چلکوٹ رپورٹ۔ جنگ جو برطانیہ، بین الاقوامی سپر طاقتوں کے استعماری عزائم اور کمزور ملکوں پر چڑھ دوڑنے کی روش کو سند جواز فراہم کرنے والے شریک جرم، اقوام متحدہ کی بے خبری کے خلاف فرد جرم ہے۔ ایک ایسی فرد جرم جس پر کسی مجرم کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہوگا نہ کسی کو سزا ملے گی۔ کیونکہ مدعی جرم ضعیفی کا سزاوار ہے لہٰذا مرگ مفاجات اس کا مقدر ہے۔ زور آوروں کی اس نام نہاد مہذب دنیا میں جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا فارمولا کارفرما ہے۔ عراقی عوام کو کبھی انصاف نہیں ملے گا۔ ایسے ہی جیسے لیبیا، شام، یمن، افغانستان اور فلسطین کے عوام کو انصاف نہ مل سکا۔ ایسے ہی جیسے ایٹم بم کی تباہ کاریوں کا شکار جاپان۔ جس طرح ویت نام کے قبرستانوں میں ابدی نیند سوئے لاکھوں شہید بے گناہی کے باوجود محروم انصاف رہے۔
چلکوٹ رپورٹ عراق کو تاراج کر دینے، لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دینے، ایک خودمختار ملک کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دینے کی تحقیقات کیلئے تیار نہیں کی گئی تھی۔ ایسی کوئی بات نہیں، خون مسلم عالمی طاقتوں کیلئے اتنا ارزاں ہے کہ کوئی ایسی کمیٹیاں، کمیشن بنانے کی زحمت نہیں کرتا۔ یہ رپورٹ تو ایک انکوائری کمیشن نے یہ جاننے کیلئے تیار کی کہ عراق جنگ میں برطانوی فوج کی شمولیت کے نتیجہ میں 149 برطانوی فوجی کیسے ہلاک ہو گئے؟ واضح رہے کہ عراق پر امریکہ اور برطانیہ کے مشترکہ حملے کے نتیجہ میں آزاد ذرائع کے مطابق پندرہ لاکھ عراقی شہید ہوئے۔ دس لاکھ سے زائد بے گھر ہو گئے۔ اربوں ڈالر کی املاک تباہ ہوئیں۔ عراق اگلے کئی عشروں کے لئے خانہ جنگی کا شکار ہو کر رہ گیا۔ بابل و نیوا کی تہذیب کا امین، انبیاء واولیاء کا گہوارہ، نسلی و لسانی و مسلکی تغاوت کی آماجگاہ بن گیا۔ اس کی جغرافیائی وحدت پارہ پارہ ہو کر رہ گئی۔ لیکن برطانوی حکمران طبقہ کو دلچسپی تھی تو صرف ان 149 فوجیوں کی ہلاکت کی۔ جو ایک آزاد، خودمختار ملک کے نہتے عوام پر اپنی اندھی طاقت کا سکہ جمانے، اپنی دہشت کی دھاک بٹھانے گئے تھے۔ برطانوی رولنگ ایلیٹ یہ جاننا چاہتی تھی کہ اس کے منتخب لیڈر ٹونی بلیئر نے امریکی صدر بش کا اردلی بن کر جس جنگ میں حصہ لیا اس سے مال غنیمت میں کتنا حصہ ملا۔ وہ جھوٹ جو بین الاقوامی برادری کے سامنے دھڑلے سے بولا گیا کہ صدام دنیا کے امن کیلئے سب سے بڑا خطرہ ہے کیونکہ اس کے قبضہ میں وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہیں۔ جن میں کیمیکل ویپن بھی شامل ہیں۔ عراقی عوام کی نسل کشی کے حوالے سے سرجان چلکوٹ کی سربراہی میں قائم، بااختیار کمیشن کی دلچسپی کا موضوع تھی نہ اس کے دائرہ اختیار میں یہ شامل تھی۔
رپورٹ تیار کرنے میں سات سال کا طویل عرصہ لگا۔ اس طویل عرصہ بعد تیار و جاری ہونے والی رپورٹ پر دس ملین پاؤنڈ خرچ آیا۔ سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے علاوہ ڈیڑھ سو اہم ترین عہدیدار، فوجی سربراہان، انٹیلی جنس ایجنسیوں کے اہلکار اس میں پیش ہوئے۔ 26 لاکھ الفاظ اور بارہ جلدوں پر مشتمل چلکوٹ رپورٹ کی سفارشات و مندرجات نہ صرف چشم کشا ہیں بلکہ اس بات کو بھی واضح کرتے ہیں کہ عراق جنگ کا ڈرامہ ایک بے بنیاد الزام کے گرد بنا گیا۔ اس تحقیقات کے نتیجہ میں جو بنیادی نکات سامنے آئے۔ اس کے نتیجہ میں ٹونی بلیئر کو
اس جنگ کا شریک مجرم واضح طور پر ٹھہرایا گیا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ میں کودنے کیلئے ٹونی بلیئر اور اس کے حاشیہ برداروں نے صدام حسین کو عالمی امن کیلئے خطرہ ظاہر کرنے کے معاملہ میں مبالغہ آرائی سے کام لیا۔ اس خطرے کو ہوا بھر کر غبارہ کی طرح پھیلایا گیا تاکہ وہ اپنے اصل سائز سے بہت بڑا نظر آئے۔ عراق کی جنگ میں کود پڑنے کی جلدبازی اور اندھی تقلید میں ایک ایسی فوج کو صحرائی جنگ میں دھکیلا گیا۔ جو پوری طرح تربیت یافتہ نہ تھی۔ وہ فوجی دستے ایسی مشکل و پیچیدہ جنگ کیلئے ذہنی طور پر تیار نہ تھے۔ رپورٹ کے کلیدی نکات میں کہا گیا کہ مارچ 2003ء میں جب جنگ میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا گیا تو صدام حسین سے کسی قسم کا سنگین خطرہ لاحق نہ تھا۔ لہٰذا فوجی کارروائی کوئی آخری آپشن یا چارہ نہ تھا۔ ایسے بہت سے اقدامات، آپشن موجود تھے جن کے ذریعے اس خطرہ کو بہت کم یا مکمل طور پر ختم کیا جا سکتا تھا۔ لیکن فیصلہ کرنے میں عجلت کا مظاہرہ کیا گیا۔ یہ جلد بازی دانستہ تھی کیونکہ ٹونی بلیئر امریکی صدر بش کے ساتھ اس جنگ میں اتحادی بن کر کود پڑنے کیلئے تیار تھے۔ دوسرا نکتہ یہ ہے برطانیہ نے تخفیف اسلحہ کے پرُامن راستے اختیار نہ کئے اور وہ راستہ اختیار کیا جو غیر ضروری تھا۔ کیونکہ اس فیصلہ سے کئی ماہ قبل ہی ٹونی بلیئر صدر بش کو 28 جولائی 2002ء کو لکھے گئے سرکاری خفیہ نوٹ میں یہ یقین دہانی کرا چکے تھے کہ برطانیہ ہر قیمت پر امریکہ کا ساتھ دے گا۔ شاید ٹونی بلیئر کو بھی بش کی طرح فاتح اعظم کہلانے اور تاریخ میں زندہ رہنے کا خبط تھا۔ رپورٹ کہتی ہے کہ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے خطرات اور موجودگی کے متعلق شواہد پر مبنی رپورٹیں بہت کمزور تھیں۔ شواہد ناکافی اور نہ ہونے کے برابر تھے۔ زیادہ تر شواہد میڈیا رپورٹوں، زبانی دعووں سے حاصل کئے گئے۔ لیکن دانستہ طور پر ان دیگر ہتھیاروں کی موجودگی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا۔ تاکہ فیصلے کیلئے دلائل اور جواز حاصل کیا جا سکے۔ رپورٹ کے مطابق ٹونی بلیئر کے فیصلہ کرنے سے قبل برطانوی اٹارنی جنرل کو بتایا گیا کہ عراق نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قرارداد 1441 کی شدید خلاف ورزی کی ہے۔ لیکن سرکاری دستاویزات میں ایسا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ جو اس حوالے سے دیا گیا ہو۔ رپورٹ میں حیرت انگیز انکشاف برطانوی افواج کو جنگ میں جھونک دینے کے بعد مطلوبہ سازو سامان، حربی آلات کی فراہمی کے متعلق کیا گیا ہے۔ بتایا گیا ہے کہ مطلوبہ سازوسامان کا کوئی پیشگی تخمینہ نہیں لگایا گیا۔ مذکورہ ضروری اشیاء فراہم کرنے میں حد درجہ تاخیر کی گئی۔ عسکری قواعد و ضوابط میں یہ بھی طے نہیں تھا کہ حالت جنگ میں ایسے حربی آلات کی فراہمی کس اتھارٹی کی ذمہ داری بنتی ہے۔ وزارت دفاع سڑکوں کے کنارے نصب دھماکہ خیز مواد، بارودی سرنگوں کے خطرہ کو پیشگی بھانپنے میں ناکام رہی۔ ایسے ہی دھماکوں میں مختلف واقعات میں 47 برطانوی فوجی ہلاک ہوئے۔ اس کے باوجود میڈیم سائز کی موبائل بکتر بند گاڑیوں کی فراہمی تین سال بعد کی گئی۔ اس دوران برطانوی سپاہی مکمل طور پر غیر محفوظ تھے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ جنگ کے بعد عراق کا سناریو کیا ہوگا۔ اس حوالے سے کوئی پلاننگ موجود نہ تھی۔ اس بات کا بھی کوئی ادراک نہ کیا گیا کہ صدام حکومت کو گرانے کے بعد مختلف مقامی حریف گروپ، قبائل یا مسلکی مخالف سے کیسے نمٹا جائے گا۔ پھر یہ بھی طے نہیں کیا گیا کہ عراق میں استحکام، اس کی تنظیم نو اور تشکیل نو کا مشکل کام کون اور کب سرانجام دے گا۔ رپورٹ اعلان کرتی ہے کہ بلیئر حکومت کے پاس عراق کی تعمیر نو کا کوئی منصوبہ موجود نہ تھا۔ اس بات کا بھی کوئی فیصلہ نہ کیا گیا کہ بعدازاں جب افغانستان میں برطانوی افواج کی تعیناتی کی جائے گی تو وسائل تقسیم ہونے کے معاملہ کو کس طرح ڈیل کیا جائے گا۔ رپورٹ میں یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر نے اپنی کابینہ سے مشورہ کئے بغیر جنگ میں شمولیت اختیار کی۔ جنگ سے پہلے ٹونی بلیئر کو بار بار خبردار کیا گیا کہ عراق جنگ میں کودنے کے بعد برطانیہ میں دہشت گردی کی لہر آ سکتی ہے۔ بعد کے واقعات نے یہ خدشہ درست ثابت کر دیا۔ لیکن ٹونی بلیئر نے اس ایڈوائس پر کان نہ دھرے۔ رپورٹ میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ تو کوئی بین الاقوامی عدالت ہی کر سکتی ہے کہ اعلان جنگ جائز تھا یا ناجائز۔ البتہ شواہد بتاتے ہیں کہ جنگ کیلئے جو جواز پیش کیا گیا وہ ناجائز، ناکافی اور غیر تسلی بخش تھا۔ یہ فیصلہ نہ تو کابینہ نے کیا اور نہ ہی کسی مجاز اتھارٹی نے۔ یہ فیصلہ ٹونی بلیئر نے ذاتی طور پر کیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے عراق و افغانستان کی جنگ میں کودنے کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ برطانوی فوج اب کسی زمینی لڑائی میں شرکت کیلئے آمادہ نہیں۔
برطانوی عوام اس رپورٹ کے بعد ٹونی بلیئر پر مقدمہ چلانے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ دیکھنا یہ ہے کہ برطانوی نظام انصاف حرکت میں آتا ہے یا اس جرم پر مصلحت کا کور چڑھا کر اسے داخل دفتر کر دیا جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے