ہوم << طیب اردگان اور فتح اللہ گولن - حمزہ صیاد

طیب اردگان اور فتح اللہ گولن - حمزہ صیاد

12998662_495083187342582_6939051583715569058_nطیب اردگان موجودہ عہد کا ایک جہاندیدہ سرد گرم چشیدہ لیڈر ہے. جس کی تمام عمر مشکلات کا سامنے کرتے اور ان پر قابو پاتے گزری. اردگان نے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز پروفیسر نجم الدین اربکان کی قیادت میں کیا. اربکان کی "رفاہ پارٹی" اسلام پسندوں کی نمائندہ جماعت تھی. طیب اردگان اپنی صلاحیتوں کی وجہ سے جلد ہی استبول میں اس جماعت کے قائد بن بیٹھے. 1994ء میں اردگان استنبول کی کارپوریشن کے میئر منتخب ہوئے . 1996ء کے انتخابات میں اردگان نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر بڑی زور دار مہم چلائی اور بالاخر "رفاہ پارٹی" اکثریت حاصل کرنے میں کامیاب ہو گئی.
ابھی ایک سال ہی گزرا تھا کہ فوج اور بیوروکریسی نے اسلام پسندوں کو آئین دشمن قرار دے کر فارغ کر دیا اور پارٹی پر پابندی عائد کر دی. نوجوان طیب اردگان نے بار بار کی ناکامی سے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ فوج اور بیوروکریسی سے تصادم سے بچنا ضروری ہے، چنانچہ طیب اردگان اور ان کے دوست عبداللہ گل نے یہ کوشش کی کہ "رفاہ پارٹی" کے طرز سیاست میں تبدیلی لائی جائے لیکن پروفیسر نجم الدین اربکان اور دوسرے بہت سے بزرگوں کی مخالفت کی وجہ سے وہ ایسا نہ کر سکے.
صورتحال کی تبدیلی کےلیے طیب اردگان نے اپنے ساتھیوں کے تعاون سے " جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ " کے نام سے ایک نئی جماعت کی بنیاد رکھی اور مذہب کے نفاذ کی بات کرنے کے بجائے ترقی اور عوام کی فلاح کی بات کی. اردگان نے دوستوں سے کہا کہ مقاصد پر سمجھوتا نہیں ہو گا لیکن کسی مخصوص طریق کار پر اصرار بھی نہیں ہو گا. آنے والے انتخابات کے لیے اردگان نے بھرپور تیاری کی، اور عوام نے بھی ان کی سابقہ بلدیاتی کام کو دیکھتے ہوئے ان پر بھرپور اعتماد کیا اور انھیں بھاری اکثریت سے کامیاب کروایا . فتح اللہ گولن نجم الدین اربکان کا مخالف تھا، اس نے بھی طیب اردگان کا ساتھ دیا اور کامیابی میں اپنا کردار ادا کیا.
سیکولر جماعتیں اس انتظار میں تھیں کہ اردگان اقتدار میں آتے ہی حجاب کی بات کرے گا اور اسلامی سزائیں نافذ کرے گا تو ہمیں پروپیگنڈے کا موقع ملے گا لیکن اردگان نے ایسی کوئی غلطی نہیں کی. اس نے کہا کہ ہمارا کام صرف اور صرف عوام کی ترقی ہے. اردگان مسلسل کام کرتا رہا، اس کا کھانا پینا اور سونا جاگنا سب کچھ سفر میں ہوتا تھا. اس کے ساتھ کام کرنے والے تھک کر باری باری کام کرتے لیکن وہ مسلسل کام کرتا رہا. اس کی اس انتھک محنت کا ہی ثمر تھا کہ ترکی سے قرضوں کا بار اترا اور ملک میں خوشحالی آئی. سیکولر جماعتیں پروپیگنڈہ کرتیں کہ یہ مذہب پسند ہے لیکن عوام نے یہ کہہ کر انہیں جواب دیا کہ یہ جو کچھ بھی ہے ہمارے لیے اور ہمارے ملک کے لیے بہت اچھا ہے.
فتح اللہ گولن اور اردگان کی ٹکر تب ہوئی جب فتح اللہ گولن کو لگا کہ اردگان اسلام کی جس تعبیر و تشریح پر یقین رکھتا ہے، وہ مجھ سے مختلف ہے. فتح اللہ گولن مذہب کو ذاتی معاملہ قرار دیتے تھے، ترکی سے باہر مسلمانوں سے کسی بھی قسم کے تعاون پر یقین نہیں رکھتے تھے، فلسطینیوں کی حمایت پر بھی فتح اللہ گولن نے اردگان پر سخت تنقید کی، اور صرف تنقید ہی نہیں کی بلکہ اپنی قوت سے اردگان کو پریشان کرنے کی بھی کوشش کی اور موجودہ بغاوت انھی کوششوں کا تسلسل تھی. اس میں کوئی شک نہیں کہ گولن نے جو جرم کیا ہے وہ قابل معافی نہیں ہے. ایک منتخب حکومت کو گرانے کی کوشش ملک اور عوام سے غداری ہے. یہ کوئی معمولی واقعہ نہیں ہے کہ جسے نظرانداز کر دیا جائے. طیب اردگان نے جس جارحانہ انداز میں مخالفین سے نمٹنا شروع کیا ہے، یہ بلکل سمجھ میں آنے والی بات ہے. اس حوالے سے پریشانی کی بات صرف یہ ہے کہ کہیں عالمی طاقتیں ترکی کے اس خلفشار سے فائدہ نہ اٹھائیں. طیب اردگان کو تمام پارٹیوں کو ساتھ لے کر باغیوں کا قلع قمع کرنا چاہیے. ہر بندے کو حق ہے کہ وہ موقع کا فائدہ اٹھائے. طیب اردگان کو بھی اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے. ہاں یہ ہے کہ ناجائز فائدہ نہ ہو اور کسی سے نا انصافی نہ ہو .