بات اس بار بھی زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھ سکی اور جذباتی نعرے جھاگ کی طرح بیٹھ گئے . مقبوضہ وادی میں معصوم بچوں کے لاشے پاکستانی پرچم میں لپٹے ہیں اور اس جرم کی پاداش میں مردہ جسموں پر بھی آنسو گیس کے شیل اور گولیاں برسائی جا رہی ہیں۔ آنکھوں سے نور چھن گیا مگر زبان پر ایک ہی نعرہ، پاکستان سے رشتہ کیا؟
27 برس پہلے تحریک آزادی ایک نئے دور میں داخل ہوئی، اہل کشمیر نے سر پر کفن باندھے تو قابض بھارتی فوج کی درندگی نے ہر ظلم کو شرما دیا۔ جنوری 1989ء لے کر اکتوبر 2016ء تک چورانوے ہزار پانچ سو پینسٹھ کشمیری شہید، 22 ہزار سے زائد عورتیں بیوہ، ایک لاکھ سات ہزار سے زائد بچے یتیم ہو چکے۔ دس ہزار سے زائد خواتین کی عزتوں کو تار تار کیا گیا جبکہ آزادی مانگنے کے جرم میں ایک لاکھ انتالیس ہزار سے زائد کشمیریوں کو جیلوں میں ڈال دیا گیا۔ بہیمانہ تشدد سے دوران حراست سات ہزار لوگ جام شہادت نوش کر گئے۔ سینے میں دل ہوتے، احساس کی کوئی رمق باقی ہوتی تو محکوم کشمیریوں کی آواز اٹھانے کے لیے یہ سب کم نہ تھا، جن پر بیت رہی ہے ان سے پوچھیں تو سننے کا حوصلہ بھی نہ ہوپائے گا لیکن ہوا سب الٹ۔
لاشتے گرتے گرتے 2001ء آگیا اور پھر کشمیر کے حصے بخرے کرنے کی منصوبہ بندی کی گئی۔ جن کے جگر گوشے خون میں نہا گئے، جو عصمتیں لٹا کر زند ہ درگور ہوئیں، جن کی آنکھیں بیٹوں کی واپسی کا راستہ دیکھتے دیکھتے پتھر ہوگئیں، جو باپ کا سایہ چھین جانے کے بعد دربدر ہوئے یا جن کے بڑھاپے کی لاٹھی ٹوٹی، ان سب کو بھیڑ بکریاں سمجھ کر کسی نے ایک بار بھی یہ پوچھنے کی زحمت گوارا نہ کی کہ آپ کی بھی کوئی منشا ہے کیا؟ کشمیریوں کو باہر رکھ کر مذاکرات کی بیل منڈھے نہ چڑھ سکی تو ہمارے وکیل نے بھی ہاتھ کھینچ لیا۔
مسلہ کشمیر سے بیزاری اس حد تک جا پہنچی کہ کشمیر کمیٹی کی سربراہی سیاسی رشوت کے طور پر دی جانے لگی۔ پیپلزپارٹی کے بعد ن لیگ نے بھی مولانا کو رام کرنے کے لیے کشمیر کمیٹی کا تاج ان کے سر پر سجا دیا، کیا ہوا ہے اگر مولانا فضل الرحمان دنیا کے کئی اہم ممالک میں جا ہی نہیں سکتے، جائیں بھی تو ان کی مذہبی اور جہادی پہچان، کشمیریوں کے برحق مؤقف کو بھی مغرب میں ناقابل قبول بنا نے کے لیے کافی ہے۔ کوئی کشمیری رہنما یا پھر امور خارجہ کا ماہر شخص اس کمیٹی کا سربراہ ہوتا تو نتائج مختلف ہو سکتے تھے، دنیا ہمارے مؤقف کو سنتی بھی اور ہم اپنا مقدمہ بہتر انداز میں لڑتے بھی۔ اس بے رخی کے دور میں قدرت کو مقبوضہ کشمیر کے عوام پر رحم آگیا، قربانیوں کو شرف قبولیت ملا اور اہل کشمیر کو نیا قائد برہان مل گیا۔
برہان وانی نے اپنی جدوجہد اور سوشل کے میڈیا کےمؤثر استعمال سے پوری وادی میں آزادی کی نئی شمع جلا دی، نوجوانوں کو یہ پیغام دیا کہ بندوق آخری چارہ کار ضرور ہے لیکن سوشل، الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا درست استعمال آپ کی تحریک کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ برہان مظفر وانی صرف 22 سال کی عمر میں تحریک آزادی کے لیے کیا کچھ کر گیا، اس کا اظہار اور احساس تب ہوا جب 9 جولائی 2016ء کو پوری وادی اس مجاہد کی نماز جنازہ میں امڈ آئی۔ خلق خدا گھروں سے اس تعداد میں نکلی کہ جنازہ گاہ تنگ پڑ گئی اور کئی بار نماز جنازہ ادا کرناپڑی۔
برہان وانی کی شہادت کے بعد بھارتی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی ایسی لہر اٹھی جس کی مثال ملنا ناممکن نہ سہی تو مشکل تر ضرور ہے۔ ایسے میں کشمیر یوں کے وکیل پاکستان کو پھر سے خیال آیا اور حکومتی سطح پر بیانات دیے جانے لگے۔ وزیر اعظم نے اقوام متحدہ میں کشمیریوں کے جذبات کی بھرپور ترجمانی کی اور میڈیا نے بھی چند دن اپنا حصہ ڈالا، مگرپھر وہی ہوا جس کا ڈر نہیں یقین تھا۔ حکومت سمیت سیاسی جماعتوں کی توانائیاں مسئلہ کشمیر سے ہٹ کر سیاست، سیاست کھیلنے پر صرف ہونے لگیں اور میڈیا نے بھی اہل کشمیر کو لال جھنڈی دکھا دی۔ اب الیکٹرانک میڈیا پر دن بھر میں ایک آدھ بار حاضری لگا دی جاتی ہے کہ کشمیر میں یہ ہوگیا اور بس ذمہ داری پوری ہو جاتی ہے۔ کیونکہ مطلوم کشمیروں کی آہیں اور سسکیاں بکتی ہیں نہ سبز جھنڈے میں لپٹے ان کے لاشے۔ یہاں ریٹنگ آتی ہے حکومتی رہنماؤں اور عمران خان کے لمبے لمبے بھاشن دکھانے سے یا پھر بلاول کی شادی کی خبر سے، نہیں تو عمران خان کی شادی کا گڑھا مردہ پھر سے اکھاڑ لیں۔
ایک ٹی وی چینل کے نیوز روم میں بیٹھ کر اپنے سامنے لگی کئی اسکرینوں پر یہ سب دیکھنا اور خود کو بےبس پانے سے زیادہ تکلیف دہ کچھ نہیں۔ اس صورتحال میں تصویر کا دوسرا رخ دیکھتا ہوں تو امید پھر ہاتھ تھام لیتی ہے۔ پاکستانی سیاستدانوں کا زبانی جمع خرچ اور میڈیا کی بےرخی کشمیر کے ہر نوجوان اور باشعور شخص کے لیے کھلا پیغام ہے کہ اہل کشمیر کو اب ہر محاذ پر خود لڑنا ہوگا۔ کشمیر کے نوجوان کو بندوق سے لے کر قلم تک، ہر جہاد کی کمان خود سنبھالنی ہوگی۔ دنیا کے کونے کونے میں موجود ہر کشمیری کو خود کھڑے ہو کر دنیا سے کہنا ہوگا، کہ میں کشمیر ہوں، میں کسی کا اٹو ٹ انگ نہیں، بس آزادی کا طلبگار ہوں۔
تبصرہ لکھیے