ہوم << ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور مستقبل کے امکانات - عمران عمر

ڈونلڈ ٹرمپ کی جیت اور مستقبل کے امکانات - عمران عمر

ہمارے ہاں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر بننے کے حوالے سے خاصی فکر مندی کا اظہار کیا جا رہا ہے. ہم تو یہ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ کا صدر بننا پاکستان اور امت مسلمہ کے حوالے سے سود مند جبکہ امریکہ کے لیے کافی حد تک نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے. یہی وجہ ہے کہ وہاں کا سمجھدار طبقہ اس نئی صورتحال میں خاصا پریشان ہے.
پاکستان کی ترقی میں دو چیزیں ہمیشہ حائل رہی ہیں. ایک قوم کے اندر تفریق اور دوسرے نااہل حکمران. ہم ایک قوم کے طور پر کبھی بھی متحد نہیں رہے ہیں. پاکستانیت سے بڑھ کر لسانیت ہماری پہچان ہے. ایم کیو ایم اور قوم پرست جماعتیں عوام کی ایک بڑی تعداد سے ووٹ لیکر اقتدار کے زینوں تک پہنچتی ہیں اور تقسیم در تقسیم کے عمل کو مزید فروغ دیتی ہیں. دوسری طرف مذہبی فرقے ہمیشہ باہم دست و گریباں رہے ہیں. پاکستان میں مذہب اتحاد کی بجاے تقسیم کا باعث رہا ہے. آج ہمارے سیاستدانوں نے جتنی نفرت اور تفریق عوام بالخصوص نوجوانوں کے اندر پیدا کر دی ہے، آج سے قبل ایسی صورتحال کبھی نہ تھی.
فرقہ بندی ہے کہیں اور کہیں ذاتیں ہیں
کیا زمانے میں پنپنے کی یہی باتیں ہیں
ہر شخص یہ تسلیم کرے گا کہ کسی بھی قوم میں انتہا پسندی اور تقسیم کا عمل اسکی ترقی کے لیے بہت بڑی رکاوٹ ہے. امریکی سکالرز کے لیے موجودہ الیکشن کے نتیجے میں انتہائی حد تک تقسیم کا عمل بہت پریشان کن ہے.ڈونلڈ ٹرمپ نےاپنی الیکشن کمپین میں وعدہ کیا کہ میکسیکن امیگرنٹس کو ڈیپورٹ کرے گا اور مسلمانوں کی امیگریشن کو بند کر دے گا. عربوں کو ایسا سبق سکھاۓ گا کہ یاد رکھیں گے. ٹرمپ نے اپنے جلسوں کے میں موجود مخالفین کو نکل جانے کا حکم دیا. رپورٹس کے مطابق لوگوں کے لوگوں کے باہمی تعلقات الیکشن کے گرما گرم ماحول اور بحثوں سے متاثر ہوے ہیں. نہ صرف امیگرنٹس اور مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھی ہے بلکہ اب گورے بھی ایک دوسرے کی نفرت کا شکار ہورہے ہیں. ہیلری اور ٹرمپ کے حمایتیوں کی آپس میں کی بار مار کٹائی ہوئی ہے. ایسی ویڈیوز موجود ہیں کہ جن میں کئی لوگ ٹی وی پر ٹرمپ کی شکل دیکھ کر ایسے اشتعال میں آے کہ ڈنڈے مار مار کر ٹی وی کے پرخچے اڑا دیے. جیسے ہی ٹرمپ کی جیت کا اعلان ہوا، ملک کے مختلف حصوں میں لوگوں نے شدید احتجاج کیا، ڈونلڈ ٹرمپ کو گلیاں دین اور امریکی پرچم کو جلایا گیا. اس طرح کا عام انتہا پسندانہ رویے نے امریکی معاشرے کا ایک نیا رخ آشکار کیا ہے. یہ امید کی جاتی ہے کہ ٹرمپ کی صدارت کے دوران تقسیم کا یہ عمل امریکی معاشرے میں مزید گہرا ہوگا اور گرتی ہوئی دیواروں کی شکست و ریخت میں تیزی پیدا کرے گا.
یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ امریکہ میں ان کے ادارے بہت زیادہ مضبوط ہیں. لہذا ملک کا کوئی بھی صدر ہو، پالیسیوں میں بہت زیادہ تبدیلی نہیں آتی. یہ تو امید کی جاسکتی ہے کہ ٹرمپ اندروں ملک شاید کچھ بڑی تبدیلیان کرنے میں کامیاب ہوجاۓ لیکن خارجہ امور میں تبدیلیوں کا اختیار CIA اپنے ایجنڈے کے مطابق ہی کرے گی. بلفرض CIA اور ٹرمپ ملکر کسی نۓ شیطانی منصوبے کا آغاز کرتے بھی ہیں تو بہرحال وہ ہمارے دوست نہیں ہیں. ہمیں ہر قسم کی صورتحال کے لئے تیار رہنا چاہیے.
اس وقت صورتحال یہ ہے کہ پاکستان امریکہ کے ساتھ اپنے تعلقات جوں کے توں رکھتے ہوے روس کے ساتھ باہمی تعاون بڑھا رہا ہے. سعودی عرب اور امریکیوں میں میں خلیج گہری ہوتی جارہی ہے. سعودی چین کیساتھ ڈالر کی بجاے باہمی کرنسی میں تجارت کے معاہدے کر رہا ہے. امت مسلمہ کی ایک ابھرتی ہوئی طاقت ترکی ہے جو کسی وقت امریکہ کی ایک طفیلی ریاست تھا لیکن اب وہ بڑے اعتماد کے ساتھ اپنے ایجنڈے کو دنیا میں آگے بڑھا رہا ہے.
ڈونلڈ ٹرمپ اسلامی ممالک کے خلاف اگر کسی اور مہم جوئی کی ابتدا کرتا ہے تو یہ اسلامی ممالک کے اتحاد کی طرف پیش رفت کا باعث ہو سکتا ہے جسکا احساس امت کے اندر بتدریج بڑھتا جارہا ہے.
آج کی دنیا امکانات کی دنیا ہے. ان امکانات کی تھوڑی منصوبہ بندی کرلی جاۓ تو حالات کی تشکیل اپنے ایجنڈے کے مطابق کی جاسکتی ہے. ضرورت اس بات کی ہے کہ امریکی معاشرے میں تقسیم کے عمل کو تیز کیا جاۓ اور کسی بھی نئی امریکی مہم جوئی کے نتیجے میں دوست ممالک کا ایک مشترکہ محاذ پریشر گروپ کی صورت میں سامنے لایا جائے. امریکا پر انحصار کے بجائے خود کفالت کی طرف بڑھتے ہوئے دیگر آپشنز پر توجہ مرکوز کی جائے.

Comments

Click here to post a comment