ہوم << ترکی میں بغاوت اور مسلم معاشرے (2) - محمد دین جوہر

ترکی میں بغاوت اور مسلم معاشرے (2) - محمد دین جوہر

13006688_190862491305745_6488080985877669796_nہم نے اپنے گزشتہ مضمون میں ترک فوجی بغاوت کو ایک ایسے تناظر میں زیربحث لانے کی کوشش کی تھی، جو ہمارے ہاں مسلسل نظرانداز کیا جا رہا ہے۔ اس کے جواب میں جس طرح کی بے چینی اور ردعمل سامنے آیا وہ ناچیز کے لیے غیرمتوقع نہیں تھا، کیونکہ وہ ہمارے ہاں معمول ہے۔ یہاں تو زیادہ تر لوگوں کی رائے میں یہ اردگان کا اپنا رچایا ہوا ایک ڈرامہ ہی تھا۔ اکثر اسے نہایت استہزائی انداز میں زیربحث لایا گیا اور اس واقعے کو یہاں کے غیرمتعلق حالات پر منطبق کرنے کی بھونڈی کوشش بھی کی گئی۔ ہاں اگر اسے نو گیارہ کے فوراً بعد پیدا ہونے والے یہاں کے حالات پر منطبق کیا جاتا تو بات سمجھ میں آتی تھی۔ اس مضمون کا مقصد اردگان کو اسلام کا ہیرو بنا کے پیش کرنا بھی نہیں تھا۔ بس اپنی نارسائی کو دیکھنے کی ایک سعی ضرور تھی۔ ضمناً عرض ہے کہ جب قومی ذہن کی حالت انکار اس قدر گہری ہو تو اس کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا۔
دوسری طرف فتح اللہ گلن کو ”بدترین غدار“ کہنے پر بھی، اور ہم اسے بجا طور پر یہی سمجھتے ہیں، کچھ دوستوں نے ناگواری محسوس کی۔ ہمیں حزمت تحریک کی خدمات، اس کے بانی کی زندگی، اس کے علمی کام اور اردگان سے اس کے سیاسی اشتراک کے بارے میں ضروری معلومات حاصل ہیں۔ ہمیں اس سے انکار نہیں کہ وہ تہجد گزار، راسخ العقیدہ دیندار اور پکا صوفی ہے اور اس کی تحریک نے سماجی خدمت کے بڑے بڑے اور حیرت انگیز کام سرانجام دیے ہیں۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ اس وقت ایک ارب پتی آدمی ہے اور نہایت ”سادگی“ کی زندگی گزارتا ہے۔ لیکن ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ 2013ء میں اردگان کے ساتھ اس کے سیاسی اختلاف کی بنیادی وجوہات دو تھیں: ایک اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی کشیدگی، اور دوسرے شامی مہاجرین کو ترکی آنے کی اجازت۔ وہ اسرائیل سے ہر شرط پر تعلقات کو باقی رکھنا چاہتا تھا، اور شامی مہاجرین کی ترکی آمد کے سخت خلاف تھا کیونکہ یہ مہاجرین یورپ اور امریکہ کے لیے مسائل کا باعث بن رہے تھے۔ ہمیں یہ بھی معلوم ہے کہ وہ مغربی سیکولرزم کا زبردست حامی ہے اور اس کی تعلیمی تحریک سی آئی اے کے لیے دنیا بھر میں ایک آڑ کے طور استعمال ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اردگان کے اقتدار میں آنے سے پہلے سے دنیا کے کئی ملکوں میں اس پر پابندی ہے یا اس کے خلاف تحقیقات کی گئی ہیں۔ ابھی حال ہی میں ایک ڈچ قانونی فرم نے اس کی تحریک کے بارے میں سی این این امریکہ پر جو معلومات جاری کی ہیں، وہ نہایت چشم کشا ہیں۔ اور جب ہالینڈ میں اس پر پابندی لگائی گئی تو وہاں کی خفیہ ایجنسی کے محض ایما پر یہ پابندی ختم کی گئی تھی۔ اگر ہمیں خوش فہمی ہے کہ تہجد گزار مسلمان ”بدترین غدار“ نہیں ہو سکتا تو ہمیں اپنی انسانی بصیرت کو ازسرنو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ اب تک ہم ایسی مذہبی تعبیرات میں ید طولیٰ حاصل کر چکے ہیں جن کی رو سے مکمل دینداری کے ساتھ دہشت گردی کرنا یا ابوجہل کا ساتھ دینا عین فلاح دارین کا موجب ہوتا ہے۔ ہمارے خیال میں اجتماعی امور، قومی بقا میں اول اہمیت رکھتے ہیں اور ان کو انفرادی دینداری کے تناظر میں زیربحث نہیں لایا جا سکتا۔ لیکن اس وقت یہ ہمارا موضوع نہیں ہے۔
ہمارا مقصد ترکی کی فوجی بغاوت کو طاقت کے اُس علاقائی اور عالمی تناظر میں دیکھنا اور یہ عرض کرنا تھا کہ مسلم ممالک اور معاشروں کی بقا کے امکانات کس تیزی سے معدوم ہو رہے ہیں۔ ترک فوجی بغاوت کے سلسلے میں کچھ واقعات کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ 17؍جولائی کو نیویارک ٹائمز نے امریکی وزیر خارجہ کا ایک بیان شائع کیا جس میں انہوں نے نہایت غصے میں ترک لیبر منسٹر کے ٹی وی پر دیے گئے ایک بیان کی سخت لفظوں میں تردید کی تھی۔ ترک لیبر منسٹر کے بقول ترک فوجی بغاوت نہ صرف امریکی منصوبہ تھا، بلکہ اس کی براہ راست نگرانی بھی امریکہ ہی نے کی تھی۔ 18؍ جولائی کو واشنگٹن پوسٹ نے امریکی وزیر خارجہ کا ایک بیان شائع کیا جس میں کہا گیا تھا کہ فوجی بغاوت کے بعد کی جانے والی داخلی کارروائیوں کی وجہ سے ترکی کی نیٹو ممبر شپ خطرے میں ہے۔ اگرچہ بعد میں اس بیان کی تردید بھی سامنے آئی لیکن یہ کوئی معمولی بیان نہیں تھا۔ ہمارے خیال میں یہ امر نہایت اہمیت کا حامل ہے کیونکہ روس کے خلاف نیٹو کی ممبرشپ بڑھانے کے لیے امریکہ نے ایڑی چوٹی کا زور لگایا ہوا ہے اور ترکی اس کے اہم ترین ممبران میں سے ہے۔ اہم تر یہ ہے کہ ایسا کیا ہوا ہے کہ بات ترکی کی نیٹو ممبرشپ تک جا پہنچی ہے؟ گزارش ہے کہ ان واقعات کے پیچھے اصل کہانی کو دیکھنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سوال یہ ہے کہ فوجی بغاوت کے فوراً بعد ترک امریکی تعلقات ایک دم شدید ترین تناؤ کا کیوں شکار ہو گئے ہیں؟ ہمارے لیے نیٹو کی ترک ممبرشپ کا معاملہ غیرمعمولی اہمیت رکھتا ہے کہ کیونکہ نیٹو ممالک بھارت کو میزائل سسٹم میں شمولیت کی پیشکش پہلے ہی کر چکے ہیں اور ترک فوجی بغاوت اور ترکی کے نیٹو سے اخراج کے بعد اس امر کا قوی امکان ہے کہ بھارت نیٹو کا مکمل ممبر بن جائے۔ ہم احباب کی ناراضگی کے باوجود صرف یہ عرض کرنا چاہ رہے ہیں کہ ترکی فوجی بغاوت اپنے نتائج میں ہماری قومی سلامتی پر بھی براہ راست اثرانداز ہو سکتی ہے۔ اس بغاوت کا ایک بڑا مقصد روس اور ترکی کے تعلقات میں پیش رفت کو روکنا تھا جو علاقے میں بڑی تبدیلیوں کا عندیہ دے رہی تھی۔
گزارش ہے کہ ترکی وقت کے مطابق رات ساڑھے دس بجے جب بغاوت شروع ہوئی، تو ابتدائی مرحلوں میں باغیوں کو برتری حاصل تھی۔ اس بغاوت کا مرکز دراصل ترک فضائیہ تھی، لیکن وہ بھی منقسم ہو چکی تھی۔ مرمارا سے استنبول آتے ہوئے اردگان کے طیارے پر دو ایف سولہ طیاروں نے حملہ کیا جو اس کے ساتھ محو پرواز دو حامی ایف سولہ طیاروں نے پسپا کر دیا اور دوسری اطلاع یہ ہے کہ اس طیارے نے یہ بتایا کہ یہ ایک عام ایئرلائنر ہے۔ بہر حال رات کے تقریباً ڈھائی بجے جب باغیوں کے پاؤں اکھڑنا شروع ہوئے تو ترک حکومت نے پہلے اور فوری اقدام کے طور پر انقرہ اور انسرلک کے ہوائی اڈے پر نو فلائی زون کا اعلان کیا اور ساتھ ہی امریکہ کو بھی مطلع کر دیا کہ اگر کوئی طیارہ اس اہم ہوائی اڈے میں داخل ہوا یا وہاں سے اڑا تو اسے مار گرایا جائے گا۔ ترک حکومت نے اس نو فلائی زون کو حامی فضائیہ اور حامی فوج کی مدد سے باقاعدہ نافذ کر دیا۔ اس اعلان کی خاص اہمیت ہے۔ یاد رہے کہ عدنہ شہر کے پاس واقع انسرلک نیٹو کے اہم ترین ہوائی اڈوں میں سے ہے اور وہاں موجود ایٹمی ہتھیار پورے یورپ کے کسی بھی دوسرے اڈے سے زیادہ ہیں۔ یہ وہ رپورٹیں ہیں جو عالمی میڈیا میں بڑے پیمانے پر شائع ہوئی ہیں، اور ترک حکومت کے بیانات اور ترکی پریس میں بھی دیکھی جا سکتی ہیں۔
لیکن 17؍ جولائی کو سی این این امریکہ کی رپورٹ کے مطابق اصل کہانی اگلے روز یعنی 16؍ جولائی کو شروع ہوئی۔ اس کی اطلاع کے مطابق، ترک حکومت نے امریکہ سے اڈے میں جانے اور وہاں باغیوں کو تلاش کرنےکی اجازت طلب کی۔ امریکہ نے یہ اجازت دینے سے انکار کر دیا۔ لیکن ترک حکومت نے نہ صرف اس انکار کو مسترد کر دیا، بلکہ اس کے جواب میں ترک خصوصی دستوں نے اس ہوائی اڈے کو گھیرے میں لے لیا، اور امریکی اجازت کے بغیر اڈے میں داخل ہو گئے۔ اس وقت اڈے پر ترک فضائیہ کے دو ایف سولہ طیارے موجود تھے جو کارروائیوں میں حصہ لیتے رہے تھے۔ اڈے کی تلاشی کے بعد وہاں سے ایک ترک جرنیل اور ترک فضائیہ کے گیارہ پائلٹ دستیاب ہوئے، جنھیں وہاں کے خفیہ خانوں میں باقاعدہ چھپایا گیا تھا۔ ترک فوج نے ان باغیوں کو گرفتار کر کے اپنی حراست میں لے لیا اور اب استنبول لا کر ان کی تفتیش کی جا رہی ہے۔ ترک فضائیہ کے باغی طیاروں کی مڈ ایئر ری فیولنگ کا پورا انتظام بھی امریکہ کے زیرکنٹرول اور زیر استعمال اسی ہوائی اڈے سے کیا گیا تھا۔ یہ وہ رپورٹ ہے جو سی این این امریکہ نے جاری کی ہے۔ سی این این امریکہ کی اس رپورٹ کے بعد، جو ایک طرح کا غیرسرکاری اعتراف ہے، اب اور کیا تجزیہ باقی رہ جاتا ہے؟ ترک امریکی تعلقات میں شدید ترین بحران اسی وجہ سے پیدا ہوا ہے کہ ترکوں نے ”ثبوت“ دینے میں کوئی کسر باقی ہی نہیں رکھی اور امریکہ کو یہ بات بہت بری لگی ہے۔ پاکستانی تو بیچارے چپ کر جاتے ہیں لیکن اردگان چپ نہیں رہا۔ اس بغاوت کی اصل نوعیت ترکی پر براہ راست استعماری حملے جیسی ہے۔ واضح رہے کہ فوجی بغاوت کی ناکامی کے فوراً بعد ترک امریکہ تعلقات اب تک کے سب سے بڑے بحران کا شکار ہو گئے ہیں۔ اور یہ بحران ترکی کی سلامتی کے لیے ازحد تشویشناک امکانات کا حامل ہے۔ یہاں مسئلہ اردگان کا نہیں ہے، بلکہ ترکی کی سالمیت کا ہے۔ کیونکہ جو کچھ ہوا ہے، ہم اسے regime change کی ایک ناکام کوشش سمجھتے ہیں، جو ضروری نہیں کہ دوبارہ نہ دہرائی جائے۔ اس ناکام فوجی بغاوت کے جو ممکنہ نتائج برآمد ہو سکتے ہیں، وہ ترکی کی ملکی سلامتی اور یورپ اور مشرق وسطیٰ میں طاقت کے توازن پر بھی براہ راست اثرانداز ہوں گے۔
میرا خیال ہے کہ ہم پاکستانی چیزوں کو جس تناظر میں دیکھتے ہیں، اس میں ایسی رپورٹس کی بھی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ ہماری غیرسنجیدگی میں اگر پوری بغاوت ڈرامہ ہو سکتی ہے، تو ان رپورٹوں کی کیا معنویت ہو سکتی ہے؟ ہمارے نزدیک ”ہاتھی“ کو ”دیکھنے“ کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ آنکھیں بند کر لی جائیں اور اسے ٹٹول کر دیکھا جائے کیونکہ اس طرح تسلی زیادہ ہوتی ہے، اور آنکھوں سے دیکھنا ہمارے لیے باعثِ عار ہے۔ اگر ہمارا کوئی صحافی اس وقت ترک امریکہ تعلقات میں شدید ترین کشیدگی کی واقعاتی صورت حال ہی کو دیکھ لے اور اس کا تجزیہ سیاسی طاقت کے موجودہ تناظر میں سامنے لے آئے تو ساری صورت حال بالکل پانی ہو جاتی ہے۔ لیکن کوئی بھلا یہ کیوں کرے؟ ڈرتے ڈرتے عرض ہے کہ عالمی طاقت کو زیربحث لاتے ہوئے جو نظری پہلو اور فکری تناظر دنیا بھر میں معروف ہیں، ہمارے ہاں اگر کوئی اس کا ذکر بھی کر دے، تو لوگ اسے ذاتی ہتک شمار کرتے ہیں۔ اور کوئی بات کسی کی ”سمجھ“ سے تھوڑی سی ادھر ادھر ہو جائے تو لینے کے دینے پڑ جاتے ہیں۔ طاقت کے نظام کی اپنی ایک حرکیات ہوتی ہے جس میں نظریات، پالیسیاں اور واقعات یکساں اہمیت رکھتے ہیں، اور جن کے پیچھے تاریخ کو دیکھنے کا کوئی نہ کوئی خاص نقطۂ نظر بھی موجود ہوتا ہے۔ ہم یہ بھی بھول جاتے ہیں کہ صحافت کا مقصد معلومات اور تفریح فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ طاقت کے عالمی اور علاقائی نظام کا علمی اور فکری تجزیہ کرنا بھی ہے۔ بہرحال ہمارے تجزیے سے جن دوستوں کی دل آزاری ہوئی، ہم ان سے معذرت خواہ ہیں کیونکہ ہم دیانت داری سے اور حلفاً ان سب کو اپنے سے بہتر انسان اور عزت میں بڑا سمجھتے ہیں۔ لیکن یہ ضرور کہنا چاہیں گے کہ اگر ہم نے متفقہ طور پر قومی حالت انکار ہی میں رہنے کا فیصلہ کیا ہے تو کم از کم ناچیز اس کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔

Comments

Click here to post a comment

  • بہت ہی زبردست تجزیہ، توجہ طلب باتوں پہ آپ نے روشنی ڈالی ہے پر بد قسمتی سے ہم میں سے کچھ لوگ ہاتھی کوآنکھیں بند کر کے ہی دیکھتے ہیں اور یہی ہاتھی ہمیںں لتاڑ رہا ہے۔

  • مجھے کم از کم سی این این کا لنک نہیں ملا جہاں باغیوں کی ائر بیس پر موجودگی کا بتلایا گیا ہو۔ اگر موجود ہو تو شیئر کریں

  • Is waqat aalim islam ko jo aham kaam krna ka ha wo har lihaz AK party ki hakomt ki himayat ha agr
    Allah naa kra waha koi khla (vaccum) pada hota to ham Taliban or ISIS ko bool jaiin ga Allah na kra Ameen