ہوم << عمران حکومت کیوں رخصت ہوئی؟ ڈاکٹر عتیق الرحمان

عمران حکومت کیوں رخصت ہوئی؟ ڈاکٹر عتیق الرحمان

سازشی نظریات اپنی جگہ، اگر حکومت نے عوام کو سہولت دی ہوتی تو اس کا یہ حال کبھی نہ ہوتا۔ حکومت کی رخصتی کی اصل وجوہات درج ذیل ہیں

1. حکومت نے 50 لاکھ مکانوں کا وعدہ کیا لیکن وفا نہیں ہوا
2. حکومت نے 1کروڑ نوکریوں کا وعدہ کیا جو وفا نہیں ہوا
3. مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ دی
4. خاطر خواہ ترقیاتی کام نہیں ہوئے

یہ وہ وجوہات ہیں جو عام آدمی دیکھتا ہے، لیکن ان سب کے پیچھے ایک مشترکہ وجہ ہے، وہ کیا ہے؟ میں بتاتا ہوں.

سرکار نے 50 لاکھ گھروں کا وعدہ کیا۔ اگر سرکاری شرح سود 3 فیصد تک ہوتی اور پیسہ وافر ہوتا تو عوام کو 5 فیصد پر مکان کے لئے قرض مل جاتے جتنے چاہیں مکان بنا لیں. اس طرح سرکاری شرح سود 3 فیصد پر بزنس لون 5 فیصد پر ممکن تھا، جتنے لوگ چاہتے کاروبار شروع کر دیتے. سرکار نے یہ دونوں کام کئے، لیکن سکیل اتنا چھوٹا اور اتنا سست تھا کہ کوئی نمایاں اثر دکھائی ہی نہیں دیا۔ آپ کے احباب میں سے کتنے لوگ ہیں جن کو مکان کے لئے قرض ملا ہو؟

جبکہ دنیا بھر نے یہی کام کر کے معیشت کو بحال کیا. مثلاً اٹلی نے کرونا سے نمٹنے کے لیے 400 ارب یورو، یعنی تقریبا 1 لاکھ ارب روپے کی لون گارنٹی دی، یعنی اگر آپ قرض لینا چاہتے ہیں تو آپ کو ضمانت میں کسی چیز کے کاغذات جمع کروانے کی ضرورت نہیں۔ آپ کی ضمانت سرکار پہلے ہی دے چکی ہے۔ جبکہ یہاں پاکستان میں روزگار اور مکان کی سکیمز کے تحت تین سالوں میں 100 ارب روپیہ تقسیم نہیں ہو سکا۔ تو یہ وعدہ وفا کرنے میں ناکامی کی وجہ بنیادی طور پر شرح سود ہوئی

اسی طرح سرکار کی ناکامی کی تیسری وجہ ترقیاتی کاموں کا تعطل تھا۔ ترقیاتی کام کیوں نہیں ہوئے؟ اس لئے کہ بجٹ میں گنجائش نہیں تھی۔ بجٹ میں گنجائش کیوں نہیں تھی؟ اس لئے کہ بجٹ کا ایک تہائی سے زیادہ سود کی ادائیگی پر خرچ ہوتا تھا۔ اگر شرح سود 3 فیصد ہوتی تو سود کی ادائیگی 2750 ارب سالانہ کی بجائے 800 ارب سالانہ ہوتی۔ ترقیاتی بجٹ کے لئے پیسے 💰 خود بخود دستیاب ہو جاتے

سرکار کی ناکامی کی چوتھی وجہ مہنگائی پر قابو پانے میں ناکامی ہے۔ اگر سرکار نے بزنس لون وافر مقدار میں دئیے ہوتے تو ان کا اثر لوگوں کی آمدن اور سپلائی دونوں پر پڑتا۔ مہنگائی کا احساس کم ہوتا۔ اسی طرح سود کی رقم میں ہونے والی بچت سے احساس پروگرام کی کوریج اور مقدار دگنا کرنا ممکن تھی۔ لیکن 3000 ارب سود ادا کرنے کے بعد ایسا کوئی بھی اقدام ممکن نہیں بچتا۔

چنانچہ میرے نزدیک سرکار کی ناکامی کی واحد وجہ شرح سود کا انتخاب اور سٹیٹ بینک کے موثر استعمال میں ناکامی ہے۔ کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ شرح سود میں کمی سے کوئی آسمان ٹوٹ پڑتا ہے۔ اب یاد رہے کہ جب تحریک انصاف نے حکومت سنبھالی تو شرح سود 6 فیصد تھی، اسے 13.25 پر کیوں لیجایا گیا؟ کوئی ایک فائدہ جو شرح سود میں اس اضافہ سے حاصل ہوا ہو؟ جب 2020 میں دنیا بھر کے ممالک نے شرح سود صفر کردی، اسوقت پاکستان میں اسے 7 فیصد پر کیوں لاک کیا گیا؟ ابھی حال ہی میں شرح سود میں مجموعی طور پر 5.25 فیصد کا اضافہ ہوا، کسی ایک میکرو اکنامک انڈیکیٹر کو اس کا فائدہ؟ کون سا گرتا آسمان اس بلند شرح سود نے تھام لیا؟ چنانچہ میں اپنے دعوی میں حق بجانب ہوں کہ سرکار کی ناکامی کی وجہ شرح سود کا انتخاب، اور اس میں کمی سے انکار ہے۔ کمی سے متعلق جو خدشات ہیں، مبالغہ پر مبنی ہیں۔

اب جب شرعی عدالت کا فتویٰ آچکا، تدریجاً اس عمل کو شروع کر دیجئے۔ اگلی مانیٹری پالیسی کمیٹی میں 2.5 فیصد اضافے کو ریورس کیجیے۔ اور اس کے بعد ہر اگلی مانیٹری پالیسی کمیٹی میٹنگ میں 1 فیصد کمی کر لیجئے۔ حتی کہ اپ شریعت کورٹ کے فیصلے کے مطابق صفر پر پہنچ جائیں۔ جہاں آپ کو محسوس ہو کہ آسمان ٹوٹنے والا ہے، وہاں پر یہ سلسلہ بیشک روک لیجیے۔ اگر یہ کام کر لیا تو نجات ممکن ہے، وگرنہ 3000 ارب سود دینے کے بعد عوام کو سہولت دینے کا سوچنا بھی مشکل اور بغیر ریلیف دیئے پچھلی حکومت کا انجام تو آپ دیکھ چکے ہیں