ہوم << بیٹے سے محروم تین بیٹیوں کی والدہ کی کہانی - زارمظہر

بیٹے سے محروم تین بیٹیوں کی والدہ کی کہانی - زارمظہر

جب میری پہلی بیٹی ہوئی، میرا دل ٹوٹ سا گیا .مجھے بڑی امید اور آس تھی کہ مجھے پہلا بیٹا ہو، کیونکہ میرا کوئی بھائی نہیں تھا ، لیکن میرے رب کی مرضی کچھ اور تھی۔ احمد نے مجھے دلاسہ دیا اور کہا کہ اللہ کا شکر ہے جو اس نے ہمیں صاحبِ اولاد کیا . بیٹی ہے تو کیا؟ اللہ کا شکر ہے ایک دم صحت مند اور ہاتھ پاؤں سلامت ہیں۔ اللہ اگلی بیٹا بار دے دے گا ۔ گڑیا بڑی پیاری تھی، دیکھتے ہی دیکھتے گل گوتھنی سی ہوگئی۔ خود ہی پیار لے لیتی۔

ہم نے ابھی عملی زندگی میں قدم رکھا تھا. احمد کو بہت سارے بچے پسند تھے، میں نے اگلی بار کی امید پہ بچی کو خوش دلی سے قبول کر لیا تھا. دوسرے حمل کے دوران میرا دل وسوسوں میں گھرا رہا، بلکہ خشک پتے کی طرح کانپتا رہا. احمد مجھے تسلی دیتے رہتے. ہر دن بیٹے کے لیے میری خواہش شدید ہوتی رہی، لیکن دوسری بار بھی بیٹی ہوئی. میں احمد کے گلے لگ کے پھوٹ پھوٹ کے روئی، لیکن احمد نے ایک بار پھر رب کی رضا کے آگے سر جھکا دیا ۔ انھوں نے خوش دلی سے دوسری بٹیا کو خوش آمدید کہا .وہ اپنی قسمت پہ قانع تھے. مجھے اگلی بار پھر بیٹے کی امید دلا دی. اپنے گھر کو جنت سمجھتے اور اپنی بسائی جنت میں خوش تھے۔ بچیاں بے حد خوبصورت اور صحت مند تھیں۔ رب کے حکم سے ہمیں تیسری بار بھی بیٹی ہی عطا کی گئی۔ میں نے رو دھو کے پھر ہتھیار ڈال دیے اور اپنی قسمت پہ شاکر ہوگئی۔ لیکن اپنی خواہش سے دستبردار ہونا اتنا سہل نہیں تھا۔

مجھے اللہ نے میری شدید خواہش پہ بھی بیٹا نہیں دیا تھا. اپنی ایک نعمت سے محروم رکھا تھا ،دوسری طرف رحمتوں کی بارش کردی. گھر میں خوشحالی تھی اور ہم زوجین کے مابین مہر و محبت قائم تھی. ہم بچیوں کی پرورش اور تربیت میں مشغول ہو چکے تھے اور اپنے مالک کے بے حد شکر گزار تھے کہ ہمیں اولاد کی نعمت سے محروم نہیں رکھا۔ اب میں بیٹے کی خواہش سے دستبردار ہوچکی تھی. ہم اپنی تینوں بیٹیوں کے ساتھ بے انتہا خوش تھے، لیکن دنیا کو چین نہیں تھا. تین بیٹیوں والے کا القاب برادری بھر میں ہمارا تعارف تھا۔ ہر نیا متعارف ہونے والا ہماری کمی پہ متاسف ہوتا، ترس کھاتا ۔ بچیاں بڑی ہوئیں تو قدم قدم پہ بھائی کی کمی محسوس کرتیں۔

بھائی نہ ہو تو ہر آوارہ لونڈا کتا بن جاتا ہے. احمد دن بدن کمزور ہوتے جا رہے تھے. وہ کتوں کو پٹہ نہیں ڈال سکتے تھے. ہم نے اپنے گھر کے دروازے بند کر لیے. بیٹیوں کا بچپن چھین لیا. ان کی سرگرمیاں محدود رکھیں تاکہ مسائل کم ہوں. جو بھی کرنا ہے گھر کے اندر ہی رہ کر کریں ۔ سبزی ترکاری میں چار آنے دھنیا یا ٹماٹر بھی کم ہوتا تو میں اس کے بنا ہی پکا لیتی تاکہ بیٹی کو باہر نہ بھیجنا پڑے۔ اسی طرح کئی چھوٹی چھوٹی آسائشات ہماری زندگی سے روٹھ چکی تھیں۔ وین والا چھٹی کر لیتا تو بچیوں کو بھی چھٹی کرنا پڑتی۔ کئی بار میں چھوڑ کے آتی لیکن ہمیشہ میرا چھوڑنا ممکن نہیں ہوتا تھا، کئی اہم ٹسٹ رہ جاتے۔ برادری والے ہم سے دور دور ہی رہتے ،کہیں کوئی ذمہ داری نہ اٹھانی پڑ جائے. ہمیں معتبر نہیں سمجھتے تھے. ہماری ہلکی رائے کی کوئی اہمیت نہیں تھی. بوڑھے باپ کے ساتھ اس کا جوان بیٹا اس کی عصا بن جائے، تب وہ معتبر کہلاتا ہے ۔ بیٹا چاہے چور ڈاکو ہی نکلے، لولا لنگڑا ہی ہو، بیٹیوں پہ فوقیت رکھتا ہے۔ مجھے اپنی ایک ہم جماعت یاد ہے جس کا ذہنی معذور بھائی حفاظت کے خیال سے اسے روزانہ سکول چھوڑنے آتا تھا. اب سوچتی ہوں جو اپنے منہ میں خود سے نوالہ تک نہ ڈال سکے، اپنے کپڑے تک نہ بدل سکے، حوائجِ ضروریہ سے فراغت کے لیے دوسروں کی مدد کا محتاج ہو، وہ بہن کی حفاظت کیسے کر سکتا ہے۔ لیکن ہمارے بیمار معاشرے کی عمومی سوچ یہی ہے کہ مرد بہادر ہے اور عورت صنف نازک۔

خیر وقت گزرتا رہا، لیکن کڑا وقت اتنی آسانی سے نہیں گزرتا ، دھیرے دھیرے گزرتا ہے اور کئی زخم چھوڑ کے جاتا ہے، ہمارے من میں بھی کئی گھاؤ لگتے رہے۔ رب کی رب جانے، ہمیں کسی مصلحت کے تحت رب نے اپنی نعمت سے محروم رکھا، لیکن دنیا نے ہمیں اس ناکردہ جرم کی بڑی سزا دی۔ قدم قدم پہ ہماری اس کمی کا احساس دلایا جاتا۔ احمد اب بیمار رہنے لگے تھے، انھیں سہارے کی ضرورت تھی، اکیلے ہی سعی کرتے اور دنیا کے محاذ کا مقابلہ کرتے بہت جلد ٹوٹ پھوٹ گئے۔ بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہونا چاہتے تھے، سو ایک ایک کر کے کم عمری میں بیٹیوں کو ان کے گھروں کو روانہ کر دیا ۔

دنیا میں رشتہ دار برادری ہوتی ہے ناں ۔۔۔ شایدصرف طعنے دینے کے لیے ۔۔۔ ضرورت پڑنے پہ ہاتھ کوئی نہیں بٹاتا ۔ کیا ضرورت ہے بیٹیوں کو پڑھانے کی یا اچھا کھلانے کی، انھیں گھر بٹھاؤ بھئی۔ کہیں سے آواز آتی احمد کو چاہیے اپنی کمائی سنبھال کر رکھے، کل کو شادی میں کام آئے گی۔ کوئی بیٹا تو ہے نہیں جو ہاتھ بٹائے گا. کفن دفن کا بھی بار بھی برادری پہ ہی ہوگا. ہم ایک کان سے سنتے دوسرے سے اڑا دیتے۔ جب ایک ایک کر کے میری تینوں بیٹیاں رخصت ہوئیں تو ان کے دائیں بائیں یا پیچھے بھائی نہیں تھے۔ بھائیوں والی جگہ خالی تھی۔ شادی کے بعد بھی بیٹیوں کو قدم قدم پہ احساس دلایا گیا کہ ان کا بھائی نہیں ہے جو ان کے پیچھے آئے گا، جو سلوک چاہا روا رکھا ۔ بیٹیاں بھی صبر کرتے کرتے عادی ہو چکی تھیں، انھوں نے سمجھ لیا تھا کہ ہماری زندگی یوں ہی گزرے گی، کبھی شکایت لیکر نہیں آئیں، جو بھی گزرا سہہ لیا۔

لیکن اوپر والا بڑا بے نیاز ہے، بندے سے اور اس کی خواہشات سے کبھی غافل نہیں رہتا. اللہ نے تینوں بیٹیوں کو یکے بعد دیگرے چار چار بیٹے عطا کیے. میرا گھر درجن بھر بیٹوں سے بھر گیا، بلکہ چھوٹا پڑنے لگا۔ ہر وقت کوئی نہ کوئی بیٹی آئی رہتی، لڑکوں والے کھیل کھیلے جاتے، صحن میں دھما چوکڑی مچی رہتی۔ یہ سب کچھ مجھے بے حد اچھا لگتا ۔ برادری میں اچانک ہماری ویلیو بڑھ گئی اور ہر معاملے میں رائے کو اہمیت دی جاتی۔

اب جبکہ میں ایک طویل وقت نشیب و فراز کے ساتھ گزار آئی، سوچتی ہوں بیٹا ہو یا بیٹی، اسے پالنا پوسنا ماں باپ کی ذمہ داری ہوتا ہے، اس کے فوائد سے فائدہ بھی ماں باپ کو ہی پہنچتا ہے اور بیٹے سے محرومی کی مشکلات بھی والدین ہی سہتے ہیں، لیکن معاشرہ بھی نشتر بن جاتا ہے۔ بیٹیوں کو عیب سمجھا جاتا ہے بلکہ جوتے بھی مارے جاتے ہیں ۔ ایسے ہی بیٹوں سے آنگن بھر جائے تو اپنے والدین کے ہی رہتے ہیں لیکن دنیا ایویں ہی مرعوب ہوتی رہتی ہے۔