میو اسپتال بچہ وارڈ میڈیکل ایمرجنسی میں میری نائٹ ڈیوٹی تھی .. ہیوی ٹرن اوور تھا. کھوے سے کھوا چل رہا تھا .. ایک ہاؤس آفیسر، ایک میڈیکل آفیسر اور ایک سینئر رجسٹرار دو نرسز کے ساتھ میڈیکل ایمرجنسی سنبھال رہی تھیں. اتفاق سے سارا سٹاف خواتین پر مشتمل تھا. صرف ایمرجنسی کے گیٹ پر کھڑا چوکیدار مرد تھا.
رات کے دو اڑھائی بجے ایک تین سالہ بچی کو جھٹکوں اور تیز بخار کے ساتھ اسپتال لایا گیا. خوبصورت اور فربہی مائل صحت مند بچی بےہوشی، بخار اور جھٹکوں میں مبتلا تھی. پریشان حال روتی دھوتی ماں، پریشان اور غصیلا باپ اور چار پانچ درباری قسم کے رشتے دار بچی کے ساتھ تھے. ویل آف سیاسی قسم کی فیملی لگ رہی تھی جو رات کے اس پہر کوئی پرائیویٹ ڈاکٹر نہ ملنے کے باعث میو اسپتال کا رخ کرنے پر مجبور ہوئی تھی. درباری رشتے داروں کو چوکیدار نےگیٹ پر روکا لیکن وہ ایم ایس سے تعلق کا حوالہ دے کر اندر گھس آئے .. ایمرجنسی کا چھوٹا سا کمرہ مریضوں سے بھرا ہوتا ہے، اس میں بچوں کے ساتھ ایک فرد کو کھڑا ہونے کی اجازت ہوتی ہے، جبکہ اس بچی کے ساتھ چھ سات لوگ اندر آ گئے تھے. بچی کو فوری طور پر ڈیوٹی ہاؤس آفیسر اور نرس نے اٹینڈ کیا جبکہ ایم او بھی ساتھ موجود تھی. اگر آپ لوگوں کو دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو بچے کو کینولا لگانا ایک مشکل کام ہوتا ہے خصوصا ایک فربہ بچے کو جو جھٹکے بھی لے رہا ہو، اگر اس کے اٹینڈنٹس ڈاکٹر کو سوئی چبھونے کی اجازت بھی نہ دے رہے ہوں تو کینولا لگانا مزید مشکل ہو جاتا ہے. بچی کے ہاتھ کی طرف سوئی بعد میں بڑھتی تھی، پریشان حال ماں بچی کا بازو اپنی طرف پہلے کھینچ لیتی تھی. جھٹکے شدید ہوتے جا رہے تھے. غصیلے اور عدم تعاون پر آمادہ اٹینڈنٹس .. رات گئے کا وقت .. چوکیدار نے سینئر رجسٹرار صاحبہ کو بھی کال کر لیا. خدا خدا کر کے بچی کو کینولا پاس کرنے میں کامیابی ہوئی .. دوا دی گئی اور بچی کے جھٹکے رکے تو سب نے سکون کا سانس لیا ..
اسی وقت میرے کندھے پر ایک غیر دوستانہ دستک ہوئی .. میں ڈیوٹی ہاؤس آفیسر تھی جو کینولا لگانے کی سب سے زیادہ ماہر مانی جاتی تھی، اس روز بھی کینولا میں نے ہی لگایا تھا، اور بچی کے جھٹکے کنٹرول ہوتے دیکھ کر بےحد خوش تھی .. خیر اس دستک کے جواب میں پلٹ کر دیکھا تو ایک درباری اٹینڈنٹ جسے بچی کے باپ کے سامنے کارروائی دکھانے کا کوئی موقع نصیب نہیں ہوا تھا، اس نے اپنی کمر سے لگا ہولسٹر اور گن دکھاتے ہوئے سلطان راہی کے انداز میں مجھے ایک ڈائیلاگ سے نوازا ..
”اگر آج تم ہماری بچی کا علاج نہ کرتی تو صبح تمہیں نوکری سے فارغ کروا دیتا . ایم ایس میرا رشتے دار ہے.“
اتنی عمدہ تعریف اور حوصلہ افزائی پر مجھ سمیت تمام ڈاکٹرز کا دماغ گھوم گیا لیکن کچھ بولنے سے پہلے ہی چوکیدار نے اسے پکڑا، اور بزور باہر لے گیا. اس کے بعد ہماری ایس آر نے بچی کے والدین اور تمام وارڈ کے سامنے ایک جوشیلی جذباتی تقریر کی جس کا لب لباب یہ تھا کہ ہم ایک رات اور ایک دن میں سینکڑوں بچوں کی جان بچاتے ہیں. ایسے برے رویے کے حقدار ہم نہیں. اگلی صبح مارننگ میٹنگ میں رات کے واقعہ پر بحث ہوئی اور وارڈ سکیورٹی بڑھا دی گئی. اس واقعہ سے ڈاکٹرز خوفزدہ بھی تھے اور کام کرنے کا جذبہ بھی خوف و طیش کے ملے جلے جذبات کی آڑ میں چھپ سا گیا تھا .. لیکن پروفیسر صاحب اور سینئیرز کی حوصلہ افزائی کے بعد کام بلاتعطل جاری رہا..
یہ واقعہ آج کل جاری ڈاکٹرز کی ہڑتال کے تناظر میں یاد آ گیا .. جہاں جذباتی اٹینڈنٹس اپنے غصے اور طاقت کا غلط استعمال کر کے ڈاکٹرز کا تعاون کھو دیتے ہیں. ڈاکٹر آپ کا دوست اور ساتھی ہے، آپ کی صحت اس کا مقصد ہے لیکن وہ ایک انسان ہے، آپ کا بےدام غلام نہیں. باہمی عزت و احترام پر دو طرف سے ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے.
ڈاکٹرز کو اپنی بات سنانے کے لیے ہڑتال کرنا پڑی .. ایمرجنسی میں کام جاری تھا لیکن ریپورٹڈلی ایک ڈی ایم ایس صاحب پستول لہرا کر ایمرجنسی کے ڈاکٹرز کو دھمکاتے رہے. ینگ ڈاکٹر سے زیادہ انرجی اور کام کا جذبہ کسی میں نہیں ہوتا لیکن خوف و دہشت کے سائے میں گن پوائنٹ پر کیا کسی سے کوئی کام لے سکتا ہے؟ اگر دو ہفتے سے اسپتال کا آؤٹ ڈور اور ان ڈور بند ہے تو یہ انتظامیہ کی بد ترین نااہلی کا مظہر ہے.
ینگ ڈاکٹرز کو بھی ہمدردی سے کام لیتے ہوئے غیر مشروط طور پر ایمرجنسی ڈیوٹیز کو سنبھال لینا چاہیے .. بےشک بطور احتجاج کالی پٹیاں باندھے رکھیں اور انتظامیہ کو بھی ڈاکٹرز کی خاطرخواہ دل جوئی اور حفاظت کا بندوبست کرنا چاہیے.
ایک عام آدمی سے میرا سوال ہے کہ یہ نوجوان ڈاکٹر آپ کا بیٹا بیٹی یا چھوٹا بھائی بہن ہوتا اور اس کو مریض کے رشتے دار جان کی دھمکی دیتے یا پستول سے دھمکاتے تو آپ اپنی بہن کو اگلے روز مسیحائی کے لیے بھیجتے یا اسے تب تک کام پر جانے دیتے جب تک اس کی حفاظت کا یقینی بندوبست نہ کر دیا جاتا..
میری تمام ینگ ڈاکٹرز سے درخواست ہے کہ وہ اپنےاعلی تعلیم و تربیت یافتہ ہونے کا ثبوت دیں اور مریض کے سوشل اسٹیٹس سے قطع نظر عزت و ہمدردی کا سلوک روا رکھیں ..
اسی طرح عوام سے درخواست ہے کہ وہ بھی ڈاکٹر کو مشکل مصیبت اور تکلیف میں کام آنے والا مخلص اور ہمدرد دوست مانیں اور اس کو عزت دیں..
تبصرہ لکھیے