برادرم رمضان رفیق سوشل میڈیا کا مثبت استعمال کرنے والے ہمارے چند دوستوں میں سے ایک ہیں- دو روز قبل ان کی ڈینمارک سے کال آئی تو ہمارے یہاں رائج اردو بلاگنگ اور انکی کتاب "بے لاگ" کے حوالے سے تبادلہ خیال ہوا. بلاگستان میں آزاد یا انفرادی بلاگنگ کے زوال، بڑے میڈیا گروپس کے بلاگز سیشن، نظریاتی ڈھول باجے کے ساتھ سوشل میڈیا کی ارباب دانش کو اپنے سحر میں اڑا لے جانے والی ویب سائٹس اور ٹی وی چینلز کا ضمنی منجن بن جانے والی ہماری عمومی کیفیت پر وہ شدید مضطرب تھے. آج صبح معروف کالم نگار برادرم آصف محمود کی بھی ایک تحریر نظر سے گزری جس میں انھوں نے انھی چیلنجز میں سے ایک "نظریاتی کشکمش" کو موضوع بنایا تھا.
میں نظریاتی مباحث کے ہرگز خلاف نہیں. سماج کی نشوونما میں نظریات بنیاد کی حیثیت رکھتے ہیں لیکن بطور قوم مسلسل نظریاتی کشکمش میں الجھے رہنا ہرگز فائدے کا سودا نہیں ہے. ہمارے یہاں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں میں سوشلزم اور اسلامزم کے افکار پر طلبہ انجمن سے لے کر لیبر یونین تک اور طبقہ علماء سے لے کر ارباب ادب تک ایک رسہ کشی کا ماحول تھا، اب لبرلزم اور اسلامزم کی جنگ اپنے زوروں پر ہے- برسرزمین اس ساری مشق کا حاصل یہ ہے کہ نہ کبھی سوشلسٹ اقتدار میں آسکے نہ اسلام پسند اور مستقبل میں لبرلز کے بھی کوئی آثار نہیں ہیں- ہماری معروضات یہ ہیں کہ لوگ نظریات پر ووٹ نہیں دیتے لیکن ناجانے کیوں اہل دانش پھر بھی نظریات کے ترانے کو صبح و شام بجانا خود پر واجب سمجھتے ہیں. ہمارے سامنے ترکی اور ملائیشیا ایسے سماج کی مثالیں ہیں، وہاں عملیت پیش پیش ہے اور نظریات پس منظر میں مستعد.
پاکستان میں بلاگنگ کو نظریاتی جنگ کے علاوہ جو چیلنجز درپیش ہیں، ان میں سب سے بڑھ کر انفرادی و موضوعاتی بلاگنگ کا زوال اور مین اسٹریم میڈیا کے منفی اثرات ہیں. کوئی 12 سال ہوتے ہیں کہ اردو بلاگنگ کا سلسلہ شروع ہوا. اس زمانے میں ہم کئی ایسے بلاگ دیکھتے تھے جو اپنے اردگرد کی حقیقی زندگی کو موضوع بحث بناتے یا تخلیقی دنیا میں تخیل کی پرواز بھرتے. فیس بک کے پہلے کی یہ دنیا عجیب تھی، لکھنا ہر ایک کا یارا نہ تھا. زیادہ تر لکھنے والے آئی ٹی ماہرین ہوا کرتے تھے، زبان و بیان کے اعتبار سے وہ کوئی عمدہ ترین تخلیق کا باعث ہرگز نہ تھے لیکن ابلاغ اور تحریر کے میدان میں انھوں نے گلی محلوں اور گائوں دیہات کے شب و روز کو شامل کیا. ہماری بدقسمتی ہے کہ رفتہ رفتہ ایسے بلاگ اجڑتے گئے اور ان کی جگہ تنازعات کی تجارت شروع ہوگئی. جتنی تیزی سے انٹرنیٹ ہماری اربن مڈل کلاس میں پھیلتا گیا، اتنی ہی تیزی سے ہمارے شہری زندگی کا مزاج یہاں بھی کثرت سے نظر آنے لگا. اب بلاگنگ گلی محلے، کالج یونیورسٹی اور نوکری کاروبار کے مسائل سے فرار اختیار کرکے نیوز ہیڈ لائن کے چٹخاروں پر مغز ماری، تنازعات کی دکان داری اور سیاسی رسہ کشی کا نام ہے.
اربن مڈل کلاس اپنے مسائل سے کس قدر لاتعلق ہے، اس کا اندازہ یوں لگالیں کہ پچھلے دنوں میں نے ٹریفک مسائل، مرکزی داخلہ پالیسی، درختوں کی کٹائی اور کے الیکڑک ایسے موضوعات پر کافی محنت کرکے بلاگ تحریر کیے لیکن ان پر ٹریفک نہ ہونے ہے برابر تھی. دوسری طرف میری نظریاتی موضوعات پر سرسری تحاریر کو بھی اس سے کئی گنا زیادہ ٹریفک ملتی ہے. مغربی ممالک میں بلاگنگ پروفیشنلزم کے دور میں داخل ہوچکا ہے، طب سے لے کر طبیعات تک اور مذہب سے لے کر معیشت تک ہر موضوع پر مقامی زبانوں میں کام ہورہا ہے. اب وقت آ گیا ہے کہ ہم بھی اہداف طے کریں. کیا ہمیں لکھتے ہوئے ٹریفک اور لائیکس کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے یا سماج کی حقیقی ضرورتوں کو؟ کیا ہمیں نیوز ہیڈلائنز اور وائرل ٹیگز پر کام کرنا ہے یا اپنے روزمرہ کے مسائل پر؟ اسپشلائزیشن کے دور میں ہمیں موضوعاتی بلاگنگ کو جلا بخشنی ہے یا ہر ایک کو جنرل فزیشن بنادیا جائے؟ انفرادی بلاگ کے ذریعے آزادی اظہار کے دیے روشن کریں یا میڈیا گروپس کا ایندھن بن کر ایڈیٹر کی کینچی سے گزریں؟ اور یا بیانیے کے عنوان سے عملیت کا گلا گھونٹ کر تنازعات کی روٹی کھائیں؟
اسمارٹ فون کی آمد کے بعد لکھنے اور پڑھنے کا رجحان ماضی کے مقابلے میں کئی گنا بڑھ چکا ہے. ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور فیس بک کی بدولت قارئین اور لکھاری دونوں کی کمی نہیں رہی. یہی وجہ ہے کہ اخبارات کی محدود دنیا میں لکھنے والے ٹریڈ مارک دانشور بھی اب انٹرنیٹ کے لامحدود اسکوپ سے فائدہ اٹھانے کی کوشش میں مصروف ہیں -گویا بلاگنگ کے لیے بھی یہ بہترین وقت ہے. ان حالات میں میں رمضان رفیق ایسے عملیت پسند لوگوں کو مایوس نہیں ہونا چاہیے. کرک نامہ ہمارے پاس پروفیشنل بلاگنگ کی ایک زندہ مثال ہے. یہی وقت ہے کہ ان مثالوں کی پیروی کرتے ہوئے دلیل، عقلیت، عملیت پسندی اور پروفیشنلزم کا پرچم بلند کیا جائے۔
تبصرہ لکھیے