ہوم << ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان - جمال عبداللہ عثمان

ریڈیوپاکستان میں کام کرنےوالی عروج کی سچی اور دردناک داستان - جمال عبداللہ عثمان

جمال عبداللہ عثمان ’’عروج اختر‘‘ کی شادی 19 سال کی عمر میں ہوئی۔ یہ شادی والدین کی مرضی کے بغیر ایک 50 سالہ ادھیڑ عمر ڈاکٹر سے ہوئی۔ شادی کے فوراً بعد شوہر نے نشہ کرنا اور جوا کھیلنا شروع کردیا۔ ’’عروج اختر‘‘ کے شوہر کو آخری عمر میں فالج ہوا اور فالج کے دوران ہی اپنے گزشتہ رویوں پر پشیمان ہوکر عروج کو طلاق دے دی۔ عروج کے مطابق اس طرح وہ اپنی کوتاہیوں کا ازالہ چاہتے تھے۔ ”عروج اختر“ نے مشکل حالات کے باوجود گریجویشن کیا اور ریڈیو پاکستان میں بھی کچھ عرصے تک کام کرتی رہیں۔ وہ اس وقت کراچی میں اپنے بچوں کے ساتھ رہ رہی ہیں۔ یہاں بوجوہ ان کا اصل نام نہیں دیا جارہا۔
٭
’’میں ایک ایسے گھر میں پیدا ہوئی، جہاں ہمیشہ لڑائی، جھگڑا اور فساد ہی دیکھا۔ میری چار بہنیں تھیں۔ والد صاحب انتہائی سخت مزاج کے مالک تھے۔ خصوصاً مجھے یاد نہیں پڑتا کہ انہوں نے بیٹیوں کو کبھی محبت بھری نظر سے دیکھا ہو۔ جس طرح انسان صبح، دوپہر اور شام کو کھانا کھاتا ہے۔ اسی طرح ہمارے والد ہمیں تین وقت جسمانی سزا ضرور دیتے تھے۔ مجھے کبھی یاد نہیں پڑتا کہ والد نے کسی بیٹی کو پیار کیا ہو۔ وہ اسکول کالج کے بھی مخالف تھے۔ میری ایک ٹانگ پولیو سے متاثر تھی۔ اس کے باوجود اللہ نے بڑا کرم کیا اور میں نے اتنی مشکلات کے ہوتے ہوئے بی اے کا امتحان دے دیا۔ اس کے بعد کچھ عرصہ اسکول میں پڑھایا۔ ریڈیو پاکستان میں مختصر عرصے کے لیے کام کیا۔ لکھنے کا شوق تھا، کچھ رسائل کے لیے لکھا بھی۔ اللہ نے بہت سی صلاحیتوں سے نوازا تھا، مگر اس دوران ایک ایسا حادثہ پیش آیا، جس نے زندگی کو تباہ کرکے رکھ دیا۔‘‘
’’یہ ایسا حادثہ ہے جس کی تفصیلات بیان کرنا مناسب نہیں۔ بہرحال! مختصراً یہ بتادیتی ہوں کہ ایک ڈاکٹر سے ملاقات ہوئی۔ یہ ڈاکٹر کراچی میں ملازمت کرتے تھے۔ ان کی عمر تقریباً 50 سال تھی۔ یہ پہلے سے شادی شدہ تھے اور بچے وغیرہ بھی تھے، لیکن پہلی بیوی اور بچوں کے ساتھ تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ ان کے ہاں گھریلو ناچاقی چل رہی تھی۔ میری اور ان صاحب کی ملاقاتیں شروع ہوئیں۔ اکثر کہا کرتے تھے کہ مجھے تم میں اور کوئی دلچسپی نہیں، بس مجھے تمہارا نام پسند ہے اور میں تمہارے نام کو اپنے نام کا حصہ بنانا چاہتا ہوں۔ میں بھی مسائل اور پریشانیوں میں گھری ہوئی تھی۔ گھر کا ماحول انتہائی گھٹن زدہ تھا۔ ہر وقت لڑائی جھگڑا رہتا تھا۔ اس سے فرار چاہتی تھی۔ لہٰذا اسے سنہرا موقع سمجھا اور بدقسمتی سے ان کی باتوں میں آگئی، فرار کا راستہ اختیار کرلیا۔ یہ صاحب مجھے فیصل آباد سے اپنے شہر کراچی لے کر آئے، اس وقت میری عمر 19 سال تھی۔‘‘
’’جب ہم کراچی پہنچے، اس وقت ہمارا نکاح نہیں ہوا تھا۔ ان صاحب نے مجھے ایک رشتہ دار کے گھر رکھا۔ وہاں لوگ مجھے بڑی عجیب نظروں سے دیکھتے تھے۔ شاید وہ مجھے کوئی بہت ہی بری عورت سمجھتے تھے۔ میرے پاس اپنے گھر کے کسی فردکو قریب نہیں پھٹکنے دیتے تھے۔ خصوصاً لڑکیاں میرے پاس آنے سے بہت ہچکچاتی تھیں۔ جب میں نے ان صاحب سے تذکرہ کیا، انہوں نے اپنے رشتے داروں کو بتایا کہ یہ کوئی ایسی ویسی لڑکی نہیں۔ خاندانی لڑکی ہے۔ حالات کی ترسی ہوئی ہے۔ اس کے بارے میں آپ لوگ غلط نہ سوچیں۔ اس طرح وہ لوگ مطمئن ہوگئے اور ان کا رویہ بہت بہتر ہوگیا۔ ہم نے وہاں 20، 22 دن گزارے۔ میں اس وقت انتہائی خوفزدہ تھی، کیونکہ میری عمر زیادہ نہیں تھی۔ اس کے بعد وہ صاحب مجھے ایک اور رشتے دار کے گھر لے گئے۔ جہاں میرا نکاح پڑھایا گیا۔ نکاح کے بعد مجھے اپنے گھر لے گئے اور میں نے ایک نئی زندگی میں قدم رکھا۔ میں اُداس تھی، مگر سوچتی تھی والدین کو راضی کرلوں گی۔ مجھے معلوم نہیں تھا کہ آسمان سے گرکر کھجور میں اٹک گئی ہوں۔‘‘
’’آج اس واقعے کو تقریباً 20 سال ہوچکے ہیں۔ والدین سے اس کے بعد کوئی ملاقات ہوئی نہ ہی رابطہ۔ البتہ کئی بہنوں سے کچھ عرصے بعد رابطہ بحال ہوگیا تھا۔ ایک بھائی باہر ہوتے ہیں۔ ان سے فون پر بات ہوجاتی ہے۔ باقی تمام بہنوں کی شادیاں ہوگئی ہیں۔ سب اپنے اپنے گھروں میں بہت خوش ہیں۔ جو مجھ سے بڑی ہیں، ان کی بھی شادی ہوگئی ہے۔ ان کے جوان بچے ہیں۔ مجھ سے چھوٹی بہن نے کورٹ میرج کی ہے۔ چوتھی نمبر کی بہن یہاں کراچی میں رہتی ہے۔ وہ بھی بہت خوش ہے۔ اللہ نے اسے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ میں سمجھتی ہوں میری بہنوں نے ماں باپ کے گھر میں بہت دُکھ دیکھے اور مصائب جھیلے۔ اللہ نے ان پر بڑا رحم کیا۔ ان کی مشکلات ان کی شادیوں کے ساتھ ختم ہوگئیں۔‘‘
’’میں نے اپنے تمام رشتہ داروں اور خاندان سے جھگڑا مول لے کر شادی کی۔ ایک شخص کی خاطر اپنا سب کچھ چھوڑدیا۔ بدقسمتی سے وہ ایسا بدلا جس کا میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ چند دن تک ان کا رویہ میرے ساتھ ٹھیک رہا، اس کے بعد ذہنی ٹارچر شروع کردیا۔ انہوں نے ملازمت چھوڑدی۔ میرے پاس جو کچھ تھا، وہ ایک ایک کرکے مجھ سے لے لیا۔ مجھے اس وقت بہت شدید دھچکا لگا جب پتا چلا کہ میرے شوہر نے جوا کھیلنا شروع کر دیا ہے۔ پھر کچھ عرصہ بعد اس انکشاف نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی کہ وہ شراب پینے لگے ہیں۔ میں نے اس شخص کی خاطر سب کو چھوڑ دیا تھا۔ اب دنیا میں میرا کوئی نہیں رہا تھا۔ والدین سے رابطے ختم ہوگئے تھے۔ دیگر رشتہ داروں کے ساتھ بھی تعلقات نہ ہونے کے برابر تھے۔ میں نے اتنا بڑا قدم اُٹھایا تھا۔ آج بھی میں سوچتی ہوں کہ 20 سال ہوگئے ہیں، میں نے اپنے والدین کی شکل تک نہیں دیکھی، لیکن جس کی خاطر یہ سب کچھ کیا، اس نے بہت زیادتی کی۔ اچھا صلہ نہ دیا۔ اس نے مجھے ترسایا۔ گھر میں راشن ہوتا نہ سبزی۔ فاقوں پر فاقے ہوتے۔ پڑوس والے کھانے پینے کی اشیا بھیجتے۔‘‘
’’میرا خیال ہے کہ میں نے اپنے شوہر کو سمجھنے میں غلطی کی تھی۔ وہ شروع سے ہی ایسے تھے۔ محنت سے جی چراتے تھے۔ بیٹھے بٹھائے کچھ مل جائے۔ اسی طرح ملازمت کی اور چھوڑ دی۔ کلینک کھولا اور بند کردیا۔ وہ آرام پسند تھے۔ کبھی ان میں غیرت آجاتی اور کام شروع کردیتے، مگر جلد ہی اپنی ڈگر پر واپس آجاتے۔ میں نے ان کا یہ رویہ بدلنے کی بہت کوشش کی۔ میرے پاس الفاظ نہیں جن کا سہارا لے کر میں بتاسکوں کہ میں نے کتنی کوششیں کیں۔ ظاہر سی بات ہے کون چاہتا ہے کہ اس کا گھر تباہ ہو، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ ان کے اندر فریب کاری بہت تھی۔ یہاں وعدہ کیا، آگے جاکر توڑ دیا۔
آپ اس سے اندازہ لگائیں کہ جب دُکھ درد اور غموں میں اللہ نے مجھے بیٹے کی نعمت سے نوازا۔ اس وقت میں نے ان سے فیصلہ کن انداز میں بات کی۔ انہیں اپنی عادات اور رویہ بدلنے کے لیے کہا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اب آپ پر ذمہ داریاں بڑھ گئی ہیں۔ خدارا! اپنے لیے نہیں، اس ننھی جان کی خاطر ہی اپنے آپ کو بدل ڈالیں۔ اس کا وقتی اثر ہوا۔ انہوں نے جوا اور نشہ چھوڑ دیا۔ ملازمت پر بھی جانا شروع ہوگئے، لیکن ایک دن پتا چلا کہ ملازمت پھر چھوڑدی اور شراب پی کر آ رہے ہیں۔ وہ بالکل مستقل مزاج نہیں تھے۔ اپنا مکان بیچ کر کرائے کے مکانوں میں لیے پھرتے رہتے تھے۔ کہتے تھے میرے بچوں کی تربیت پر اثر پڑے گا۔ آج یہاں، کل وہاں۔ پھر بھی میں ان کے ساتھ زندگی گزارتی رہی، کیونکہ میرے لیے اور کوئی راستہ نہیں تھا۔‘‘
’’میرے ہاں پہلے سالوں میں دو بیٹوں کی ولادت ہوئی، اس کے بعد اللہ نے ایک بیٹی سے نوازا۔ میں نے زندگی میں ہمیشہ دُکھ دیکھے ہیں۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ زندگی کا پرمسرت لمحہ کون سا تھا تو میں کہہ سکتی ہوں کہ جب مجھے اللہ نے اپنی رحمت سے نوازا۔ مجھے بیٹی کی بڑی خواہش تھی۔ جتنی میرے والد کو بیٹیوں سے نفرت تھی، اتنی ہی میری بیٹیوں کی آرزو تھی۔ پھر یہ بھی سنا تھا کہ جس گھر میں ایک لڑکی ہو، اس پر اللہ کی رحمت ہوتی ہے۔ اس لیے میں نے مزاروں پر حاضری دی۔ منتیں مانیں۔ اللہ کے سامنے گڑگڑا کر دُعائیں مانگیں۔ حالانکہ لوگ کہتے تھے تمہاری قسمت میں بیٹی نہیں ہے۔ جب لوگ اس طرح کی باتیں کرتے، میرے دل میں بیٹی کے لیے اور خواہش پیدا ہوتی۔ میں بیٹی کو اللہ کی رحمت سمجھتی تھی اور یہی سوچتی تھی کہ لوگ کچھ بھی کہیں، میں اللہ کی رحمت سے نااُمید نہیں ہوسکتی۔ آج بھی اپنی بیٹی کو دیکھتی ہوں، سکون ملتا ہے۔ سارے غم دور ہوجاتے ہیں۔ میں تمام والدین سے کہتی ہوں کہ بیٹیوں کو کبھی نہ دھتکاریں۔ کبھی انہیں تنہا نہ چھوڑیں۔ ان سے نفرت نہ کریں۔ وہ بہت معصوم ہوتی ہیں۔ بڑی مظلوم ہوتی ہیں۔‘‘
’’میرے شوہر کو بچوں سے محبت تھی۔ یہاں تک کہ جب بیٹی کی ولادت ہوئی، انہوں نے ایک بار پھر تمام خرافات سے توبہ کی۔ رمضان کے روزے باقاعدگی سے رکھنا شروع کردیے۔ ملازمت پر جانے لگے، لیکن میں نے بتایا کہ وہ مستقل مزاج نہیں تھے۔ کاہل قسم کے تھے۔ بہت جلدی بہک جاتے تھے۔‘‘
’’ایک بار جب میرے شوہر بیمار ہوئے، میری ہمت ٹوٹ گئی۔ میں سوچتی تھی کہ بچوں کو اکیلے کیسے سنبھالوں گی؟ حالات کا مقابلہ کیسے کروں گی؟ کیونکہ میرے شوہر جیسے بھی تھے، بہرحال مرد ایک سہارا ہوتا ہے۔ اس لیے میں اتنی پریشان ہوئی کہ سوچا اب زندگی کا خاتمہ کرلینا ضروری ہے۔ اور ایک بار اس وقت ٹوٹ کر رہ گئی جب میرے شوہر نے میری ساری پروفائل جلادی۔ آخری وقت میں وہ کچھ نفسیاتی ہوگئے تھے۔ اس وقت انہوں نے میری پوری لائبریری اور ڈائریاں بیچ ڈالیں۔ میں نے زندگی بھر اتنی پریشانیوں کے باوجود کتابیں اکٹھی کی تھیں۔ مجھے بہت سی کتابیں تحفے میں ملی تھیں۔ لوگ دولت کماتے ہیں۔ میں نے اپنی دولت کتابوں کو بنایا۔ اس دن میں ان کے رشتہ داروں کے ہاں گئی تھی۔ جب واپس آئی تو پتا چلا کہ اس ظالم نے ایک ہزار پچاس روپے میں میری پوری لائبریری بیچ ڈالی ہے۔‘‘
’’اصل میں وہ ہائی بلڈ پریشر کے مریض تھے۔ آخری عمر میں ان کے پورے جسم پر فالج کا حملہ ہوا۔ اس وقت وہ پریشان رہتے تھے۔ انہوں نے مجھے کہا کہ میں نے تمہیں کچھ نہیں دیا۔ اب تم کہیں اور چلی جائو۔ میں ان سے کہتی کہ جو جوانی کا زمانہ تھا، وہ آپ کے ساتھ گزارا۔ آپ کے لیے اپنا گھر بار چھوڑا، والدین کی شکل بھلادی۔ اب اس دنیا میں میرا کون ہے اور اس عمر میں تین بچوں کے ساتھ مجھے کون قبول کرے گا؟ لیکن وہ کہتے تھے تم کہیں بھی جاؤ، بس مجھے میرے حال پر چھوڑ دو۔ وہ چیختے تھے، چلاتے تھے اور بار بار کہتے تھے تم چلی جاؤ، ورنہ میں طلاق دے دوں گا۔ مجھے سمجھ نہیں آتی تھی کس طرح ان حالات کا سامنا کروں، کیونکہ وہ کسی بھی وقت روح کو گھائل کردینے والے یہ الفاظ بول سکتے تھے۔ مجھے ہر وقت یہ خوف لگارہتا تھا۔ اور ایک روز ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے مجھے کئی طلاقیں دیں۔ وہ بار بارکہتے جارہے تھے اب تم چلی جاؤ۔ میں نے تمہارے ساتھ انصاف نہیں کیا۔ پوری زندگی تمہیں پریشان رکھا۔ دکھ دیے، درد دیے۔ تم مجھے معاف کردینا۔ شاید وہ اس طرح اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا چاہتے تھے۔‘‘
’’میں انہیں اس حال میں کیسے چھوڑکر جاتی؟ وہ بستر پر تھے۔ ان کی حالت خراب تھی۔ وہ خود اُٹھ کر پانی نہیں پی سکتے تھے۔ میری زندگی میں دکھ کا زمانہ یہ بھی تھا کہ طلاق کے باوجود میں نے دو ڈھائی سال تک ان کی خدمت کی۔ میں اپنے اللہ کے حضور بہت روتی تھی اور کہتی تھی اے اللہ! میں انہیں اس حال میں چھوڑکر کیسے چلی جائوں؟ میں کہتی تھی: ’’میرے اللہ! آپ جانتے ہیں کہ میں ان کے ساتھ میاں بیوی کا کوئی تعلق نہیں رکھ رہی۔ میں بطورِ نرس ان کی خدمت کر رہی ہوں۔‘‘
میں اس بات پر آج بھی شرمندہ ہوں۔ اپنے آپ کو گنہگار سمجھتی ہوں کہ طلاق کے باوجود ان کے ساتھ دو ڈھائی سال گزارے۔ مگر میں یہی کہہ رہی ہوں کہ انہیں کیسے چھوڑتی؟ اس کے خاندان والے طعنے دیتے کہ جب وہ کسی کام کا نہ رہا، تب اسے بے یار و مددگار چھوڑ دیا۔ میں نے انتقال کے بعد لوگوں کی باتوں سے بچنے کے لیے عدت کے ایام گزارے۔‘‘
’’میں نے ان کے تمام رشتہ داروں کو بتایا تھا کہ میرے شوہر نے مجھے طلاق دی ہے، لیکن تب بھی میں ہی بری تھی۔ وہ سب یہی سمجھتے تھے کہ شاید میں آخری عمر میں ان سے جان چھڑانا چاہتی ہوں۔ یہی وجہ ہے میں نے مجبوراً عدت کے چار ماہ دس دن بھی گزارے۔ صرف اس لیے کہ کل کہیں لوگ میرے بچوں کو طعنے نہ دیں۔ مجھے معلوم ہے کہ یہ چار ماہ دس دن مجھ پر کس اذیت میں گزرے؟ کوئی رات ایسی نہیں آئی جب میں نے انہیں آگ میں جلتا ہوا نہ دیکھا ہو۔ اور جب میں انہیں آگ سے بچانے کے لیے آگے بڑھتی، کوئی اَن دیکھی قوت مجھے زور سے پیچھے دھکیل دیتی۔‘‘
’’انتقال سے تین چار ماہ پہلے ان کا نفسیاتی مسئلہ بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ رات کو اُٹھ کر بچوں کا گلا دبانے کی کوشش کرتے۔ وہ کہتے تھے میں ان سب کو قتل کردوں گا۔ جب یہ حال ہوا، میں نے ان کی پہلی بیوی کے بیٹے کو فون کیا۔ انہیں بتایا کہ میرے پاس کوئی راستہ نہیں۔ آپ خدارا! انہیں کسی ہسپتال لے جائیں یا انہیں اپنے گھر پر علاج کرائیں۔ وہ سرکاری دفتر میں اچھی پوسٹ پر ہوتے ہیں، مگر انہوں نے قبول کرنے سے انکار کردیا۔ پھر میں نے ان کے دیگر رشتے داروں کو بلوایا اور پوچھا کہ ان کے ساتھ کیا کروں، کیونکہ اب یہ بچوں کی جان کے لیے خطرہ بن رہے ہیں۔ رشتہ داروں میں سے کسی نے مشورہ دیا کہ انہیں ’’ایدھی ہوم‘‘ میں داخل کرا دیں۔ میرے پاس اور کوئی راستہ نہیں تھا۔ مجبوراً انہیں رشتہ داروں کے مشورے سے ایدھی ہوم میں داخل کرایا۔ تین ماہ بعد ہمیں ان کے انتقال کی خبر ملی۔ میں نے ان کے انتقال کے بعد مجبوراً عدت کی مدت بھی گزاری، تاکہ کل کوئی مجھے طعنہ نہ دے سکے۔‘‘
”تب سے لے کر اب تک میں اسی مکان میں رہ رہی ہوں۔ زندگی میں بہت دکھوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ بس اب تو اپنی اولاد کی خاطر جی رہی ہوں۔ انہیں دیکھتی ہوں تو ہمت کچھ کچھ بندھ جاتی ہے۔“
”میں نے اپنی زندگی سے بس ایک ہی سبق سیکھا ہے اور آپ سے بھی یہی درخواست کر رہی ہوں کہ اسے زیادہ لوگوں تک پہنچائیں۔ وہ یہ کہ والدین اپنے بچوں، خصوصاً بچیوں پر کبھی سختی نہ کریں۔ آج اگر میرا یہ برا انجام ہوا ہے تو میں اس کا ذمہ دار اپنے گھر کے حالات اور اپنے والد کے رویے کو سمجھتی ہوں۔ میں آج شاید مشکل میں نہ ہوتی، اگر میں گھر کی مشکلات سے بچنے کے لیے یہ قدم نہ اُٹھاتی۔“

Comments

Click here to post a comment