کئی ماہ سے جاری مباحثوں، تجزیوں اورانتخابی مہم کے بعد9 نومبر2016ء کو امریکی عوام نے اپنے صدر کا انتخاب کر لیا۔ ری پبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ کے ہاتھوں میں امریکی عوام نے بالخصوص اپنی اور بالعموم پوری دنیا کی تقدیر تھما دی۔ دنیا بھر میں اس وقت اہم موضوع ٹرمپ کی بطور امریکی صدر کامیابی ہے۔ عالمی میڈیا اور خود امریکی ذرائع ابلاغ ٹرمپ کے متشدد رویے اور متنازعہ شخصیت ہونے اور سیاسی ناتجربہ کاری کے سبب قریباََ پُریقین تھے کہ وہ انتخاب ہارجائیں گے۔ ہیلری کلنٹن نرم خو، سنجیدہ، بطور وزیرِخارجہ خدمات سرانجام دینے کے سبب تجربہ کار اور بہتر امیدوار تھیں، مگر کیا کیجیے کہ جمہوریت میں ایسی شکست کسی کو بھی ہوسکتی ہے، چاہے اس کی پشت پر باراک اوباما ہی کیوں نہ ہو۔
یورپ، اسلامی دنیا اور سنجیدہ طبقات ٹرمپ کی جیت پر پریشان ہیں جبکہ بھارت جیسی ریاستیں خوش ہیں کہ ٹرمپ کے ساتھ معاملات بہتر سمت میں چلیں گے۔ اسلامی دنیا کی پریشانی بجا ہے کہ انتخابی مہم کے دوران ٹرمپ نے خلیجی ریاستوں سے تعلقات پر کچھ معاملات میں نظرِثانی کی باتیں کیں جبکہ مسلمانوں کے خلاف نفرت بھرے انداز میں تقاریر کیں۔ یورپ اور دیگر ممالک بھی سوچ میں پڑ گئے ہیں کہ اگرٹرمپ نے مسندِ صدارت سنبھالنے کے بعد اپنے متشد درویے میں تبدیلی نہ لائی تو دنیا کے حالات کس رخ پر جائیں گے۔دوسری طرف بھارت کی خوشی بھی سمجھ میں آتی ہے کہ اس خطہ میں ٹرمپ کو پاکستان یا بھارت میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑا تو وہ یقینا بھارت کو ہی مناسب سمجھے گا۔پاکستان کو نظرانداز کرنا بھی آسان نہیں مگر اس صورت میں بھی بھارت سے تعلقات کی اہمیت پاکستان سے زیادہ ہوگی۔ روس نے بھی خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اب امریکہ سے بامعنی بات چیت ہوگی۔ افغان طالبان نے مطالبہ کیا ہے کہ ٹرمپ امریکی فوج کی افغانستان سے واپسی کا اعلان کریں۔
نومنتخب صدر نے کامیابی کے بعد تقریر میں اپنے عمومی مزاج سے ہٹ کر بلا تفریق مذہب، رنگ اور نسل کے امریکہ کی خدمت کرنے کا عزم کیا جو کہ خوش آئند ہے۔ یہ کہنا کہ قبل از وقت ہوگا کہ مزاج میں یہ تبدیلی وقتی ہے یا پھر پالیسی بناتے وقت بھی اسی مزاج سے کام کریں گے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے جس انداز میں انتخابی مہم چلائی، وہ خاصی خطرناک اور نفرت انگیز تھی، یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی پر دنیا بھر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی ہے۔ مقتدر حلقوں کے ساتھ ساتھ عوامی حلقوں کا موضوعِ گفتگو بھی یہی ہے کہ نجانے اب کیا ہوگا؟ امریکہ سے مسلمانوں کو بےدخل کرنے، مسلمانوں کو ویزوں کا اجرا روکنے نیز نسلی تعصب پر مبنی بیانات ٹرمپ کی انتخابی مہم کا حصہ تھے۔ ٹرمپ کی کامیابی پر کئی لوگوں کو دکھایا گیا جو دھاڑیں مار مار کر رو رہے تھے۔ تجارتی محاذ بھی خاصا سرد رہا جس سے عالمی معیشت پر منفی اثرات مرتب ہوئے۔ اس قدر لوگ امریکہ سے ہجرت کرنے کے خواہش مند ہیں کہ کینیڈا کی مائیگریشن ویب سائٹ کریش کرگئی۔
نومنتخب صدر کو امریکی عوام اور دنیا بھر کے سنجیدہ طبقات کے خدشات و تحفظات کو مدِنظر رکھ کر حکمتِ عملی مرتب کرنا ہوگی۔ اگر ایسا نہ ہوا تو دنیا میں پہلے سے موجود فساد، ظلم اور نفرتیں مزید بڑھیں گی جس کی لپیٹ میں خود امریکہ بھی آئے گا۔ دنیا کے موجودہ خراب حالات کی ذمہ داری بھی امریکہ پر ہے۔ امریکہ ہی نے نائن الیون کے بعد صلیبی جنگ کی ابتدا کی اور افغانستان و عراق میں ظلم و بربریت کا بازار گرم کیا۔ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی غلط پالیسیوں کے سبب دنیا کو آج داعش جیسی تنظیموں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جبکہ لیبیا، شام اور یمن میں آگ و خون کا کھیل جاری ہے۔ یورپ اور امریکہ بھی وقتاََ فوقتاََ اس آگ کا ایندھن بنتے رہتے ہیں۔ اگر ٹرمپ نے موجودہ پالیسیوں کو ہی جاری رکھا یا متشدد پالیسی اختیار کی تو اس کا نقصان جہاں دوسرے مذاہب اور خطوں کو ہوگا وہیں امریکہ و یورپ بھی اسی آگ میں جھلسیں گے۔ دہشت گردی ایک عالمی مسئلہ ہے جس سے نمٹنے کے لیے تمام ممالک سے بہتر تعلقات لازمی ہیں۔
صدارتی انتخاب کے روز قصرِابیض کے سامنے ہیلری کلنٹن اور ڈونلڈ ٹرمپ کے حامیوں کے درمیان ہاتھا پائی بھی ہوئی جو یقینا مہذب دنیا کی طرف سے’’جمہوریت کے حسن‘‘ کا اظہار تھا۔ ٹرمپ بھی اپنی جیت کے واضح امکانات سے پہلے بیانات دیتے رہے کہ حالات دیکھ کر الیکشن کے نتائج تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ کروں گا۔ دنیا کو رواداری، برداشت اور جمہوریت کا سبق دینے والے اس طرح کے واقعات کی کیا تاویل پیش کریں گے؟ یہاں امریکہ و یورپ کی تہذیب، عورتوں کی برابری کی مثالیں دینے والوں کو سوچنا چاہیے کہ امریکی معاشرے کی اکثریت نے ایک عورت کو مسترد کر کے عورتوں کے خلاف غلط زبان استعمال کرنے، گالیاں دینے والے اور نفرت پھیلانے والے مَرد کو اپنا صدر کیوں بنایا؟ پاکستانی عوام کو متشدد مزاج کہنے والوں سے ایک سوال ہے کہ کیا پاکستان کی ’’تشدد پسند عوام‘‘ صدر، وزیرِاعظم تو الگ کسی ایسے شخص کو صوبائی و قومی اسمبلی کی رکنیت کے لیے بھی ووٹ دے گی جو یہ نعرہ لے کر سیاست میں آئے کہ میں فلاں مذہب، فلاں فرقہ کے لوگوں کو اپنے ملک سے نکال دوں گا؟
تبصرہ لکھیے