مغربی تہذیب اپنی پوری چمک دمک، آب و تاب کے ساتھ، اسلامی تمدن، اسلامی روایات، اسلامی اخلاق و اقدار پر حملہ آور ہے، اسلامی تہذیب کے نشیمن کے ایک ایک تنکے پر بجلیاں گرائی جا رہی ہیں، یہ تہذیب عالم اسلام کے ایک بڑے طبقے پر فتح حاصل کر چکی ہے، اس کی تابانیوں کے سامنے، اس کی آنکھیں خیرہ، اس کا دل گردیدہ، اس کا دماغ مسحور اور اس کا شعور مفلوج اور مکمل مفلوج ہو چکا ہے. تہذیبوں کے اس تصادم میں ایک جماعت ہے جو ایک ایسے اسلامی معاشرے کی تشکیل کے لیے کوشاں ہے جس میں صنعتی، سائنسی، ٹیکنالوجی اور مادی ترقی پورے عروج پر ہو اور اس کے ساتھ ساتھ اسلامی تہذیب وتمدن، اسلامی اخلاق و ثقافت کسی تحریف و تاویل کے بغیر رائج ہو، ایک ایسا اسلامی معاشرہ جس میں مغرب کے بظاہر خوشنما لیکن درحقیقت جذام زدہ نظام اخلاق و تہذیب سے مرعوبیت کا ذرہ بھر شائبہ نہ ہو، مادی وسائل سے لیس ہونے کے ساتھ اس میں اسلام کی ایک ایک تعلیم اور سرور دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک ایک سنت کو زندگی کے ہر ہر شعبے میں پورے فخر مکمل یقین اور بھرپور اعتماد کے ساتھ اختیار کیا ہو، اس بارے میں کسی قسم کی مداہنت، مصلحت، معذرت اور رواداری کی گنجائش کا سوال ہی پیدا نہ ہوتا ہو. ایک ایسا مسلمان معاشرہ جو دوسری قوموں کی تہذیب کو پورے احساس برتری کے ساتھ یہ کہہ کر رد کر دیتا ہو کہ کیا ہم اپنے نبی سروردوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کو ان احمق قوموں کی تہذیب کی خاطر ترک کر دیں.
اسلام کے اسی بلند اخلاق و کردار کے حاملین کی جماعت کا نام جمعیت علمائے اسلام ہے. اس روح و بدن کی کشمکش میں مغرب نے پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے کیل کانٹوں سے لیس ہو کر جمعیت علماء اسلام کے خلاف بےبنیاد پروپیگنڈہ شروع کر رکھا ہے. یار لوگوں کو جمعیت علمائے اسلام کے خلاف کوئی اور ثبوت نہیں ملتا تو بڑے طمطراق سے یہ راگ الاپنا شروع کر دیتے ہیں کہ جمعیت تو اقتدار کی غلام گردش، وزارت کا نشہ، پروٹوکول کی مستی اور دولت کی ہوس کی خوگر ہے، تبھی تو یہ ہر حکومت کی اتحادی ہوتی ہے. یہ بات تو آئندہ سطور میں واضح ہو جائے گی کہ جمعیت نے کتنا وقت حکومت کے ساتھ گذارا ہے اور کتنا اپوزیشن میں، لیکن اس سے پہلے میں وقت کے ان بقراطوں سے یہ سوال پوچھنے کی جسارت کروں گا کہ کیا کوئی جمہوری پارٹی الیکشن میں حصہ اس لیے لیتی ہے کہ وہ اپوزیشن کی کرسیوں پر بیٹھے یا استعفی دے کر اسمبلیوں سے باہر چلی جائے. ظاہر بات ہے کہ اس کا جواب نفی میں ہوگا، ہر پارٹی الیکشن لڑتی ہی اس لیے ہے کہ وہ ایوان کا حصہ بنے اور حکومت بنائے، جب ہر پارٹی ہی اقتدار چاہتی ہے تو جمعیت ہی مورد الزام کیوں؟ اب ہم اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ مفکر اسلام مفتی محمود رحمۃ اللۃ علیہ کی وفات کے بعد سے اور قائد جمعیت کی امارت کے شروع سے لے کر اب تک جمعیت کتنی مرتبہ حکومت کا حصہ رہی اور کتنی مرتبہ مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمٰن کی قیادت میں جمعیت نے پہلا انتخابی معرکہ 1988ء میں لڑا۔ بہت سارے لوگوں کا خیال تھا کہ جمعیت مفتی محمود کے ساتھ ہی دفن ہوگئی ہے مگر الیکشن 1988ء کے نتائج نے بتادیا کہ جمعیت ابھی زندہ ہے۔ 360526 ووٹ لے کر جمعیت قومی اسمبلی کی 7 سیٹوں پر منتخب ہوئی اور مخالف قوتوں کو تاریخ ساز جواب دیا۔ 1988ء سے لے کر 1990ء تک اس اسمبلی میں جمعیت نے بھرپور انداز میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا.
1990 کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے مجموعی طور پر 622214 ووٹ حاصل کرکے 6 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1990ء سے 1993ء کی اس اسمبلی میں بھی جمعیت علمائے اسلام اپوزیشن میں رہی۔
1993ء کے الیکشن میں جمعیت نے 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی، 1993ء سے 1997ء تک کا یہ عرصہ بھی جمعیت اپوزیشن میں رہی۔
1997ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 324910 ووٹ کے ساتھ 2 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 1997ء سے 2002ء تک جمعیت نے یہ عرصہ بھی کامیابی کے ساتھ اپوزیشن میں گزارا۔
2002ء کے الیکشن میں جمعیت نے متحدہ مجلس عمل کے محاذ سے انتخاب لڑتے ہوئے مجموعی طور پر 63 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ 2002ء سے 2008ء تک کا یہ وہ وقت تھا جس میں ایم ایم اے کی قیادت میں جمعیت نے خیبرپختونخوا میں حکومت بنائی مگر مرکز میں حقیقی اپوزیشن کو فروغ دیا اور آج کی یہ اپوزیشن اسی رویہ کا تسلسل ہے جو ایم ایم اے نے متعارف کروایا تھا۔
2008ء کے الیکشن میں جمعیت علمائے اسلام نے 766260 ووٹوں کے ساتھ 8 سیٹوں پر کامیابی حاصل کی۔ اور آصف زرداری کی دعوت پر حکومت میں شریک ہوئی.
2013ء کے الیکشن میں جمعیت نے 1461371 ووٹ کے ساتھ مجموعی طور پر 15 سیٹیں حاصل کیں، اور نوازشریف کی دعوت پر وفاقی حکومت میں شامل ہوئی۔
اب اگر حقیقت پسندانہ نگاہ سے دیکھا جائے تو جمعیت علمائے اسلام نے قائد جمعیت حضرت مولانا فضل الرحمن کی قیادت میں 1988ء سے لے کر 2013ء تک تقریبا 20 سال اپوزیشن میں، جبکہ صرف چھ سال کے لگ بھگ کسی حکومت سے اتحاد میں گزارے. اس جائزہ سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہوگئی کہ جمعیت کے مخالف پروپیگنڈے کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے. یہ پروپیگنڈہ محض افسانہ ہے. جمعیت مخالفین کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ جمعیت کوئی پانی کا بلبلہ نہیں ہے جو اٹھتا ہے، کچھ چلتا ہے، فنا ہو جاتا ہے، جمعیت کوئی ٹمٹماتا چراغ نہیں ہے جو چند بھڑکیں مار کر تاریکی کا حصہ بن جاتا ہے، جمعیت بہتی ندی کے کنارے ابھرنے والی جھاگ نہیں ہے جو خشکی تک پہنچنے سے پہلے ختم ہو جاتی ہے. جمعیت ایک حقیقت ہے جس نے ملکی سیاست میں اپنے وجود کو تسلیم کروایا ہے، اس کا مقابلہ کرنا ہے تو سیاست میں کیجیے، دروغ گوئی سے کام مت لیجیے، آخر جھوٹ کی کوئی حد ہوتی ہے.
تبصرہ لکھیے