ہوم << لنڈے بازار کی لبرل ازم - محمد زاہد صدیق مغل

لنڈے بازار کی لبرل ازم - محمد زاہد صدیق مغل

زاہد مغل ویسے تو لبرل ازم سفاکیت و بدتہذیبی (savagery) کا ہی دوسرا نام ہے، البتہ اس کا سب سے سفاک اور قبیح پہلو رحمی رشتوں کے تقدس کی پامالی ہے۔ انسانی تاریخ میں ایسی کوئی گمراہی پیدا نہیں ہوئی جس نے ان رشتوں کے تقدس کو پامال کیا ہو، یہ خصوصی مقام سب سے پہلے تحریک تنویر سے برآمد ہونے والی لبرل ازم کو حاصل ہوا۔ مقدس رشتوں کی پامالی اور لبرل ازم کے مابین یہ تعلق کوئی حادثہ نہیں بلکہ عین اس کی بنیادی سرشت کا اظہار ہے کیونکہ لبرل فریم ورک میں ذاتی اخلاقیات (morality) نامی کسی شے کا وجود ممکن نہیں، یہاں صرف ”قانونی حقوق“ ہوتے ہیں اور بس۔ یہاں ماں، بہن، بیٹی وغیرہ نامی رشتوں کی بندشیں ذاتی ترجیحات (subjective preference) سے زیادہ کسی چیز کا نام نہیں، آزادی کے فروغ کے لیے ان بندشوں کے ارد گرد موجود نفسیاتی گرہیں گرانا ایک ضروری امر سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لبرل معاشروں میں بدکاری کی کثرت کے ساتھ ساتھ محرم رشتوں کے ساتھ اس شنیع فعل کا فروغ بھی عام ہوتا ہے اور ہم پھر کہے دیتے ہیں کہ یہ کوئی حادثہ نہیں بلکہ عین ”لبرل اخلاقیات“ کا اظہار ہے۔ لبرل ازم کا یہ پہلو اس قدر قبیح ہے کہ خود سلیم الطبع اور سنجیدہ لبرل حضرات بھی اس پر شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
کسی بھی نظریے کی طرح یقینا لبرل ازم کے بھی کچھ پہلو اچھے ہوسکتے ہیں، ہمارے دیسی لبرل حضرات اگر ان پہلوؤں پر توجہ مرکوز کرکے قومی شعور کی کچھ تربیت کرنے کا کام سرانجام دیں تو یہ بھی ایک قابل قدر کام ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات کس قدر افسوس ناک ہے کہ ہمارے یہاں کچھ لوگ لنڈے بازار کی لبرل ازم کے فروغ میں ہی قوم کا بھلا دیکھتے ہیں۔ خواتین کے حوالے سے معاشرے میں پائے جانےوالے چند غلط خیالات کا حل ان کے نزدیک گویا یہ ہے کہ کہ لوگ اپنے محرم رشتوں کے جسمانی خدوخیال بیان کرنا شروع کر دیں۔ جس مذہب کی یہ تعلیم ہو کہ محرم تو کجا کسی غیر محرم خاتون کے جسمانی خدوخال کے بارے میں بھی گفتگو کو معیوب قرار دیا گیا ہو، اب اس کے ماننے والوں پر یہ وقت بھی آنا تھا کہ وہ اپنے محرم رشتوں کے بارے میں ایسی لغو گفتگو کرنے کو فروغ دیں گے۔ جس مذہب کا ”ہم سب“ دم بھرتے ہیں، اس کی یہی تعلیمات ہیں کہ غیر لوگوں کے سامنے اپنی ماں بہن کے جسمانی خدوخال بیان کیے جائیں؟ آخر بہن کے جسمانی خدوخال جیسے بےہودہ موضوع پر گفتگو میں ایسی کون سی تخیلقیت یا ترقی کا کون سا راز پنہاں ہے جس کا دفاع کرنے کے لیے کچھ لوگ دیوانے ہوئے چلے جا رہے ہیں؟ کچھ لوگوں کو ہمارے معاشرے کی پسماندگی پر دکھ ہے کہ یہاں تو بہن کے بارے میں سوال ہی ایک گناہ ہے۔ اس پر صرف یہ عرض ہے کہ ہماری روایتی معاشرت کے محلوں میں ”باجی“ بھی ایک بہن ہی کا کردار رہا ہے، جو صرف سگے بھائیوں کی ہی نہیں بلکہ محلے کے دیگر بھائیوں کی بھی ”باجی“ ہوا کرتی ہے، جس کا نام سنتے ہی سر عزت سے جھک جاتے ہیں، جس کے جسمانی خدو خال کا بیان تو کجا اسے نگاہ بھر دیکھنے کو بھی برا سمجھا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ ہم بہن کے کردار کو عزت کے مقام پر فائز دیکھنا چاہتے ہیں نہ کہ اس قسم کے بےہودہ موضوعات کا موضوع سخن بن جانے کو۔
پھر کیا وجہ ہے کہ ان حضرات میں سے کسی کو اتنی جرات نہ ہوئی کہ اس کے دفاع میں رطب و یابس پر مبنی طویل مضامین لکھنے کے بجائے ایک مضمون خود اسی سوال کے جواب پر لکھ مارتے، کہ ان کی اپنی بہن کے جسمانی خدوخال کی نوعیت کیا ہے، تاکہ دوسروں کے لیے وہ ”اسوہ“ بن جاتے؟ اگر بالفرض کسی کی بہن نہیں تو وہ اپنے کسی قریبی دوست کی بہن کے جسمانی خدوخال کے بارے میں یہ سب باتیں لکھ کر اپنا ”لبرل فریضہ“ سر انجام دے لیتا۔ ذرا ”ہم سب“ بھی تو دیکھیں کہ اس فریضے کی ادائیگی کے لیے یہ کس حد تک جانے کی ”اخلاقی جرات“ رکھتے ہیں۔ اور اگر ان میں یہ اخلاقی جرات نہیں تو دوسروں کو یہ سبق پڑھانے کی منافقت بند کی جانی چاہیے۔ رشتوں کے لنڈا بازار پر مبنی لبرل ازم کی یہ خرید و فروخت وہاں کی جائے جہاں نہ تو نقل کی کوئی قدر و قیمت ہے اور نہ ہی عقل کی، جہاں صرف خواہش نفس کے سامنے سجدہ کیا جاتا ہے۔