ہوم << ٹرمپ کی جیت اور مشرق وسطی پر اثرات؟ غلام نبی مدنی

ٹرمپ کی جیت اور مشرق وسطی پر اثرات؟ غلام نبی مدنی

غلام نبی مدنی ڈونلد ٹرمپ کی غیر متوقع جیت پر دنیا بھر میں کہیں بہت زیادہ تشویش پائی جارہی ہے اور کہیں خوشی کی شادیانے بجائے جارہے ہیں۔امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف اب تک تاریخ کے بدترین مظاہرات ہورہے۔دوسری طرف امریکہ ،اسرائیل سمیت بہت سی جگہوں پر ٹرمپ کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیاجارہاہے۔جب کہ کئی ممالک نے نہ چاہتے ہوئے بھی ٹرمپ کو مبارکباد دی اور مستقبل میں باہم مل کر کام کرنے پر اتفاق کیا۔امریکہ کے بعد مشرق وسطی ٰمیں ٹرمپ کی جیت غیرمعمولی اثرات مرتب کرنے والی ہے۔امریکی تجزیہ نگاروں کے مطابق ٹرمپ فارن پالیسی سے بالکل ناواقف ہیں،جب کہ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کےکئی سابق اور سنئیر افسران نے بھی ٹرمپ کے ساتھ کام کرنے سے انکار کردیا ہے۔ نیویارک ٹائمز نےمارچ2016میں سابق ریپبلکن صدور بش سینئراور بش جونئیر کی انتظامیہ کے ساتھ کام کرنے والےایسے کئی افسران کی رائے شائع کی ہے۔ان میں ورلڈ بنک کے سابق صدر سے لے امریکی دفاعی اور خفیہ ایجنسیوں کے اعلی اہلکاراور بیوروکریٹ بھی شامل ہیں۔ٹرمپ کی انتخابی مہم سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے کہ ٹرمپ جذباتی اور متنازع بیانات کے علاوہ کوئی سنجیدہ اور مستحکم پالیسی نہیں رکھتے۔لیکن بہرحال وہ امریکہ کے صدر ہیں،جس کی پشت پر امریکی اور ریپبلکن پارٹی کی مضبوط پالیسیاں ہیں اور دنیا انہیں پالیسیوں پر اعتماد اور یقین کرتی ہے۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت پر ترکی سمیت مشرق وسطیٰ کے دیگر اہم ممالک بالخصوص سعودی عرب ناخوش نظر آتے ہیں۔جب کہ ٹرمپ کی جیت پر اسرائیل بھر میں انتہائی جوش وخروش پایا جارہاہے۔اسرائیلی وزیراعظم بنیامین نیتن یاہو نے ٹرمپ کی جیت پر مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ" ٹرمپ ان کا جگری دوست ہے،وہ امید کرتے ہیں کہ ٹرمپ ان کے لیے کام کرے گا"۔یروشلم پوسٹ کے مطابق اسرائیلی وزیرانصاف نے ٹرمپ کی جیت پر اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ" ٹرمپ اسرائیل کے ساتھ کیے گئے وعدے پورے کرے گااور القدس کو اسرائیل کا دارلخلافہ تسلیم کرکے اپنا سفارتخانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرے گا"۔1897ء سے نیویارک سے شائع ہونے والی یہودی اخبار(The Forward) نے ٹرمپ کے اسرائیل کے ساتھ قریبی تعلقات پر ایک رپورٹ شائع کی ہے ۔اس رپورٹ میں ٹرمپ کا بیان ذکرگیا ہے کہ"مجھے اس پر خوشی ہے کہ میری بیٹی اور پوتے یہودی ہیں،ہم اسرائیل سے محبت کرتے ہیں،ہم ہمیشہ اسرائیل کے لیے سوفیصد نہیں بلکہ ہزار فیصد لڑیں گے"۔ٹرمپ کی اسی یہودی بیٹی نےچھ ماہ قبل یہودیوں کے ایک اجلاس میں یقین دلایا تھا کہ وہ اپنے والد کے جیتنے کے بعد انہیں اسرائیل کے لیے کام کرنے پر ضرور مجبور کریں گی۔دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ٹرمپ بہت بڑے بزنس مین ہیں،مشرق وسطی سمیت دنیابھر میں ان کے کاروبار کا جال بچھا ہوا ہے۔ٹرمپ کے داماد اس کے بزنس پاٹنر یہودی کے بیٹے ہیں۔ٹرمپ کی سب سے بڑی آرگنائزیشن کے چیف ایگزیٹو بھی ایک یہودی ہیں۔نیتن یاہو کی انتخابی مہم کے لیے ٹرمپ نے ایک ویڈیو پیغام میں اسرائیلی عوام کو نیتن یاہو کے لیے ووٹ کاسٹ کرنے کا کہاتھا۔اس کے علاوہ تل ابیب میں ٹرمپ ٹاور کے نام سے اسرائیل کی سب سے لمبی عمارت بنانے کے لیے زمین خریدی جو بعدازاں بیچ دی گئی۔ ٹرمپ امریکہ میں یہودیوں کے بہت قریب سمجھے جاتے ہیں،یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں انتخابی مہم کے دوران سارے یہودیوں نے ٹرمپ کی حمایت میں ووٹ ڈالا۔یہودیوں کے ساتھ اس قدر گہرے روابط عیسائیت اور تاریخ کے ایک امریکی پروفیسر نے ٹرمپ کے مذہب پر نیویارک کے اخبار میں ایک رپورٹ لکھی،جس میں اس کا کہنا تھا کہ" اگرچہ ٹرمپ خود کو عیسائی کہتا ہے،لیکن اس نے عیسائیت کی عبادات اور اخلاقیات کو چھوڑ دیا،اس کے غیر عورتوں کے ساتھ جنسی اسکینڈل اور اپنی بیٹی کے ایک یہودی شخص سے شادی کرنے اور پھر بیٹی اور پوتوں کے یہودی بننے پر خوش ہونے سے یہ واضح ہوجاتا ہے کہ ٹرمپ کا عیسائیت سے برائے نام تعلق ہے"۔مشہور امریکی عیسائی مذہبی تنظیم کے چئیرمین نے ٹرمپ کی جیت کے بعد ٹرمپ کے چرچ آکر خدا کا شکر ادا نہ کرنے پربرہمی کا اظہارکرتے ہوئے کہاکہ وہ چرچ کے ساتھ کیے گئے وعدوں کو پورا کرے ۔چرچ ہی نے ٹرمپ کو ووٹ دینے کے لیے لوگوں کو قائل کیا تھا"۔
ان شواہد کی روشنی میں یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ "پرواسرائیلی"امریکی صدر ہیں۔سابق امریکی صدور کی بہ نسبت اسرائیل کے معاملے میں یہ زیادہ متشدد ہیں۔جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ2013ء میں ٹرمپ اوبامہ کو اسرائیل کے ساتھ بھرپور تعاون نہ کرنے پر برابھلا کہہ چکے ہیں۔ ٹرمپ کے اسرئیل کے ساتھ اس قدر گہرے تعلقات کا مشرق وسطیٰ کی صورتحال پر بہت گہرا اثر پڑے گا۔یہی وجہ ہے تل ابیب یونیورسٹی کے ایک پروفیسر نے یروشلم پوسٹ کو بیان دیتے ہوئے کہا کہ "ٹرمپ کو اسرائیل کی حمایت میں کام کرنا ہوگا تاکہ خطے میں اسرائیل کی بالادستی قائم رہے اور روس اور ترکی مشرق وسطیٰ میں مضبوط نہ ہونے پائیں"۔دوسری طرف شام کے معاملے میں ٹرمپ کاجیت کے بعد پالیسی بیان سامنے آیا ہے کہ وہ پہلے سے زیادہ داعش کے خلاف شام میں لڑیں گے،جب کہ ہیلری کلنٹن انتخابی مہم کے دوران اس بات کا اظہار کرتی رہیں کہ شام میں داعش کے نام پر عام لوگوں کو مارنے سے احتراز کیا جائے گا،جب کہ ٹرمپ کے حالیہ بیان میں یہ بھی کہا گیا کہ اصل مقصود داعش کو مارنا ہے،کوئی اور مرے یا جیے اس سے ہمیں کوئی غرض نہیں۔شام میں بشارالاسد کے حامی ایران اور روس کے بارے بھی ٹرمپ کی الگ الگ پالیسی سامنے آئی ہے۔درحقیقت ٹرمپ اور ریپبلکن پارٹی ایران کے ساتھ پچھلے سال کیے گئے نیوکلئیر معاہدے کےخلاف ہے،یہی وجہ ہے کہ ایرانی صدر حسن روحانی نے ٹرمپ کو سابقہ معاہدوں پرقائم رہنے کا پیغام دیا ہے۔جب کہ روسی صدر نے ٹرمپ کی جیت پر نیک خواہشات کا اظہار کیا اورمل کر کام کرنے کا عزم کیا،ٹرمپ کا بھی روس کی طرف مثبت جھکاؤ ہے،جس کی وجہ سے کئی امریکی اعلی و دفاعی عہدیدار اور بیور کریٹ ٹرمپ کے ساتھ مل کر کام کرنے سے انکار کرچکے ہیں۔دوسری طرف سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے تعلقات ان دنوں کافی ناخوشگوارہیں،اس کی وجہ حال ہی میں سعودی عرب کے خلاف امریکی کانگریس کا پاس کیا گیا"جاسٹا نامی قانون "اور ایران کے ساتھ امریکہ کی نیوکلئیر ڈیل ہے۔یہی وجہ ہے سعودی عرب ترکی کے ساتھ مل کر روس کے ساتھ تعلقات بہتر کررہاہے۔لیکن ٹرمپ کی جیت پر شاہ سلمان اور دونوں ولی عہد الگ الگ پیغامات میں ٹرمپ کو مبارکباد دے چکے ہیں اور مل کر کام کرنے کے عزم کا اظہار کرچکے ہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ مشرق وسطیٰ میں بڑھتی ہوئی روسی اور ایرانی اجارہ داری روک پائے گا؟کیا سعودی عرب ٹرمپ کے ساتھ ٹوٹے ہوئے تعلقات بحال کرپائے گا؟بظاہر ان دونوں سوالوں کا جواب نفی میں ہے۔کیوں کہ مشرق وسطیٰ میں روس کی بڑھتی ہوئی بالادستی اور دیگر ملکوں کے ساتھ روسی اتحاد پر امریکی دفاعی وخارجہ بیوروکریسی میں کافی تشویش پائی جاتی ہے،جب کہ ٹرمپ نیٹو اور روس کے ساتھ اتحاد کا قائل ہے۔دوسری طرف سعودی عرب امریکہ کے دوہرے رویے کے خلاف نئے اتحادی تلاش کرنے کی جستجو میں لگا ہے۔اس کے علاوہ ٹرمپ کی اسرائیل نوازی بھی خطے میں امن قائم کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے ۔نتیجتا مشرق وسطیٰ میں چاروں طرف لگی آگ بجھنے کی بجائے مزید بڑھکنے کا خدشہ ہے جس سے بڑی خانہ جنگی کے امکانات کو رد نہیں کیا جاسکتا۔