مجھے اپنے دوست کی عیادت کےلیےایک ہسپتال جانے کا اتفاق ہوا وہاں سے واپس آتے ہوئے ہسپتال کے گیٹ پرکیا دیکھتا ہوں کہ دو چھوٹے بچے جن کی عمریں مشکل سے چار سال سےچھ سال ہونگی ، بے سدھ پڑے سورہے ہیں انکے ہاتھ میں ایک رسی لپٹی ہوئی تھی جس میں چمکتے بیلون ہوا میں اڑ رہے تھے۔
وہ رات کے ساڑھے دس بجے کاٹائیم تھا جب ہم ہسپتال سے نکل کے گاڑی میں بیٹھ رہے تھے اچانک سے میرے دوست نے مجھے کہا یار جاءو ان بچوں کو یہ سو روپے دے آوٗ میں نے ان سے پیسے لیکر واپس ان بچوں کے پاس آکر بیٹھا اور ان کے سرکو ہلا یا مگر شاید وہ پورے دن کے تھکے ماندےہونے کی وجہ سے نہ اٹھے،میں نے پھر دوسرے بچے کے سر کوہلایا تو وہ بچہ اٹھا کر پوچھنے لگا:سرکیاآپکو بیلون چاہییں؟؟ میں نے کہا کہ نہیں بیٹا میں آپ کو پیسے دینے آیا ہوں. اور ہاتھ آگے بڑھا کران سے کہا:
یہ لیں سو روپے اور ابھی آپ گھر چلے جائیں کیونکہ رات کافی ہوگئی ہے. وہ معصومیت سے کہنے لگا نہیں جی!میرے گھر جانے کا ٹائیم ابھی نہیں ہوا مجھے یہ سارے بیلون بیچ کر پھر جانا ہوگا اورابھی تو صرف چار ہی بِکے ہیں. وہ نیند کی شدت کی وجہ سے دوبارہ سونے لگا تھا کہ میں نے ان سے کہا : بیٹا! آپ سوجاوٗ گے تو کون آکربیلون خریدے گا ؟ یہ سن کر وہ اٹھ کر بیٹھ گیا کیونکہ انہیں وہ بیلون بیچ کر ہی گھر میں داخلےکا حکم ہوگا۔یقین کریں مجھے اس انے والدین بڑے بے رحم لگے کہ کس طرح ان ننھے اور معصوم بچوں کو روڈ کے کنارے چھوڑ ا ہوا ہے؟؟
اور کس طرح بیچارگی کی حالت میں بغیر بستر کے وہ بچے سورہے ہیں؟کیا یہ بچے احساسات سے عاری تھے؟کیا ان کی کوئی فیلنگ نہیں تھی؟ کیا انکو کھیلتے اور یونیفارم پہنے بچے دیکھ کرکھیلنے یا اسکول جانے کا دل نہیں کرتا ہوگا ؟؟لیکن المیہ یہ بھی تو ہے کہ ان کے بے حس والدین کو چھوڑ کر کوئی اور بھی تو یہ احساس نہیں رکھتا ۔نہ ملکی حکمران ،نہ اس ملک کے دانشور ، نہ تھری پیس میں ملبوس ٹی وی پر بیٹھے اینکرز جو سارا دن اپنے عقل دانش اور لفاظی سے دنیا کو مسحور کرنا چاہ رہے ہوتے ہیں۔۔۔!!
اور نہ ہم میں سےکوئی سوچتا ہے کہ یہ بچے ہمارے اپنے تو نہیں لیکن ہمارے اسی معاشرے کا حصہ ہیں اگر آج ہم نے انکے انسان بننےمیں مددگار ثابت نہ ہوئے تو کل یہی بچے ہمارے بچوں سے اپنے بچپن کے دنوں کی نارسائی اوربے کسی کا بدلہ ہماری بے حسی ،اور خود غرضی کو وجہ بنا کر لے رہے ہونگے۔ اور تب وہ چوری ،ڈکیتی کرتے یا کسی کو مارتے ہوئے ہمارے لیے احساس کا رشتہ کیوں استوار کریں گےجب ایک بے حس معاشرے کی ٹھوکریں بچپن سے انکامقدر رہی ہوں اور احساس کے لفظ سے اس معاشرے نے روز اول سے نا آشنا رکھا ہو!
کاش کوئی اور نہیں تو آج ہم ہی وہ پہلے فر دبنیں جو انسانیت و احساس کی معراج تک پہنچنے کی جستجو میں لگ جائے اور انکو حیوانیت کے عروج تک پہنچنے سے بچائیں اور یقین کریں کہ یہ کام کرکے اس بات پر فخر محسوس کریں کہ معاشرے کو آپ نے ایک ذمہ دار فرد اور احساس رکھنے والا فر دیا ۔
تبصرہ لکھیے