پاکستان بننے کے بعد کئی حکومتیں آئیں،چہرے تبدیل ہوئے اور ملک کو لوٹنے والوں نے اپنی جائیدادوں میں اضافہ کیا اور اپنا مقدر بدل لیا۔ بدقسمتی سے عوام کا مقدر ویسا ہی رہا جیسا برصغیر کی تقسیم سے پہلے تھا۔ ہر حکومت نے اپنی پالیسی کے مطابق مہنگائی کی لیکن موجودہ حکومت نے مہنگائی کے پچھلے تمام ریکارڈ توڑ ڈالے۔ عمران خان اپنے بلند و بالا دعوؤں میں سے کوئی ایک ایسا دعویٰ بھی پورا نہ کر سکے جس سے عوام کو فائدہ پہنچتا۔مہنگائی کا جن پتہ نہیں کب تک بے قابو رہے گا؟کب عوام کے حالات بدلیں گے؟ کب غریب کو بنیادی سہولیات ملیں گی؟ یہ ایسے سوالات ہیں جن کا جواب تلاش کرنے میں ہم سب بے بس ہیں۔ لیکن جو کچھ ہمارے اختیار میں ہے وہ ہمیں کرنا چاہئے تا کہ اس ہوشربا مہنگائی میں سکھ کا سانس لینا نصیب ہو سکے۔اپنے غیر ضروری اخراجات گھٹا کر بچت کرنا ہو گی اور اس بچت سے اپنے قرضوں سے نجات حاصل کرنا ہو گی کیونکہ قرض انسان سے اسکا ذہنی سکون چھین لیتا ہے۔ضروریات اور خواہشات کا فرق ذہن میں رکھتے ہوئے سوچنا ہو گا کہ ضروریات تو فقیر کی بھی پوری ہو جاتی ہیں اور خواہشات تو بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہوتی۔
انسان کی ضروریات محدود ہیں مگر افسوس کہ انسان کو خواہشات نے اندھا کر رکھا ہے۔ مہنگی گھڑی،مہنگے کپڑے،مہنگے جوتے اور مہنگی گاڑی کی بجائے انسان کی ضرورت سستی اور معیاری چیزیں بھی پوری کر سکتی ہیں۔کافی مہنگے برینڈز کی چیزیں بھی اکثر جلد ناکارہ ہو جاتی ہیں۔ اس لئیے ہمیں برینڈ کے نشے سے نکل کر سادگی کی طرف راغب ہونا ہو گا۔ کافی حد تک انسان نے اپنی زندگی کو جنجال خود بھی بنا رکھا ہے۔انسان کا پیٹ سوکھی اور روکھی روٹی سے بھی بھر سکتا ہے۔ہمارے اجداد روکھی سوکھی کھا کر بھی صحت مند اور خوش رہتے تھے۔ اب فاسٹ فوڈ ریسٹورینٹس سمیت کھانوں کے اکثر بڑے ہوٹل باسی کھانا کھلاتے ہیں اور اپنی زیب و زینت کے پیسے لیتے ہیں اور ہم اتنا مہنگا کھانا کھا کر بیمار ہوتے جاتے ہیں۔موبائل فون پر لمبی کالیں کرنے سے بھی گریز کریں۔ورزش کریں اور متوازن غذائیں کھائیں تا کہ آپکا پیسہ بیماریوں کے علاج پر خرچ نہ ہو۔ اپنی ذاتی گاڑی کی بجائے پبلک ٹرانسپورٹ استعمال کرنے کی عادت ڈالیں۔دیہی علاقے کے لوگ اپنی سبزیاں خود کاشت کریں۔
خودنمائی اور احساس برتری کے نفسیاتی مسئلے سے نکل جائیں اور اپنی ذات کا موازنہ دوسروں سے نہ کریں۔ کسی کی گاڑی،بنگلہ اور رہن سہن دیکھ کر متاثر نہ ہوں۔ امیری کی زندگی کی تمنا رکھنے سے بہتر کردار سازی کی طرف توجہ دیں۔ زندگی تو ایک جھونپڑی والے کی بھی گزر جاتی ہے اور امیر یا غریب دونوں کو صرف دو گز قبر چاہئے ہوتی ہے۔تاریخ اچھے یا برے کردار کے گرد گھومتی ہے۔ قارون اتنا امیر تھا مگر اس کی اس امیری کو ہم عبرت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
اسی لئے مہنگائی کا مقابلہ کرتے ہوئے سادگی اور کفایت شعاری کو اپنانا ہوگا۔مہنگے کھانے،مہنگا سامان اور مہنگی گاڑیوں کے بھونڈے شوق سے نکل کر سستی اور معیاری چیزیں خریدیں۔ اپنی آمدنی کا کچھ حصہ فلاحی کاموں اور غرباء پر خرچ کریں گے تو آپ کو ایک نا ختم ہونے والے سکون کا احساس ہو گا کیونکہ صدقہ مصیبتوں کو ٹالتا ہے اور بانٹنے والے کا رزق بڑھتا ہے۔کسی کو دی ہوئی خوشی کے بدلے انسان کو جو خوشی اور سکون ملتا ہے وہ مہنگے گھر،مہنگے کھانے اور مہنگے شوق پورے کرنے سے نہیں مل سکتا۔
تبصرہ لکھیے