صنعتی انقلاب کے بعد سے آج تک عالمی آبادی میں جتنی تیزی سے اضافہ ہوا ہے، اس کی مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی. لیکن ہم زیادہ پرانی تاریخ کی چھان پھٹک نہیں کریں گے. سنہ 1960ء میں آبادی کا مجموعہ تین ارب تھا، جس میں چودہ سال بعد ایک ارب نئے افراد کا اضافہ ہوا، پھر اگلے تیرہ برس بعد یعنی سنہ 1987ء میں یہ عدد پانچ ارب پر پہنچ گیا. اگلے بارہ برس بعد مزید ایک ارب افراد اس مجموعے کا حصہ بن گئے اور 11 اکتوبر 2011ء کو اعلان کیا گیا کہ آج اس دنیا میں زندہ 7 ارب افراد موجود ہیں. آج اس اعلان کے پانچ برس بعد اس دنیا میں 7 ارب 40 کروڑ افراد کی موجودگی کی نوید مختلف فورمز کے ذریعے سنائی دیتی ہے. ایک پیچیدہ اور محتاط تخمینہ لگایا گیا ہے کہ 2024ء میں یہی عدد 8 ارب کے حدف کو بآسانی عبور کر لے گا. اور 2050ء میں مجموعی آبادی شاید 11 ارب ہو جائے.
آبادی میں اضافہ کے اس خطرناک رجحان پر امریکی ماہر فلکیات اور سائنسدان نیل ٹائسن کا ماننا ہے کہ اگلے پانچ سو سال بعد اگر حالات میں بہتری نہیں آتی تو اس دنیا میں اتنے افراد موجود ہوں گے کہ اگر ان سب کو ایک دوسرے کے ساتھ کھڑا بھی کر دیا جائے تو یہ خشکی کا علاقہ کم پڑ جائے گا. اتنی آبادی کو مینج کرنے کے اول یا تو کوئی اور سیارہ انسان کو رہائش کے لیے آباد کرنا پڑے گا. دوم اس زمین پر ورٹیکل بلڈنگ اور بیسمنٹ ہاؤسز پر اکتفا کرنا پڑے گا. سوئم بہتر ہے کہ حالات کو اس نہج پر پہنچنے سے پہلے ہی کنٹرول کیا جائے جو مقابلتاً کم پیچیدہ اور کم خرچ بھی ہے.
اب آبادی کے فیگرز کو تھوڑا ٹریکل ڈاؤن کر کے کونٹینٹل لیول پر دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ ایشیاء میں پوری دنیا کی آبادی کا 60 فیصد بلک موجود ہے. کینوس کو مزید نیرو کر کے دیکھیں تو دو ملک آبادی کے مجموعے پر ریڈ سگنل کی طرح نظر آتے ہیں. اول چین اور دوم بھارت. چین کی موجودہ آبادی لگ بھگ ارب اڑتیس کروڑ ہے اور بھارت کی آبادی ایک ارب تیس کروڑ ہے. ان دونوں ملکوں میں پوری دنیا کی کل آبادی کا 37 فیصد حصہ آباد ہے. ابھی بھارت دوسرے نمبر پر نظر آ رہا ہے لیکن تعلیم اور آبادی میں اضافہ کی آگاہی کی کمی جیسے مسائل کی وجہ سے اس کی آبادی 2030ء میں ڈیڑھ ارب ہو جائے گی. یوں بھارت زیادہ آبادی والے ممالک کی فہرست میں اول نمبر پر آ جائے گا. دنیا کے متعدد ممالک میں اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا جاتا ہے. خصوصاً وہ ممالک جہاں تعلیم اور ترقی کا معیار بہتر ہے. اس میں چین جو بہت زیادہ اہمیت حاصل ہے. جس نے سنہ 1978ء میں اگلی دہائیوں میں پانی اور دیگر وسائل کی شدید کمی جیسے مسائل کی نشاندہی کی اور اس سے نمٹنے کے لیے ایک سو سال کا لائحہ عمل تیار کیا. تاکہ سنہ 2080ء تک آبادی کے عدد کم 700 ملین افراد تک محدود کیا جائے. اس پلاننگ میں ایک پالیسی ”ون چائلڈ پالیسی“ کے نام سے موسوم ہے. جو سنہ جنوری 1980 سے اگلی تقریباً ساڑھے تین دہائیوں تک لاگو رہی. چونکہ اس پالیسی کو ایک انسٹرومنٹ کے طور پر ایک جنریشن کے لیے ہی بنایا گیا تھا اس لیے اس پالیسی کو سرکاری طور پر سنہ 2015ء کے آخر میں سرکاری طور پر ختم کر دیا گیا. اور جنوری 2016ء سے نئی ”ٹو چائلڈ پالیسی“ کا اطلاق کر دیا گیا ہے.
بنیادی طور پر ون چایلئیڈ پالیسی چین کے آبادی کنٹرول کرنے کے صد سالہ پروگرام کے منصوبے کا ایک انسٹرومنٹ تھا جسے ایک جنریشن کے لیے ہی طے کیا گیا تھا. اس پالیسی کے تحت تمام ریاستوں خصوصاً گنجان آباد علاقوں میں شادی شدہ جوڑوں کو ایک بچہ پیدا کرنے کی اجازت دی گئی تھی. اس منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لیے نیشنل پیپلز کانگریس کی ایک قائمہ کمیٹی نے ایک کمیشن بنایا جس کے ذمے لوگوں کو اس گھمبیر مسئلے پر بنیادی آگاہی فراہم کرنا، پیدا ہونے والے بچوں کی رجسٹریشن کرنا اور انسپیکشن کرنا شامل تھا. ماؤ زی دونگ کی رہنمائی میں اس منصوبے کے تحت فرٹیلیٹی ریٹ (ایک عورت کے ہاں اوسطاً زندہ بچوں کی پیدائش) کو جو سنہ 1979ء میں 2.8 تک کم کر کے 1.4
پر لایا گیا. اس منصوبے کے تحت حکومتی دعوی ہے کہ 400 ملین بچوں کی ممکنہ پیدائش کو دانستہ طور پر روکا گیا ہے. (گو کہ محقق اس دعوے سے اختلاف کرتے ہیں. کیونکہ اسی وقت میں چین کے پڑوسی ملک تھائی لینڈ اور بھارتی ریاست کیرالہ میں اسی بنا کسی ون چایلئیڈ پالیسی کے فرٹیلیٹی ریٹ اس حد تک کم ہوا ہے جس کا ذکر دھوم سے کیا جاتا ہے. اگر کوئی جوڑا اس پالیسی کے برخلاف زیادہ بچوں کی پیدائش کا مرتکب ہوتا تھا تو دونوں مرد اور عورت کو حکومتی سطح پر جرمانہ عائد کیا جاتا تھا. جو مرتکب جوڑے کی جگہ، آمدنی اور حالات کے مطابق طے کیا جاتا تھا. مزید یہ کہ ایک ملک گیر سروے سنہ 2008 میں کیا گیا جس کے نتائج میں بتایا گیا 70 فیصد لوگ اس پالیسی کو سپورٹ کرتے ہیں. لیکن اس پالیسی کو بیرونی دنیا میں تنقید کا سامنا کرنا پڑتا تھا.
اس پالیسی میں کئی ایسے راستے تھے جن کے ذریعے شادی شدہ جوڑے قانونی طور پر دوسرے بچے کی پیدائش کے لیے اہل قرار پاتے تھے.
اول. اگر کسی کے ہاں پہلے بیٹی کی پیدائش ہو تو نرینہ اولاد کی خاطر ریاستی سطح پر دوسرے بچے کی پیدائش کا حق دیا جاتا تھا.
دوم. اگر پہلا بچہ معذور یا ذہنی طور پر مکمل تندرست نہیں ہے تو تین سے چار سال کے وقفے کے بعد دوسرے بچے کی پیدائش کا حق دیا جاتا تھا.
سوم. تبتی لوگوں اور اقلیتوں کو بھی عمومی چھوٹ دی جاتی تھی. دور دراز دیہاتی علاقوں میں بھی اس معاملے پر نرمی برتی جاتی تھی.
چہارم. اس کے علاوہ اگر کسی جوڑے کے ہاں پہلا بچہ چین کی مین لینڈ کے باہر ہوتی تھی تو اس چینی جوڑے کو بھی چھوٹ دی جاتی تھی.
سیچوان صوبے میں 2008 کے تباہ کن زلزلے کے باعث وہ لوگ جن کے بچے اس آفت میں ان سے جدا ہو گئے انہیں بھی اس چھوٹ کا اہل قرار دیا گیا. لیکن اس وسیع البنیاد منصوبے میں کئی جگہوں پر لوپ ہولز مجود تھے جن کی وجہ سے لوگ حکومت کو چکما دے جاتے تھے. مثلاً ہانگ کانگ کیونکہ مین لینڈ چائنہ کا حصہ نہیں اس لئے پالیسی کا عملی طور نفاذ وہاں اس طرح نہیں ہوتا تھا اس لیے لوگ بچوں کی پیدائش کے وقت ہانگ کانگ کا رخ کرتے تھے. لوگوں میں ملک سے باہر برتھ ٹؤرزم کا رجحان بڑھنے لگا. اور کچھ لوگ اپنے ہاں بیٹی کی پیدائش کا ذکر ہی نہیں کرتے تھے یا پھر اس بیٹی کو کسی دوسرے شخص کو لے پالک کے طور پر دے دیتے تھے. یا اس بیٹی کی پیدائش کے بعد رجسٹریشن میں جان بوجھ کر تاخیر کرتے تھے.
جہاں حکومتی مشینری اس پالیسی کی کامیابی اور بہتر نتائج کا دعوٰی کرتی ہے وہیں کچھ مسائل نے بھی اس معاشرے کو شدید مشکلات کا شکار کیا ہے. اول یہ کہ نرینہ اولاد کی چاہت اور پالیسی رسٹریکشن کے باعث مردوں کی تعداد عورتوں کے مقابلے میں 30 ملین زیادہ ہو گئی. اس صنفی عدم توازن کی وجہ سے بہت سے مرد شادی کے لیے جنس مخالف کی تلاش میں نیم بوڑھے ہو جاتے تھے. چونکہ عورتیں اس معاشرے میں کم ہیں اس لیے شادی کے معاملے میں ان قدر بہت زیادہ ہوتی ہے. تقریباً ہر لڑکی شادی سے قبل اپنے ہونے والے شوہر سے ذاتی کاروبار یا اچھی نوکری کے علاوہ ذاتی گھر اور گاڑی کی بھی آس لگاتی ہے. یوں ایک اوسط چینی مرد شادی کے یہ لوازمات پورے کرنے کے بعد شادی کے وقت کم از کم تیس سال کی عمر تک پہنچ جاتا ہے. اور شادی پر اوسطاً 35 لاکھ پاکستانی روپے کے برابر رقم خرچ کرتا ہے.
ایک چینی باشندے کی اوسط عمر میں جو کہ سنہ 1976ء میں 66 سال تھی آج وہی اوسط عمر 76 برس تک پہنچ گئی ہے. اس اوسط عمر میں اضافے کو جہاں صحت کے شعبے کی ترقی کہا جاتا وہیں یہ حقیقت بھی آشکار ہوتی ہے کہ اس وقت ہر پانچ میں سے ایک فرد ریٹائرڈ کی حیثیت سے اس معاشرے میں موجود ہے. سنہ 2050 تک کم از کم اس آبادی کا ایک تہائی حصہ 60 سال یا اس سے زائد عمر کے افراد پر مشتمل ہو گا. جو عموماً پروڈکٹیو نہیں ہوتے. اور ملکی معیشت پر ایک بھاری بوجھ ثابت ہوں گے. سنہ 2030 تک چین اس پالیسی کی وجہ سے اپنے 67 ملین مزدوروں سے محروم ہو جائے گا. آزاد تحقیقی رپورٹس کے مطابق کم از کم 100 ملین بچیاں مسنگ ہیں. جنہیں کسی حد تک حکومت بھی درد سر کے طور پر دیکھ رہی ہے.
اس پالیسی کے تحت 36 فی صد لوگوں کو ایک بچے کی پیدائش تک محدود رکھا گیا. اور قریب 53 فیصد لوگوں کو انکی درخواست پر دوسرے بچے کی پیدائش کی اجازت دی گئی. پالیسی میں تمام تر خوبیوں، خامیوں اور وقت کو مدنظر رکھتے ہوئے یکم جنوری سنہ 2016ء سے ”ٹو چائلڈ پالیسی“ عملی نفاذ کیا گیا ہے تاکہ معاشی اور معاشرتی لیول پر مطلوبہ توازن کو برقرار کیا جائے. جس کے تحت 31 میں سے 29 صوبوں میں اس نئی پالیسی کا عملی نفاذ کر دیا گیا ہے.
اس وقت ہمارے ملک کی آبادی تقریباً 20 کروڑ نفوس پر مشتمل ہے. جس میں بچوں کی سالانہ پیدائش کا حجم 35 لاکھ ہے. ایک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ سنہ 2030ء میں اس ملک کی آبادی لگ بھگ 25 کروڑ تک پہنچ جائے گی، اسی سال شہری اور دیہی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا جو فی الحال 36 فیصد شہری اور 54 فیصد دیہاتی آبادی پر مشتمل ہے. دنیا میں آبادی کے بے ربط اور بےلگام اضافہ کو روکنے کے لیے مختلف لیولز پر کام ہو رہا ہے. لیکن ایک میڈیم کامن ہے. اور وہ ہے تعلیم. میں یہ جاننا ہوں کہ اس ملک عظیم جس کی شرح خواندگی 60 فیصد ہونے کا دعوٰی کیا جاتا ہے اس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 10 فیصد سے کم یونیورسٹی گریجویٹ ہیں. شاید کم از کم گریجویٹ لیول پر ہی آپ ایسی سیر حاصل گفتگو کر سکتے ہیں جو آبادی کے کنٹرول کے متعلق ہو. لیکن ان کے مجموعی تناسب کو ضرور ذہن نشین رکھیں.
تبصرہ لکھیے