ہوم << وزیراعظم عمران خان کی ضد۔۔۔ وجہ کیا؟ جمال عبداللہ عثمان

وزیراعظم عمران خان کی ضد۔۔۔ وجہ کیا؟ جمال عبداللہ عثمان

گزشتہ چند ماہ سےوزیراعظم عمران خان ایک ”ٹاسک“ حاصل کرنے کے لیے سرگرداں ہیں۔ اسے آپ ان کی ”ضد“ کہہ سکتے ہیں۔ کابینہ کی کوئی میٹنگ ایسی نہیں ہوتی، جس میں اس پر طویل گفتگو نہ ہوتی ہو۔ کابینہ کے بعد کوئی بریفنگ ایسی نہیں ہوتی، جس میں اس کا تذکرہ نہ ہو۔ وزیراعظم نے اسے زندگی اور موت کا مسئلہ بنارکھا ہے۔ ان کے خیال میں تمام مسائل کا اول وآخر حل یہی ہے۔ اور وہ ہے الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ۔

الیکٹرونک ووٹنگ مشین گزشتہ چند ماہ سے بہت زیادہ زیربحث ہے۔ لیکن آئی ووٹنگ سے متعلق زیادہ گفتگو ٹاک شوز میں ہوئی نہ ہی عوام میں اس پر کوئی خاص بحث نظر آئی۔ الیکٹرونک ووٹنگ مشین، عام انتخابات میں پاکستان کے ہر حلقے اور ہر پولنگ بوتھ کے لیے استعمال ہوگی، جبکہ ”آئی ووٹنگ“ کے ذریعے بیرونِ ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق مل سکے گا اور دنیا کے کسی بھی حصے سے وہ اپنا ووٹ کاسٹ کرسکیں گے۔
وزیراعظم عمران خان الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کے لیے اس قدر پریشان کیوں ہیں؟ ممکن ہے کہ میں غلطی پر ہوں لیکن چند ماہ قبل جب اس پر حکومت مسلسل اصرار کررہی تھی اور اس وقت ”صفحہ“ بھی ایک تھا۔ تب بھی میرا خیال تھا کہ وزیراعظم کو یہ خوف لاحق ہے کہ یہ ایک صفحہ کسی بھی وقت ”پھٹ“ سکتا ہے۔ اور اسی لیے انہیں اپنے طور پر اگلے انتخابات کو شفاف بنانے کے لیے کوئی ایسا راستہ نکالنا پڑے گا جس میں اگر اسٹیبلشمنٹ ان کی طرف کھڑی نہ ہو تب بھی ان کا مینڈیٹ چوری نہ کیا جاسکے۔

دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کو ایک اور خوش فہمی ہے۔ یہ بہت حد تک درست بھی ہے۔ اور وہ یہ کہ آئی ووٹنگ کے ذریعے اوورسیز پاکستانیوں کا بڑی تعداد میں ووٹ حاصل کرسکیں گے۔ کچھ دن پہلے روزنامہ ”جنگ“ اور ”دی نیوز“ کے نمایندہ خصوصی زاہد گشکوری نے بڑی دلچسپ اور معلوماتی رپورٹ بنائی۔ اس کے مطابق اگر بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کو ووٹ کا حق ملا تو اس کا سب سے زیادہ فائدہ پاکستان تحریک انصاف کو ہوگا۔ جبکہ دوسرے نمبر پر پاکستان مسلم لیگ ن اور تیسرا نمبر پاکستان پیپلز پارٹی کا ہوگا۔ واضح رہے کہ پاکستان تحریک انصاف اور ن لیگ کے ووٹوں کا فرق اتنا زیادہ نہیں کہ جس کی بنیاد پر پی ٹی آئی کی نشستوں میں خاطر خواہ اضافہ ہوسکے، لیکن اس کے باوجود یہ بہرحال پی ٹی آئی کے ووٹرز میں اضافے کا سبب ضرور بن سکتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی ہر ممکن کوشش تھی کہ اگلے انتخابات سے قبل الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ساتھ ساتھ ”آئی ووٹنگ“ کا راستہ بھی ہموار کیا جاسکے۔ پاکستان تحریک انصاف نے اس پر ایک تھرڈ پارٹی آڈٹ بھی کرایا۔ مگر دلچسپ بات یہ ہے کہ اس آڈٹ رپورٹ نے بھی پی ٹی آئی کی اُمیدوں پر پانی پھیردیا۔ اسپین سے تعلق رکھنے والی کمپنی نے اپنی آڈٹ رپورٹ میں لکھا کہ نادرا کے زیراستعمال ٹیکنالوجیز پرانی اور زد پذیر ہیں۔ انٹرنیٹ ہیکرز ان کا غلط استعمال کرسکتے ہیں۔ اور ساتھ ہی یہ بھی کہ اگر نئے سرے سے نیا سسٹم بنانا پڑا۔ تو اس میں تین سال تک لگ سکتے ہیں۔ اس کے باوجود یہ نظام قابلِ اعتبار نہیں ہوگا۔ پی ٹی آئی کہیں اس رپورٹ کا ذکر کرتے نظر نہیں آئے گی، لیکن اسے خود اندازہ ہے کہ یہ سسٹم خود اس کے خلاف استعمال ہوسکتا ہے۔

دوسری طرف الیکٹرونک ووٹنگ مشین سے متعلق بھی ماہرین کی آرا بڑی دلچسپ ہیں۔ پاکستان تحریک انصاف کے خیال میں اس مشین کو ہیک کیا جاسکتا ہے نہ ہی اس میں کوئی ہیرا پھیری ہوسکتی ہے۔ لیکن ”پلڈاٹ“ کی ایک کانفرنس میں یہ مشین بنانے والے ایک ایکسپرٹ نے دعویٰ کیا کہ میں اس میں ہیراپھیری کرکے دکھاسکتا ہوں۔ اس سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ دنیا میں کئی ممالک میں یہ مشین استعمال ہوئی، اور بعد میں انہیں ترک کرنا پڑی۔ یہ وہ ممالک ہیں جہاں الیکشن میں دھاندلی اور ہیراپھیری کا رُجحان نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کے باوجود ان ممالک کو الیکٹرونک ووٹنگ مشین چھوڑنا پڑی۔ ان ممالک میں فرانس، جرمنی، آئرلینڈ، ہالینڈ اور ناروے وغیرہ شامل ہیں۔

ایک مثال ہمارے سامنے انڈیا کی ضرور ہے۔ وہاں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات ہوتے ہیں۔ لیکن اہم بات یہ ہے کہ انڈیا میں الیکٹرونک ووٹنگ مشین کا تجربہ 80ء کی دہائی سے شروع ہوا ہے۔ اور کئی عشروں کے تجربات کے بعد جاکر وہ اس قابل ہوئے ہیں کہ پورے ملک میں اس مشین کے ذریعے انتخابات کروائے جائیں۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انڈیا انتخابات کے اندر وہ ”فیکٹرز“ کبھی نہیں رہے جو پاکستان میں ہوتے ہیں۔ یعنی انتخابات پر ”اسٹیبلشمنٹ“ کے گہرے اثرات۔ اپنی مرضی کے نتائج۔

پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت مگر یہ چاہتی ہے کہ اس مشین کو اگلے عام انتخابات میں پورے ملک کے اندر نافذ کیا جائے۔ یہ بالکل ایک ناممکن سا کام لگتا ہے۔ اگر اس مشین کو ہر صورت پاکستان کے انتخابات کے لیے ناگزیر سمجھا جائے تب بھی اس کا بہتر حل یہی ہوسکتا تھا کہ اسے مختلف ضمنی انتخابات کے اندر استعمال کیا جاتا۔ پریس کلبز، بار کونسلز کے انتخابات اس کے ذریعے کروائے جاتے۔ آخر میں بلدیاتی انتخابات کے لیے اس کا ایک اور ٹیسٹ لیا جاسکتا تھا۔ ایسی صورت میں اس مشین کے اندر ہونے والی خرابیوں کا پتا چلتا۔ اسے بہتر کیا جاتا۔ اور ممکن ہے اگلے دس یا پندرہ سال بعد ہم واقعی اس قابل ہوتے کہ پورے ملک میں اس مشین کے ذریعے انتخابات کروائے جاتے۔

یہ سب باتیں اپنی جگہ۔ یہ آپ کے نظام کو بہتر کرنے کی ایک سعی ہوسکتی تھی ہے لیکن اس کے ذریعے سے انتخابات میں مکمل شفافیت آئے گی، میری نظر میں یہ بہت ہی سادگی والی بات ہے۔ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں، ان سے میرا سوال یہ ہے کہ پاکستان میں انتخابات کی غیرشفافیت کی وجہ گنتی کا بروقت اور درست نہ ہونا ہے؟ مشین درست کرلو، مگر مشین چلانے والوں کو جب تک درست نہیں کریں گے، کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ میں مثال دیتا ہوں۔ اس سے پہلے 2013ء اور 2018ء میں ایسی ہی ٹیکنالوجیز استعمال کرکے انتخابات ہوئے۔ اور دونوں ہی انتخابات بدترین تنازعات کا شکار ہوئے۔ 2013ء کے بعد پاکستان تحریک انصاف نے حکومت کو ایک دن بھی چین سے کام کرنے نہیں دیا۔ الزام یہ تھا کہ ہمارا مینڈیٹ چوری کیا گیا ہے۔ جبکہ 2018ء کے انتخابات کو اپوزیشن اور خود حکومت کی اتحادی جماعتیں آج بھی دل سے قبول کرنے کو تیار نہیں۔ 2018ء کی رات ”آرٹی ایس“ جس طرح بیٹھ گیا یا ”بٹھایا“ گیا، الیکٹرونک ووٹنگ مشین کی وکالت کرنے والوں کے لیے اس سے بڑی دلیل کیا ہوسکتی ہے کہ ہمارا مسئلہ مشین نہیں، مشین استعمال کرنے والے ہیں۔

سو اگر وزیراعظم عمران خان اور پاکستان تحریک انصاف کا یہ خیال ہے کہ وہ الیکٹرونک ووٹنگ مشین اور آئی ووٹنگ کے ذریعے کسی قوت کو ووٹ چوری کرنے سے روک لیں گے، تو یہ ان کی بہت بڑی خام خیالی ہے۔ اس سے اپنے آپ کو اطمینان تو دلایا جاسکتا ہے، لیکن ووٹ چوری اور جعلسازی کو روکنا ناممکنات میں سے۔ مثال تو شاید درست نہ ہو، لیکن اور کوئی چارہ نہیں۔ کنویں کے اندر سے آپ جتنا مرضی پانی نکالتے رہیں، جب تک اس کے اندر گرنے والے کو نہیں نکالیں گے، تب تک وہ پینے کے قابل نہیں رہے گا۔ جب تک انتخابات کے اندر غیرجمہوری قوتوں کی مداخلت کو ختم یا کم نہیں کریں گے، تب تک مشینوں کے ذریعے شفاف انتخابات کا خواب محض خواب ہی رہے گا۔