ہوم << کون کہتاہے، موت آئی تو مر جاؤں گا . ایم سرورصدیقی

کون کہتاہے، موت آئی تو مر جاؤں گا . ایم سرورصدیقی

بڑے بڑے بھاری بھر کم سیاستدانوں کے مقابلے پرPPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا ذوالفقار علی بھٹو کی تیشخصیت کی بدولت پیپلزپارٹی کے غیر معروف امیدواروں نے مخالفین کی ضمانتیں ضبط کروادیں 1977ء کے الیکشن میں امیدواروںکی شخصیت، سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے.

بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ نتھی ہوگیا معتبرہوگیاوہ دنیا کے پہلے سول چیف مارشل لاء ایڈ منسٹریٹر بھی رہے۔۔۔صدر ِ پاکستان بھی اور وزیر ِ اعظم کے عہدے پر فائزرہے ان کے دورحکومت میں طاقتور وزیرِ اعظم کاتصور ابھرا جس وقت ذوالفقار علی بھٹو کو حکومت ملی قوم سقوط ِ ڈھاکہ کے باعث شکست خوردہ تھی۔زخم ہرے تھے دور دور تک ان کے پایہ کا کوئی لیڈر نہ تھااس صورت ِ حال نے انہیں ایک مطع العنان حکمران بنا دیا پارٹی کے دیگر رہنمائوںکے لئے اختلاف رائے بھی جرم بن گیا خود پیپلزپارٹی کے لوگ کہنے لگے بھٹوکی شخصیت تضادات کا مجموعہ ہے۔شاید اسی لئے متعدد قریبی ساتھی معراج محمد خان، جے اے رحیم، مختارراناوغیرہ۔۔ ذوالفقار علی بھٹو کے دور ِ حکومت میں ان کا ساتھ چھوڑ گئے ۔۔۔ان خوبیوں یا خامیوں کے باوجود ان کے پاکستان پر بہت سے احسانات ہیں 1977ء کا متفقہ آئین ذوالفقار علی بھٹو کا ہی کارنامہ ہے.

اسلامی سربراہی کانفرنس،پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا آغاز،اسلامک بلاک کی تشکیل،تیل کو ہتھیارکے طورپر استعمال کرنے کی سوچ،قادیانیوںکو اقلیت قرار دینا اور ایک لاکھ پاکستانی جنگی قیدیوںکی رہائی ۔۔۔ان کی بہترین کاوشیں قراردی جا سکتی ہیں۔ یہ بات اکثرسننے میں آ تی رہی کہ ذوالفقار علی بھٹو کی قسمت کا فیصلہ اسی روز ہوگیا تھا جس روزپاکستان کے ایٹمی پروگرام کی بنیادرکھی گئی تھی بھٹو نے کہا تھاہم گھاس کھا لیں گے لیکن ایٹمی پروگرام ہر قیمت پر جاری رہے گا اسلامی بلاک کے ایک محرک شاہ فیصل کو ایک سازش کے تحت بھتیجے کے ہاتھوں شہید کروادیا گیادوسرے محرک کو منظر سے ہٹانے کیلئے پھانسی دیدی گئی پیپلزپارٹی کے رہنماایک عرصہ سے یہ بھی کہہ رہے ہیں بھٹوکی پھانسی عدالتی قتل ہے.

بہرحال اس بات میں سچائی ہے یا نہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ آج سے41سال قبل اس لیڈر کوموت دیدی گئی۔۔جو غریبوںکی بات کرتا تھا۔ جس نے پاکستان کی سیاست اور سیاست کاانداز بدل کر رکھ دیا۔۔جس تمام مسلم ممالک کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کا خواب دیکھا۔۔۔جو دل سے چاہتا تھا اسلامک بلاک کی کرنسی ،دفاع اور تجارت مشترکہ ہو ۔ لوگ کہتے ہیں تو ٹھیک ہی کہتے ہوں گے کہ بھٹو اتنا بڑا لیڈر تھا کہ اس کی شخصیت کے پاکستانی سیاست پر اب تلک اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔۔اس کی حمایت اور مخالفت میں اب بھی ووٹ ملتے ہیںحضرت قائد ِ اعظم ؒ کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کانام آج بھی معتبرہے وہ اب اس دنیا میں نہیں لیکن وہ لاکھوں،کروڑوں لوگوںکے دلوںمیں آج بھی زندہ ہیںغالب خیال ہے کہ قیامت تک زندہ رہیں گے۔ ذوالفقار علی بھٹونے پاکستان،جمہوریت اور سیاست کیلئے اپنی جان قربان کردی لیکن اصولوںپر سمجھوتہ کرنا گوارا نہ کیا۔یہ بھی کہا جاتاہے وہ پاکستان کے ایک متنازعہ کردار تھے۔

ان پر پاکستان توڑنے کاالزام بھی لگایا جاتاہے ۔یہ بھی کہا جا سکتاہے ذوالفقار علی بھٹوکا کسی ٹھوس منصوبہ بندی کے بغیر صنعتیںقومی تحویل میں لیناملکی معیشت،تجارت اورکاروبار کو بے انتہا نقصان کا موجب بنا اس کے بعدکاروباری لوگوںنے کسی حکومت پراعتبارکرنا گناہ سمجھ لیاان ساری باتوںسے صرف ِ نظر پیپلزپارٹی کے بانی اپنے مخصوص نظریات،غریبوںسے محبت اور اپنی طلسماتی شخصیت کے باعث ہمیشہ زندہ رہیںگے۔جنرل ضیاء الحق سمیت ان کے کٹر مخالفین بھی اعتراف کرتے ہیں کہ لاکھ کوششوںکے باوجود پیپلزپارٹی ختم کیا جا سکا نہ بھٹو لوگوںکے دلوںسے کھرچے جا سکے۔ جب بھی4اپریل آتاہے لگتاہے سپید دودھیا بالوں والا فرشتہ صورت وہی بابا میرے کان میں سرگوشی کرتاہے

دشمن مرے تے خوشی نہ کرئیے سجناں وی مر جانا

اور میں تائیدمیںسر ہلاکر رہ جاتاہوںکہ واقعی زندگی کی سب سے بڑی سچائی موت ہے او ربھٹو اپنی تربت سے فکری اندز میں آج بھی اپنی برسی کے موقعہ پر دنیا کے طول و عرض سے آئے لوگوں سے مخاطب تو ہوتے ہوں گے

کون کہتاہے، موت آئی تو مر جائوں گا

میں تو دریا ہوں سمندر میں اتر جائوں گا