ہوم << تری پورہ میں تشدد اور مسلم ردِّعمل - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

تری پورہ میں تشدد اور مسلم ردِّعمل - ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

ہندوستان کے شمال مشرق میں واقع سرحدی ریاست تری پورہ میں مسلمانوں کے خلاف فساد کا آغاز ہوئے ایک عشرہ ہوگیا ہے، لیکن اب تک قصور واروں کو گرفتار نہیں کیا گیا ہے اور انھیں کوئی سزا نہیں دی گئی ہے۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق یہ فساد پڑوسی ملک بنگلہ دیش میں ۱۳ سے ۱۶؍ اکتوبر کے درمیان دُرگا پوجا کے موقع پر برپا ہونے والے فرقہ وارانہ فساد کا ردِّ عمل ہے۔ بتایا جا رہا ہے کہ بنگلہ دیش میں ایک شخص نے فیس بک پر ایک تصویر پوسٹ کی، جس میں ہندوؤں کے ہنومان کی گود میں قرآن رکھا ہوا دکھایا گیا تھا۔ یہ تصویر اگرچہ کئی برس پرانی اور جعلی تھی، لیکن اسے دیکھ کر مسلمان پوجا کے پنڈال کے باہر جمع ہوئے اور انھوں نے پنڈال میں رکھے ہوئے دیوی دیوتاؤں کے مجسموں کو توڑ دیا۔ بہرِ حال بنگلہ دیشی حکومت نے فوراً کارروائی کرکے اور بڑے پیمانے پر قصور واروں کو گرفتار کرکے فساد پر قابو پالیا۔

لیکن اس کا ردِّ عمل ریاست تری پورہ میں، جس کی سرحدیں بنگلہ دیش سے ملتی ہیں، دیکھنے کو ملا۔ یہاں وشو ہندو پریشد کی طرف سے ایک بڑا جلوس نکالا گیا، جس میں خاتم النبیین حضرت محمد ﷺ کا نام لے کر آپؐ کی شان میں گستاخی کی گئی، مسلمانوں کے خلاف زبردست نعرے بازی کی گئی، ایک درجن سے زائد مساجد میں توڑ پھوڑ کی گئی، ان میں بھگوا جھنڈے لگائے گئے اور انھیں نذرِ آتش کر دیا گیا۔ اسی طرح مسلمانوں کے رہائشی مکانات، دکانوں اور کارخانوں کو نشانہ بنایا گیا اور ان میں آتش زنی کی گئی۔

تری پورہ ملک کی تیسری سب سے چھوٹی ریاست ہے، جہاں کی کل آبادی بیالیس (۴۲) لاکھ ہے۔ اس میں ہندو 83.4فی صد ہیں، جب کہ مسلمانوں کا تناسب8.6فی صد ہے، عیسائی 4.3فی صد اور بودھ 3.4 فی صد ہیں۔ زیادہ تر لوگ بنگالی بولنے والے ہیں۔ ان میں ہندو ووٹوں کا پولرائزیشن کرنے کے مقصد سے ملک کے مختلف حصوں میں فرقہ وارانہ فسادات کروانے کی سازش رچی جا رہی ہے۔ تری پورہ کے فساد کو اسی نقطۂ نظر سے دیکھنا چاہیے۔

ایک عشرہ گزر جانے کے باوجود اب تک ریاست کی انتظامیہ اور پولیس حرکت میں نہیں آئی ہے اور کسی کی گرفتاری نہیں ہوئی ہے، بلکہ اس کے برعکس ڈی جی پی نے اپنے بیان میں مساجد میں آگ زنی کے واقعات کو فرضی بتایا ہے۔ ملک کی ایک ریاست میں اتنا بڑا واقعہ ہوجانے کے باوجود وزیر اعظم اور وزیر داخلہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کا ردِّ عمل بہت مایوس کن ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ مسلمانوں کی حمایت میں کوئی بیان دینے سے انھیں ہندو ووٹ سے محروم ہونے کا خدشہ لگا ہوا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کی فضا کو کتنی تیزی سے مسموم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور اسے فرقہ وارانہ خطوط پر تقسیم کرنے کی سازش رچی جا رہی ہے۔

تری پورہ کے اس فساد، مسلمانوں پر یک طرفہ مظالم اور دہشت گردی کے خلاف مسلمانوں کی دینی و ملّی تنظیموں نے اپنے ردِّ عمل کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مطالبہ کیا ہے کہ جن لوگوں نے جلوس میں پیغمبر اسلام کی مبینہ توہین کی ہے، مسجدوں کو نذرِ آتش کیا ہے اور مسلمانوں کے مکانوں، دکانوں اور کارخانوں میں توڑ پھوڑ کی ہے اور آگ لگائی ہے، انھیں قانون کی گرفت میں لایا جائے اور قرارِ واقعی سزا دی جائے۔ پریس میں بیانات دینے کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں مسلمانوں کی طرف سے احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں اور میمورنڈم دیے گئے ہیں۔ چند روز قبل ملک کے دار الحکومت دہلی میں تری پورہ بھون کے سامنے مختلف تنظیموں نے زبردست مظاہرہ کیا تھا۔ جماعت اسلامی ہند،جمعیۃ علمائے ہند، آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت، اور جمعیت اہلِ حدیث کے وفود نے تری پورہ کا دورہ کیا ہے۔ مولانا محمود مدنی نے اعلان کیا ہے کہ جن مسجدوں، دکانوں اور مکانوں کو نقصان پہنچا یا گیا ہے، جمعیت کی طرف سے ان کی تعمیر نو کی جائے گی۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ کی طرف سے بھی مذمتی بیان آچکا ہے۔

اس موقع پر بعض پُر جوش نوجوانوں کی طرف سے مسلم قیادت کے بارے میں ناشائستہ انداز میں غم و غصہ کا اظہار کیا گیا ہے ۔ ان کا کہنا ہے کہ قیادت بوڑھی اور ناکارہ ہوچکی ہے، وہ ہندوستانی مسلمانوں کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے، اس لیے اسے ہٹا کر نوجوان قیادت کو سامنے لانا چاہیے۔ میری نظر میں یہ محض جذباتی باتیں ہیں۔ ہندوستان میں مسلم امّت کے مسائل بہت گمبھیر ہیں ۔ ان کی شدّت میں دن بہ دن اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ہندوتوا کی عَلَم بردار قوّتیں روز بہ روز طاقت وَر ہوتی جا رہی ہیں اور مسلمانوں کے خلاف ان کی سازشیں بڑھتی جا رہی ہیں۔ اس صورتِ حال میں مسلمانوں کی رہی سہی قیادت کو کم زور کرنے کے بجائے اسے حمایت دینی چاہیے۔ موجودہ حالات تقاضا کرتے ہیں کہ ایک دوسرے پرتنقید کرنے اور الزامات لگانے کے بجائے اجتماعی فیصلے کیے جائیں اور مل جل کر انہیں نافذ کرنے کی کوشش کی جائے۔