بہت سے دوست اس پروپیگنڈہ کا شکار ہو رہے ہیں کہ : " ملٹری بغاوت اردگان نے خود کروائی." اور اس کی دلیل یہ دیتے ہیں کہ " جتنی زیادہ گرفتاریاں ہو رہی ہیں اُن سے لگتا ہے کہ لسٹیں پہلے سے تیار تھیں اور اب اس واقعہ کو جواز بنا کر گولن تحریک سے انتقام لیا جا رہا ہے."
یہ بات درست ہے کہ لسٹیں پہلے سے تیار تھیں مگر نامکمل تھیں، بغاوت نے انھیں مکمل کر دیا. لسٹوں کا بیک گراؤنڈ یہ ہے کہ ترک حکومت نے ایک عرصہ قبل ملک میں ہونے والی بدامنی و دہشت گردی کے خلاف جو نیشنل ایکشن پلان بنایا تھا، اس کا ایک بڑا حصہ متوازی ریاست " Parallel State" کے گرد بھی گھومتا ہے. متوازی ریاست کو دہشت گردی جتنا بڑا جرم قرار دیا گیا تھا اور یہ زیادہ تر انھی افراد سے متعلق تھا جو اسٹیبلشمنٹ کے اداروں، میڈیا گروپس، بزنس اور مختلف این جی اوز سے وابستہ تھے اور وقتاً فوقتاً ریاست کے اندر ریاست ہونے کا احساس دلاتے رہتے تھے۔ ان کا اس قدر ہولڈ تھا کہ ججوں سے لے کر پولیس افسران تک، اس سے جڑے ہوئے تھے اور اپنی مرضی سے معاملات چلا رہے تھے۔ ریاستی رِٹ، حکومتی پالیسیاں اور جمہوری ادارے ان کے آگے بے بس تھے ۔
متوازی ریاست کے اس Phenomenon کو ڈیل کرنے کے لیے ترک انٹیلیجنس، تمام سٹیک ہولڈرز کی باہمی مشاورت کے بعد ریاست کے حکم پر، خفیہ آپریشن کے ذریعہ ریاستی اداروں کو معلومات بہم پہنچا رہی تھی اور اسی انٹیلیجنس آپریشن کے نتیجہ میں ترک حکومت میڈیا پر پابندی، بعض افسران کی معطلی اور گرفتاری کا عمل جاری رکھے ہوئے تھی. ترک حکومت کی مضبوط ہوتی ہوئی گرفت کے ری ایکشن میں یہ بغاوت کی گئی جس کے ماسٹر مائنڈ گولن تحریک کے لوگ ہی ہیں. یہاں یہ بھی یاد رہے کہ گولن کی اردگان سے علیحدگی کی بڑی وجہ یہی تھی کہ اردگان حکومت نےگولن تحریک کی ریاستی و جمہوری اداروں سے بالاتر سرگرمیوں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
آپ کو معلوم ہوگا کہ باغیوں نے جن جگہوں پر سب سے پہلے کارروائی کی، اس میں انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ سرِ فہرست تھا. اس کی ایک بڑی وجہ انٹیلیجنس کی متوازی ریاست کے خلاف مئوثر کارروائیاں تھیں اور وہ اس مضبوط ادارے کو سب سے پہلے کنٹرول کرنا چاہتے تھے جو بغاوت کی کامیابی کے بعد بھی ان کے لیے دردِ سر بن سکتا تھا. اس تمام پس منظر کے ساتھ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس قدر تیزی سے گرفتاریاں کیوں اور کیسے عمل میں لائی گئی ہیں. اسی پر ترک وزیرِ اعظم بن علی یلدرم نے کہا تھا کہ ہمیں اندازہ تھا کہ یہ لوگ ری ایکشن ضرور دیں گے لیکن اس قدر جلدی ری ایکشن آئے گا اس کے لیے ہم تیار نہ تھے.
متوازی ریاست کی بات لبرلز نہ سمجھ سکیں تو انھیں سوات کے مولانا صوفی محمد کی تصویر دکھائیے گا جن کی تحریک نفاذ محمدی کے خاتمے کے لیے ریاست کارروائی پر مجبور ہوئی. گولن مومنٹ کی متوازی ریاست کی تحریک کا اعجاز یہ ہے کہ یہ ریاستی اداروں میں موجود افسران، ججز، تاجروں اور این جی اوز کی بل بوتے پر چلائی جارہی تھی جو صوفی محمد کی تحریک سے ہزار گنا زیادہ مئوثر، مضبوط اور خطرناک تھی اور وقت یہ ثابت کرتا کہ وہ تحریک اگر خدانخواستہ بغاوت کے ذریعہ کامیاب ہو جاتی تو شام کی خانہ جنگی ترکی میں ہونے والی خانہ جنگی کے سامنے ماند پڑ جاتی۔
اس قدر بڑی کارروائیوں کی ایک اور دلیل جو الجزیرہ چینل نے بیان کی ہے، وہ یہ ہے کہ " بغاوت کرنے والے افسران کی گرفتاریوں کے نتیجے میں جو دستاویز ان کی تحویل سے برآمد ہوئی ہیں ان میں، بغاوت کے بعد جن جن ذمہ داریوں کو جن جن افسران نے ادا کرنا تھا، کی تفصیلات ملتی ہیں "۔ لازمی امر ہے کہ جب پوری فوج نے بغاوت نہ کی ہو اور ایک گروہ فوجی بغاوت کرے تو اس کے پاس اس قدر فوجی افسران نہیں ہوں گے جو سول محکموں کا چارج بھی سنبھال لیں جیسا کہ عموماً مارشل لاء کے نتیجے میں ہوتا ہے۔ اور نہ ہی سول محکمے ترک ریاست کے وفاداروں کے حوالے کیے جاسکتے تھے سو اس کے لیے اس گہرائی سے پلاننگ کی گئی کہ ہر محکمے میں سے اپنے وفادار افسران کو تیار کیا گیا تاکہ بغاوت کی کامیابی کے فوراً بعد ریاستی اداروں کا کنٹرول حاصل کیا جائے۔ الجزیرہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ بغاوت کرنے والے فوجی دستوں کے افسران اپنے ساتھ تفصیلی لسٹیں لائے ہوئے تھے جو ناکامی کی صورت میں حکومت کے سب سے زیادہ کام آئیں۔ باقی کچھ نام پکڑے جانے والے افسران کے موبائلز کے وٹس ایپ میسجز نے کھول دیے اور لازمی امر ہے کہ کچھ نہ کچھ گرفتاریاں تین روز سے جاری "انویسٹی گیشن" کے نتیجہ میں بھی کی گئی ہوں گی۔
تبصرہ لکھیے