ہوم << شمائل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (2) - مفتی منیب الرحمن

شمائل مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم (2) - مفتی منیب الرحمن

’’حضرت انس بیان کرتے ہیں : نبی کریمﷺ کے مرضِ وِصال میں ہم حضرت ابوبکر صدیق کی امامت میں نماز ادا کررہے تھے، اچانک نبی کریمﷺ نے اپنے حجرۂ مبارکہ کا پردہ اُٹھایا اورہماری طرف دیکھا،ہمیں محسوس ہواگویا کہ آپ کا چہرہ انور قرآن مجید کا ورق ہے، (بخاری :680)‘‘،امام نووی لکھتے ہیں:’’(جس طرح قرآنِ کریم کلامِ الٰہی ہونے کی وجہ سے دیگر کلاموں پر فوقیت رکھتا ہے ، اِسی طرح) نبیﷺ بھی اپنے حسن وجمال ، چہرۂ انور کی نظافت وپاکیزگی اور تابانی میں یکتا و تنہا ہیں،(شرح النووی علی مسلم،ج:4،ص:142)‘‘،امام ابن اثیر فرماتے ہیں: ’’آپﷺ کی صفات میں سے یہ بھی ہے کہ جب آپ مسرور ہوتے تو آپ کاچہرہ آئینہ کی مانند اس قدرشفاف اورروشن ہوجاتا کہ دیواروں کا عکس آپ کے چہرہ انور میں صاف نظر آتا تھا ،(النہایہ ج: 4، ص: 238)‘‘، علامہ اقبال نے کہا ہے:
رخِ مصطفی ہے وہ آئینہ ،کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ ہماری بزمِ خیال میں،نہ دکانِ آئینہ ساز میں

شیخ عبدالحق محدث دہلوی فرماتے ہیں:’’نبی کریمﷺ کا چہرہ انور اللہ عزوجل کے جمال کا آئینہ ہے اور اللہ تعالیٰ کے انوار وتجلیا ت کا اس قدر مظہر ہے کہ اس کی کوئی حد نہیں،(مدارج النبوۃ،ج:1،ص:5)‘‘،نبی کریمﷺ نے فرمایا:’’جس نے مجھے دیکھا ، اُس نے حق کو دیکھا ،کیونکہ شیطان میری صورت کو اختیار نہیں کرسکتا،(بخاری:2568)‘‘۔حاجی امداد اللہ مہاجر مکی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں:’’آپﷺ کے فرمان کے دو معنی ہوسکتے ہیں:ایک یہ کہ جس نے مجھے دیکھا تواُس نے یقینامجھے ہی دیکھا ،اس لیے کہ ابلیس لعین میری صورت اختیار نہیں کرسکتااور دوسرے یہ کہ جس نے مجھے دیکھا ،اس نے اللہ رب العزت کو دیکھا،(شمائم امدادیہ ، ص49،50)‘‘۔

حضرت شاہ ولی اللہ محدِّث دہلوی لکھتے ہیں: میرے والدِ ماجد شاہ عبدالرحیم خواب میں نبی کریمﷺکی زیارت سے مشرف ہوئے تو عرض کی:یا رسول اللہ! یوسف علیہ السلام کے حسن سے حیرت زدہ ہوکرمصر کی عورتوںنے اپنے ہاتھ کاٹ لیے تھے اور بعض لوگ تو اُنہیں دیکھ مرگئے تھے ،مگر آپ کودیکھ کر کسی کی ایسی حالت نہیں ہوئی ،تو نبی کریمﷺ نے فرمایا:میرے حقیقی حسن وجمال کو اللہ تعالیٰ نے غیرت کی وجہ سے چھپارکھا ہے ،اگر میرا حقیقی حسن وجمال ظاہر کردیا جاتا تو لوگ اس سے کہیں زیادہ کرگزرتے جو اُنہوں نے حسن یوسف کو دیکھ کر کیا تھا ،(اَلدُّرُّالثَّمِیْن فِیْ مُبَشَّرَاتِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن،ص:7)‘‘، امام احمد رضا نے تقابل کرتے ہوئے فرمایا:
حسنِ یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشتِ زناں
سرکٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب
ترجمہ:’’حسنِ یوسف سے حیرت زدہ ہوکر مصر کی عورتوںنے بے اختیار اپنی انگلیاں کاٹ ڈالیں،جبکہ محض آپ کے نام پر عرب کے نامی گرامی اشخاص اپنی جان قربان کرتے رہے ہیں‘‘،مولانا حسن رضا خان نے کہا:
اک جھلک دیکھنے کی تاب نہیں عالم کو
وہ اگر جلوہ کریں، کون تماشائی ہو

اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب مکرمﷺ کووہ رخِ زیبا عطا فرمایا تھا کہ جو بھی صاحبِ بصیرت اور سلیم الطبع انسان آپ کے چہرۂ انور کی طرف نگاہ ڈالتا،وہ بے ساختہ پکار اُٹھتا :’’ یہ مبارک اور دلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا‘‘،آپ کے رُخِ مبارک کو بھی اللہ تعالیٰ نے آپ کی نبوت ورسالت کی صداقت کی دلیل وبرہان بنایا تھا۔

(1):’’حضرت عبداللہ بن سلام یہودیوں کے بڑے عالم تھے،انھیں تورات پر عبور حاصل تھا ،وہ اپنے اسلام قبول کرنے کا واقعہ بیان کرتے ہیں:’’ جب رسول کریمﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں آپ کی تشریف آوری کی خبر سنتے ہی آپ کو دیکھنے کے لیے حاضر ہوا،میری نگاہ جونہی آپ کے چہرۂ انور پر پڑی، میں نے جان لیا کہ ایسا دلکش ودلربا چہرہ کسی جھوٹے انسان کا نہیں ہوسکتا، (ترمذی:2485)‘‘۔

(2):’’حضرت حارث بیان کرتے ہیں:’’میں منٰی یا عرفات کے مقام پرنبی کریمﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا،میں لوگوں کو آپ کی زیارت کے لیے جوق درجوق آتے ہوئے دیکھ رہا تھا، میں نے مشاہدہ کیا کہ بدّو جب آپ ﷺ کے رُخِ انور کی زیارت کرتے تو بے ساختہ پُکار اُٹھتے کہ یہ بڑا ہی مبارک چہرہ ہے،(ابوداؤد:1742)‘‘۔

(3):’’حضرت طارق بن عبداللہ بیان کرتے ہیں : ہمارے قافلے نے مدینہ طیبہ کے قریب پڑاؤ ڈالا ہواتھا ،ہم بیٹھے ہوئے تھے کہ ہمارے قافلے میں نبی کریمﷺ تشریف لائے، اُس وقت تک ہم آپ کو جانتے نہ تھے ،آپ کو ہمارا ایک سرخ اُونٹ پسند آگیا ،آپ نے پوچھا : یہ اُونٹ فروخت کروگے،ہم نے عرض کی:جی ہاں! فرمایا:کتنے میں،ہم نے اس کی قیمت بتائی ،آپ نے رضامندی ظاہر کی، قیمت بھجوانے کا وعدہ کیا اوراُونٹ لیکر چلے گئے ،جب آپ چلے گئے تو ہمیں فکر دامن گیر ہوئی کہ ہم نے ایک ایسے شخص کو اپنا اُونٹ رقم لیے بغیر حوالے کردیا ہے جس کا ہم نام پتانہیں جانتے ،محض وعدے کی بنیاد پر اُسے اُونٹ سپرد کردیا۔ہماری قافلے میں ایک خاتون تھی ، اُس نے ہمیں دیکھ کرکہا:تم ایک دوسرے کو ملامت نہ کرو، بیشک میں نے اس شخص کا چہرہ دیکھا ہے، میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ ہرگز تمہیں رسوا نہیں کرے گا،میں نے اس شخص کے چہرے سے بڑھ کر کسی چیز کو چودھویں کے چاند سے مشابہہ نہیں دیکھا،چنانچہ جب شام کا وقت ہوا تو ایک شخص اپنے ساتھ کھجوریں لایا اور کہا :میں نبی ﷺ کانمائندہ ہوں ،آپ نے یہ کھجوریں تمہارے لیے بھیجی ہیں،پہلے تم ان میں سے پیٹ بھر کھجوریں کھاؤ اور پھرجو قیمت میرے ذمے بنتی ہے،وہ وصول کرلو، (المستدرک:4219)‘‘۔

نبی کریمﷺ کے اِسی دلکش ودلربا چہرے اور آپ کی گیسوئے عنبریں کی اللہ تعالیٰ نے استعاراتی انداز میں قسمیں اُٹھائیں ہیں،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:’’قسم ہے چاشت کے وقت کی اوررات کی جب اس کی تاریکی چھا جائے،(الضحیٰ:1،2)‘‘۔امام فخرالدین رازی ان آیات کی تفسیر کے تحت ایک سوال قائم کرتے ہیں :کیا کسی مفسر نے ’’ضحٰی‘‘ کی تفسیرنبی کریمﷺ کے رخِ انور اور’’ لیل‘‘ کی تفسیر آپ کے زلفوں کے ساتھ کی ہے، پھر خود ہی جواب دیتے ہیں:ہاں! یہ تفسیر کی گئی ہے اور اس میں کوئی بُعد نہیں اور بعض مفسرین نے اس میں اضافہ فرمایا ہے کہ’’ وَالضُّحٰی‘‘ سے نبی کریمﷺ کے اہلِ بیت کے مرد حضرات اور’’ وَاللَّیْلِ‘‘سے اہلِ بیت کی خواتین مراد ہیں،(تفسیر کبیر:ج31ص:192)‘‘۔علامہ علی القاری بیان کرتے ہیں:’’اس سورت کا نزول جس مقصد کے لیے ہوا ہے اس کا تقاضا ہے:’’ یہ کہاجائے کہ ’’ضُحٰی‘‘میں آپ ﷺکے رخِ انور اور ’’ لَیْل‘‘ میں آپ کی گیسوئے عنبریںکی طرف اشارہ ہے،(شرح الشفاء:ج:1ص:90)‘‘،امام احمد رضا قادری فرماتے ہیں:
ہے کلامِ الٰہی میں شمس الضحے، ترے چہرۂ نور فِِزا کی قسم
قسمِ شبِ تار میں راز یہ تھا، کہ حبیب کی زلفِ دوتا کی قسم

امام رازی النور:35کی تفسیر میں لکھتے ہیں:’’اس آیت میں’’مِشْکوٰۃ‘‘ سے سیدنا محمد ﷺ کا سینہ ، ’’اَلزُّجَاجَۃ‘‘ سے آپ کا قلب اور ’’مِصْبَاح‘‘ سے دین کے اُصول وفروع کی وہ معرفت مرادہے جو آپ کے دل میں ہے، ’’شجرۂ مبارکہ‘‘ سے حضرت ابراہیم علیہ السلام مرادہیں،کیونکہ آپ ان کی اولاد میں سے ہیںاور ان کی ملت کے اتباع کا آپ کو حکم دیا گیا ہے ،پھر حضرت ابراہیم کی صفت میں فرمایا:’’نہ وہ شرقی ہیں اور نہ غربی ہیں‘‘کیونکہ آپ نہ نصاریٰ کی طرح عبادت میں مشرق کی طرف رخ کرتے تھے اور نہ یہود کی طرح مغرب کی طرف ،بلکہ آپ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے تھے ۔اللہ تعالیٰ نے اس چراغ کے تیل صفت میں فرمایا :وہ عنقریب بھڑک اُٹھے گا ، روشن ہوجائے گا ،خواہ اس کو آگ نے نہ چھوا ہو ، حضرت کعب احبار فرماتے ہیں:اس تیل سے مراد سیدنا محمدﷺ کا نور ہے اور آپ اپنے صفاء ِ جوہر اور اپنی مقدس ذات میں اس قدر کامل تھے کہ اگر آپ پر وحی نازل نہ بھی ہوتی،تو آپ میں یہی کمالات ہوتے ، آپ اِسی طرح نیکی کی ہدایت دیتے ، آپ کی یہی پاکیزہ صفات ہوتیں، آپ پر قرآن نہ بھی نازل ہوتا تب بھی آپ کی نبوت لوگوں پر آشکار ہوجاتی ، آپ پر قرآن مجید کا نازل ہونا’’نور علی نور‘‘ ہے،(تفسیر کبیر:ج:8،ص:390)‘‘،امام احمد رضا قادری فرماتے ہیں:
شمع دل، مشکوٰۃ تن، سینہ زُجاجہ نور کا
تیری صورت کے لیے آیا ہے، سورہ نور کا

امام عبدالرزاق اپنی سند کے ساتھ حضرت جابر بن عبداللہ سے روایت کرتے ہیں:میں نے نبی کریمﷺ سے عرض کی:میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں،بتایئے ! سب سے پہلے اللہ تعالیٰ نے کس چیز کو پیدا فرمایا ہے ،آپﷺ نے فرمایا:اے جابر ! اللہ تعالیٰ نے تمام اشیاء سے پہلے تیرے نبی کا نور اپنے نور سے پیدا کیا ہے ،پھر وہ نور قدرتِ الٰہیہ سے جہاں اللہ تعالیٰ کو منظور ہوا سیر کرتا رہا، اس وقت نہ لوح تھی نہ قلم ، نہ بہشت تھا، نہ دوزخ ،نہ فرشتے، نہ آسمان وزمین ،نہ سورج وچاند ، نہ جنات تھے اور نہ انسان ،پھر جب اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنا چاہا تو اس نور کے چار حصے کیے: ایک حصے سے قلم پیدا کیا ، دوسرے سے لوح اور تیسرے سے عرش،چوتھے حصے کی مزید تفصیلات درج ہیں ،(المواہب اللدنیۃ بالمنح المحمدیۃ:ج1ص:48)‘‘۔ امام احمد رضا قادری نے اس روایت پرفتاویٰ رضویہ:ج30ص182میں تحقیق کی ہے،شیخ اشرف علی تھانوی لکھتے ہیں:
نبی خود نور اور قرآن ملا نور
نہ ہو کیوں مل کے پھر، نورٌ علی نور
اس حدیث سے نورِ محمدی کا أَوَّلُ الْخَلْق ہونا باولیتِ حقیقیہ ثابت ہوا ،کیونکہ جن جن اشیاء کی نسبت روایات میں اولیت کا حکم آیا ہے ،ان اشیاء کا نورِ محمد ی سے متاخر ہونا اس سے حدیث سے منصوص ہے،(نشرالطیب بذکر النبی الحبیبﷺ : ص:8،9)‘‘۔

Comments

Click here to post a comment