا وہ ملک ہے جو پاکستان کے سب سے زیادہ قریب ہے، اتنا قریب کہ ایک مقام پر دونوں ملکوں کی سرحدیں صرف 16 کلومیٹرز دُور رہ جاتی ہیں۔ لیکن مل کر بھی مل نہ پائے کہ انگریزوں کی بنائی گئی واخان کی پٹی درمیان میں حائل ہے۔ یہ پٹی انگریزوں نے ایک معاہدے کے تحت افغانستان کے حوالے کی تھی تاکہ ہندوستان کی سرحد روس سے نہ مل سکے۔ یوں واخان کے پار دو مختلف دنیائیں آباد ہو گئیں۔ ایک طرف انگریزوں کی بنائی ہوئی اور دوسری طرف روسیوں کی۔
بہرحال، تاجکستان کے مشرق میں چین واقع ہے، شمال میں قرغزستان ہے، مغرب میں ازبکستان اور جنوب میں افغانستان ہیں۔
یہ رقبے کے لحاظ سے پورے وسطِ ایشیا کا سب سے چھوٹا ملک ہے اور سب سے غریب بھی۔ صرف 9 لاکھ آبادی رکھنے والے اس ملک کی فی کس جی ڈی پی محض 824 ڈالرز ہے۔
تاجکستان کا دارالحکومت دوشنبہ ہے۔ یہ بھی اپنے ملک کا سب سے بڑا شہر ہے اور ساڑھے 8 لاکھ سے زیادہ کی آبادی رکھتا ہے۔
قرغزستان
قرغزستان تاجکستان ہی کی طرح ایک چھوٹا اور غریب ملک ہے لیکن چین کے عظیم نئے منصوبے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کی بدولت اس کی قسمت کھل سکتی ہے ۔ چین کا شہر کاشغر اس کے بہت قریب واقع ہے اور شاہراہِ ریشم کا قدیم راستہ یہیں سے گزرتا ہے۔ یعنی ہم کہہ سکتے ہیں کہ قرغزستان جدید شاہراہِ ریشم کا پہلا پڑاؤ بن سکتا ہے۔ اس کی سرحدیں وسطِ ایشیا کے تمام اہم ملکوں سے ملتی ہیں، شمال میں قزاقستان ہے، مغرب میں ازبکستان اور جنوب میں تاجکستان۔ یہ قدرتی وسائل سے مالا مال ہے۔ یہاں کے کانوں سے سونا اور کوئلہ بلکہ یورینیئم بھی نکلتا ہے۔
قرغزستان کا دارالحکومت ہے بشکیک۔ یہ بھی ملک کا سب سے بڑا شہر ہے یعنی وہاں سب سے بڑے شہر کو دارالحکومت بنانے کی روایت آج بھی زندہ ہے۔
اگلی قسط میں ہم وسطِ ایشیا میں اسلام کی آمد سے پہلے کے حالات بیان کریں گے۔ یہ علاقہ کیسے آباد ہوا، ابتدائی لوگ کون تھے؟
تبصرہ لکھیے