ہوم << سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) - ریحان اصغر سید

سیٹھ کی بیٹی اور ڈرائیور کی محبت (1) - ریحان اصغر سید

ریحان اصغر سید میرا نام الیاس خان ہے۔ میں سیالکوٹ کے ایک نواحی گاؤں میں پیدا ہوا۔ میرا سارا بچپن عسرت اور تنگدستی میں گزرا۔ میں ساتویں کلاس میں تھا جب میرے باپ نے مجھے سکول سے چھڑوا کے کام سیکھنے کے لیے ایک ورکشاپ میں بیٹھا دیا۔ میں سانولی رنگت، عام نقوش، اور اوسط قامت کا ویسا ہی ایک معمولی انسان تھا جو مزدوری کے لیے پیدا ہوتے ہیں۔ شادی کرتے ہیں، بچے پالتے ہیں، پھر ایک دن مسائل، غربت اور بیماریوں سے لڑتے لڑتے مر جاتے ہیں۔ میرے کچھ کزنز کراچی میں بسلسلہ روزگار مقیم تھے۔ میں بھی ایک دن ان کے پاس چلا گیا اور انھوں نے مجھے ایک سیٹھ صاحب کے پاس ڈرائیور کی نوکری دلوا دی۔ سیٹھ صاحب بہت مالدار اور اچھے آدمی تھے۔ انھوں نے مجھے کبھی ملازم نہیں سمجھا، سیٹھ صاحب کے سارے بیٹے بھی بہت شریف النفس اور غریب پرور انسان تھے۔ میں کچھ مہینے سیٹھ صاحب کی ذاتی کار چلاتا رہا، پھر سیٹھ صاحب کو گھر کے لیے ایک با اعتماد آدمی کی ضرورت تھی تو انھوں نے گھر والی گاڑی میرے حوالے کر دی ،اور خود اپنی گاڑی کے لیے دوسرے ڈرائیور کا بندوبست کر لیا۔ اب میری ذمہ داریوں کی نوعیت بدل گئی تھی۔ اب میں صبح اُٹھ کے نئی نکور ہنڈا سوک کو دھوتا چمکاتا اور چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار شروع کر دیتا۔ سیٹھ صاحب کی اکلوتی بیٹی لائبہ عرف چھوٹی بیگم صاحبہ یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ ان کو یونیورسٹی لے کر جانا اور واپس لانا میرے فرائض منصبی میں شامل تھا۔
...................................................
میں حسب معمول گاڑی کے پاس کھڑا چھوٹی بیگم صاحبہ کا انتظار کر رہا تھا، جیسے ہی وہ آئیں، میں نے نظریں جھکا کے مؤدب انداز میں کار کا پچھلا دروازہ کھولا اور وہ نزاکت سے اپنا بیگ سنبھالتے ہوئے کار میں بیٹھ گئیں۔ ایک مدھم لیکن موڈ کو خوشگوار کر دینے والی خوشبو کا جھونکا میری ناک سے ٹکرایا۔ میں گھوم کے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گیا۔
الیاس! آج ہمیں یونی سے بارہ بجے ہی پک کرنا، ہم بازار جائیں گے، کچھ شاپنگ کرنی ہے۔
جی بیگم صاحبہ! میں نے مودب انداز میں جواب دیا، اور بیک ویو مرر میں انھیں دیکھا۔ اپنے سن گلاسز کو ہاتھ میں پکڑے جانے وہ کن سوچوں میں گم تھیں۔ جب وہ کچھ سوچتی تھیں تو ان کی بڑی بڑی آنکھوں کے تحیر پر بےاختیار پیار آ جاتا تھا۔ آپ نے زیبا بختیار کو جوانی میں دیکھا ہے؟ بس وہ کچھ ویسی ہی تھیں، بڑی بڑی خمار آلود آنکھیں، شہابی رنگت اور غیر معمولی دارز قامت، مں چپکے چپکے انھیں بیک ویو مرر میں دیکھتا رہا۔ مقررہ وقت پر میں نے انھیں یونیورسٹی سے لیا اور ایک قریبی مارکیٹ کا رخ کیا، وہاں بیگم صاحبہ نے کچھ شاپنگ کی اور پھر مجھے لے کر ایک فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ میں آ بیٹھیں۔
میں نے زندگی میں کبھی اتنے شاندار ریسٹورنٹ کو اندر سے نہیں دیکھا تھا، میں بیگم صاحبہ کے سامنے والی کرسی پر پریشان اور بوکھلایا سا بیٹھا تھا۔
میں نے سوچا آج الیاس کو بہت پیدل گھمایا ہے، اس لیے ایک چھوٹی سی کھانے کی دعوت تو بنتی ہے باس۔۔کیا کھائیں گے آپ؟ بیگم صاحبہ نے سن گلاسز کو آنکھوں سے اتار کر سر پر لگاتے ہوئے مسکرا کر کہا۔
میں بے اختیار ان کے موتیوں کی طرح جڑے دانت دیکھتا رہا۔
کیا بات ہے یار، ریلیکس ہو کے بیٹھیں، آپ تو کرسی پر یوں ٹکے ہیں جیسے موقع ملتے ہی بھاگ لیں گے۔ بیگم صاحبہ نے مینو پکڑ کے بےتکلفی اور مصنوعی خفگی سے کہا۔ میرے منع کرنے کے باوجود انھیں نے میرے لیے پزا اور کولڈ ڈرنک منگوا لی۔ میں جھجکتا رہا اور ان کو دیکھتا رہا، وہ بے نیازی سے کھانا کھاتے ہوئے مجھ سے یوں ہلکی پھلکی باتیں کرتی رہیں جیسے میں ان کا بچپن کا دوست ہوں۔ اس سے پہلے کہ ہم اُٹھتے، ایک دارز قامت خوبصورت لڑکے نے ہماری ٹیبل پر جھک کے، اسے بجا کے ہمیں چونکا دیا۔
ہائے حارث! بیگم صاحبہ نے خوش دلی سے کہا۔
یہ بندر کون ہے؟ حارث نے حیرت اور غصے سے مجھے سر سے لے کر پاؤں تک دیکھا۔
کیا بکواس کر رہے ہو؟ یہ الیاس ہیں، ہماری گاڑی ڈرائیو کرتے ہیں۔
واٹ دی ہیل آف دس؟
ڈرائیور ہے تو باہر گاڑی میں جا کے بیٹھے۔ لائبہ تمھیں شرم نہیں آتی، ان چوڑھے چماروں کو اپنے ساتھ بٹھاتے ہوئے۔ لائبہ پورا ہال تمھیں گھور رہا ہے، تمھیں نظر نہیں آ رہا کہ یہ نمونہ کتنا ان فٹ ہے اس آٹماسفیر میں۔ اگر اسے کچھ کھلانا ہی تھا تو گاڑی میں بھجوا دیتی۔ حارث کا بس نہیں چل رہا تھا کہ مجھے کچا چبا جائے۔
شٹ اپ حارث! شٹ اپ۔
ہمیں کس کو اپنے ساتھ بٹھانا ہے، کس کو نہیں، اس کا فیصلہ ہم خود کریں گے۔ ہو دی ہیل آف یو؟ مائنڈ یور اون بزنس۔
بیگم صاحب کے چہرے پر آگ جل رہی تھی انھوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اٹھایا اور حارث کو دھکا دے کر باہر کی طرف چل پڑیں، حارث کے چہرے کے نقوش غصے اور نفرت سے بگڑ رہے تھے۔
یہ ہمارا کزن ہے. ماں باپ کا اکلوتا بیٹا ہے، اس لیے بہت بگڑ گیا ہے۔ آئی ایم سو سوری الیاس! آپ کو ہماری وجہ سے اتنی انسلٹ برداشت کرنی پڑی، آپ بے فکر رہیں، ہم جا کے بابا سے اس کی شکایت کریں گے۔
بیگم صاحبہ نے گاڑی میں بیٹھتے ہی معذرت کی۔
مجھے شرمندہ نہ کیجیے بیگم صاحبہ! آپ کے کزن صاحب بالکل درست کہہ رہے تھے۔ میں واقعی ہی اس قابل نہیں ہوں کہ آپ کے ساتھ بیٹھ سکوں۔
آپ چپ کر جائیے۔ ہمارا موڈ پہلے ہی حارث نے خراب کر رکھا ہے، ہمیں زیادہ بہتر پتہ ہے آپ کس قابل ہیں۔
...................................................
گھر پہنچ کر میں نے چھوٹی بیگم صاحبہ کو اتارا اور اپنے کواٹر میں آ کر چارپائی پر لیٹ گیا۔ آج کے سارے دن کے مناظر کی فلم میری آنکھوں میں چلنے لگی۔ میں نے کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ میں بیگم صاحبہ کے اتنے پاس ان کے روبرو بیٹھوں گا اور وہ مجھ سے اتنی باتیں کریں گی۔ میں اتنے سرور میں تھا کہ مجھے حارث کے ہاتھوں ہوئی بےعزتی بھی بےمعنی لگ رہی تھی۔ جس طرح بیگم صاحبہ نے میرا دفاع کیا، مجھے ہاتھ پکڑ کر اٹھایا اور ہاتھ پکڑ کر گاڑی تک لائیں، وہ منظر کئی دن تک میں جاگتی آنکھوں سے بھی چشم تصور سے دیکھتا رہا۔ اس دن کے بعد سے بیگم صاحبہ مجھ سے کافی بےتکلفی سے بات کرتیں اور کبھی کار کی اگلی سیٹ پر میرے ساتھ بھی بیٹھ جاتیں۔ بیگم صاحبہ بہت کم بولتی تھیں لیکن جب بھی بولتیں تو ان کی آواز میں ایک خاص قسم کا تحکم اور رعب ہوتا تھا۔ ان کا اپنے لیے ہم کا صیغہ استعمال کرنا مجھے بہت اچھا لگتا تھا۔ بیگم صاحبہ جب بھی شاپنگ کرتیں، کچھ نہ کچھ میرے لیے بھی لے لیتیں۔ اس لیے اب میرے جوتے، کپڑے، پرفیومز وغیرہ بھی برانڈڈ ہوتے تھے۔ لیکن میں پھر بھی ان کے ساتھ چلتا ہوا ان کا خادم اور غلام ہی لگتا تھا۔
کچھ دن بعد یونیورسٹی سے واپسی پر ہم ٹریفک جام میں پھنس گئے۔ یہ نومبر کے اوائل تھے، موسم خوشگوار تھا، بیگم صاحبہ نے کار کا آدھا شیشہ نیچے کر رکھا تھا، کار میں نصرت صاحب کی غزلیں دھیمی آواز میں چل رہی تھیں۔ ایک موٹر سائیکل پر سوار تین لڑکے ہماری کار کی بائیں جانب رکے ہوئے تھے، اپنے حلیے اور انداز و اطوار سے وہ انتہائی اوباش اور بگڑے ہوئے لگ رہےتھے، انھوں نے پچھلی نشست پر بیٹھی بیگم صاحب کے بالکل قریب موٹر سائیکل روک رکھا تھا، اور انھیں گھورنے کے علاوہ آپس میں ذومعنی باتیں بھی کر رہےتھے۔ مجھے خون اپنے سر کو چڑھتا ہوا محسوس ہوا، غیر ارادی طور پر میرے اعصاب تن گئے، میں نے اپنے سائیڈ والے دروازے پر لگے کنڑول پینل سے سارے شیشے پورے اوپر چڑھا دیے۔ جس پر باہر ایک زوردار قہقہ پڑا۔ تینوں میں سے ایک لڑکے نے بےباکی سے بیگم صاحبہ والے شیشے کو انگلی سے بجایا اور نہایت بے ہودہ بات کی۔ میں نہیں جانتا کہ مجھے اس وقت کیا ہوا تھا، شاد یہ وہی کفیت تھی جس میں انسان سے غیر ارادی قتل ہو جاتے ہیں، میں نیچے اترا اور گھوم کر موٹرسائکیل کے پاس پہنچا، نوجوانوں کو شاید مجھ سے ایسے کسی ردعمل کی توقع نہیں تھی، اس لیے وہ بدستور مجھے تمسخر اڑانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے فقرے کس رہے تھے۔ میرا نشانہ شیشہ بجانے والا لڑکا تھا۔ اس کا چہرہ کتنا نفرت انگیز ہے۔ اس کے چہرے کو کچل دینا چاہیے۔ میں نے اسے موٹر سائیکل سے گھیسٹ کے اتارتے ہوئے سوچا۔ میرے اندر اس وقت جناتی طاقت آ چکی تھی، مجھے ان تین لڑکوں نے بہت پیٹا، میں لہو لہان ہو گیا لیکن میں نے اپنے شکار کو نہیں چھوڑا، مکے مار مار کے میں نے اس کے چہرے کا بھرتا بنا دیا، میرے اور اس کے سارے کپڑے پھٹ گئے، وہ نیم جان ہو چکا تھا لیکن میرا غصہ سرد نہیں ہو رہا تھا۔ آخرکار جب بیگم صاحبہ نے مجھے چلاتے ہوئے جنجھوڑا تو مجھے ہوش آیا۔
اسے چھوڑ دیں الیاس! یہ مر جائے گا، فار گاڈ سیک چھوڑ دیں اسے۔ کیا ہو گیا ہے آپ کو؟ بیگم صاحبہ روتے ہوئے چلا رہی تھیں، میری حالت ایسی تھی جیسے چابی والے کھلونے کی چابی اچانک ختم ہو جائے اور اس کے اعضا جہاں تھے وہی معلق ہو جائیں۔ بیگم صاحبہ نے مجھے بازو سے پکڑ کے کار میں بٹھایا اور خود ڈرائیو کرتے ہوئے مجھے ہاسپٹل لے گئیں۔ سارا رستہ وہ مجھے مجھے دیکھ دیکھ کے روتی رہیں، ان کی آنکھیں اور ناک کی نوک ٹماٹر کی طرح سرخ ہو رہی تھیں، میں اس وقت بڑی بےخودی اور بےباکی سے انھیں دیکھ رہا تھا۔ وارفتگی اور لاپروائی کی ایک لہر نے مجھے اپنی لیپٹ میں لے رکھا تھا۔ مرہم پٹی کے بعد ہم گھر پہنچے تو شام کو میری پیشی سیٹھ صاحب کے سامنے ہوئی، مجھے زیادہ تشویش حارث کو ان کے پاس بیٹھے دیکھ کر ہوئی۔ سیٹھ صاحب نے میرے منہ سے سارے واقعہ کی تفصیل سنی اور بیچ میں سوال بھی پوچھتے رہے۔ میں نے اس سے پہلے سیٹھ صاحب کو کبھی اتنا سنجیدہ نہیں دیکھا تھا۔ انھوں نے نہ ہی مجھے بیٹھنے کے لیے کہا اور نہ ہی میری چوٹوں کے بابت کچھ دریافت کیا۔ کچھ دیر بعد میں واپس اپنے کواٹر میں تھا۔ ابھی میں چارپائی پر لیٹا ہی تھا کہ میں نے تنک مزاج اور دارز قامت حارث کو اپنے کواٹر میں داخل ہوتے دیکھا۔
مزے کر رہے ہو استاد!
حارث نے سگریٹ سلگا کے مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔ میں اُٹھ کے بیٹھ گیا تھا۔ حارث کپڑوں کی الماری کھول کے میرے کپڑے دیکھ رہا تھا، اس نے ایک دو قمیضوں کے کالر الٹ کے ان کے برانڈ دیکھے، پھر مڑ کے مجھے دیکھا۔ اس کے چہرے کی درشتی میں اضافہ ہو گیا تھا۔ اب وہ جھک کے الماری میں پڑے میرے جوتے دیکھ رہا تھا۔ او گوچی! اس نے ہونٹ سکوڑے اور پرفیوم کی بوتل کو دیوار پر دے مارا۔ ایک زوردار ِآواز پیدا ہوئی اور بوتل ٹوٹ گئی۔ سارے کمرے میں خوشبو اور شیشے پھیل گئے۔ حارث تیز قدموں سے چلتا ہوا آیا اور کرسی گھیسٹ کے بالکل میرے قریب بیٹھ گیا، میرے اور اس کے چہرے میں بمشکل چند انچ کا فاصلہ تھا، کچھ دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں دیکھتے رہے ،پھر میں نے نظریں جھکا لیں۔ یہ سب تم نے خود خریدا ہے؟
حارث نے سگریٹ کا کش لے کر اسی ہاتھ سے الماری کی طرف اشارہ کیا۔ میں نے دیکھا اس کا ہاتھ پتلا اور انگلیاں باریک اور لمبی ہیں۔
نہیں، یہ بیگم صاحبہ نے لے کر دیا ہے۔
میں نے دھیمے انداز میں جواب دیا۔
کس حثیت سے؟
ایک ملازم کی حثیت سے!
آپ غلط سوچ رہے ہیں صاحب۔ میں نے حارث کی آنکھوں میں دیکھا، جہاں حسد اور غصے کی آگ جل رہی تھی۔
اچھا! یعنی ہمارے ٹکڑوں پر پلنے والا ایک ان پڑھ جاہل دیہاتی مجھے بتائے گا کہ مجھے کیا سوچنا ہے۔ شکل دیکھی ہے تم نے اپنی؟ یاجوج ماجوج لگتے ہو بلڈی فول۔
مجھے لگا کہ وہ مجھ پر جھپٹے گا لیکن اس نے اپنے جذبات پر قابو پا لیا، کچھ دیر وہ سگریٹ کے کش لیتا رہا اور مجھے انگلش میں گالیوں سے نوازتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد اس نے کسی کو سیل پر کال ملائی اور اس سے انگلش میں بات کی جو میں بالکل نہیں سمجھ سکا۔
ہری اپ ہری اپ۔ جلدی اٹھو، اس نے خود اٹھتے ہوئے مجھے بھی اٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شوز پہنو، جلدی تمھیں حیدر آباد جانا ہے۔
لیکن صاحب؟؟
لیکن ویکن کچھ نہیں، ڈارمے نہ کرو، اچھے بھلے ہو تم، کچھ نہیں ہوا تمھیں۔
میرے جسم کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا لیکن میں حارث کی خوشنودی کے لیے تیار ہوگیا ورنہ مجھے خطرہ تھا کہ وہ مجھے نوکری سے ہی نہ نکلوا دے۔ حارث نے مجھے ایک پیکٹ دیا اور اسے فوراً حیدر آباد اس کے دوست کے گھر پہنچانے کا حکم سنا دیا۔ میں چھوٹی بیگم صاحبہ یا سیٹھ صاحب کو بتا کے جانا چاہتا تھا لیکن حارث کا موڈ دیکھتے ہوئے چپ ہی رہا۔ کچھ دیر بعد میری گاڑی نیشنل ہائی وے پر حیدر آباد کی طرف اڑی جا رہی تھی، مجھے صبح تک واپس آ کے بیگم صاحبہ کو یونیورسٹی بھی لے کر جانا تھا۔ اس سے پہلے کہ میں حیدر آباد پہنچتا، چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال آ گئی۔
ہم سونے لگے تھے، سوچا آپ کا حال احوال پوچھ لیں۔ اب کسی طبعیت ہے؟ سو تو نہیں گئے تھے آپ؟
بیگم صاحبہ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ میں حیدر آباد جا رہا ہوں ۔میں نے کار کی رفتار آہستہ کرتے ہوئے کہا۔
حیدر آباد؟ کیوں؟ بابا ساتھ ہیں؟
نہیں بیگم صاحبہ! مجھے حارث صاحب نے بھیجا ہے، ان کا کچھ سامان ہے جو یہاں دینا ہے۔ ابھی پولیس ناکہ آ رہا ہے، میں آپ کو بعد میں کال کرتا ہوں۔
واٹ ار یو ٹاکنگ مین؟ کون حارث؟ وہ کون ہوتا ہے آپ کو کہیں بھیجنے والا؟ آپ نے حالت دیکھی ہے اپنی؟ فوراً واپس آئیے، جہنم میں جائے حارث۔ حسب توقع بیگم صاحبہ کا پارہ ہائی ہو گیا تھا۔ میری کار ناکے پر پہنچ چکی تھی، میں نے کال بند کر کے سیل سائیڈ سیٹ پر رکھا اور شیشہ نیچے کیا۔ میرا شناحتی کارڈ دیکھتے ہی پولیس والوں نے مجھے اتار لیا، ایسا لگتا تھا کہ وہ میرا ہی انتظار کر رہے تھے۔ انھوں نے مجھے میری ہی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھایا اور دو پولیس والے میری سائیڈوں پر بیٹھ گئے۔ وہ میرے ہر سوال کا جواب مکوں اور تھپڑوں کی شکل میں دے رہے تھے۔ ایک پولیس والا کار چلا رہا تھا۔ میں سخت خوفزدہ ہو چکا تھا۔ پولیس والوں نے مجھے سیٹ پر اس طرح جھکا کے بیٹھایا کہ میرے دونوں ہاتھ ان کے پیروں کے نیچے کچلے جار ہے تھے۔ اور میرا سر کار کے فرش کو چھو رہا تھا۔ انھوں نے میری کمر ننگی کی اور اسے چمڑے کے لتر سے مارنا شروع کر دیا۔ میری چیخوں سے گاڑی گونج رہی تھی لیکن وہ بڑے پروفیشنل انداز میں بڑی بے حسی سے مجھے مار رہے تھے۔ اتنی دیر میں کار کی اگلی سیٹ پر پڑا میرا فون بجا۔ یقیناً یہ چھوٹی بیگم صاحبہ کی کال تھی۔
(اس سچی داستان کا کا بقیہ حصہ اگلی قسط میں ملاحظہ کیجیے)
کہانی کی دوسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
کہانی کی تیسری قسط یہاں ملاحظہ کریں
کہانی کی چوتھی اور آخری قسط یہاں ملاحظہ کریں

Comments

Click here to post a comment