ہوم << بڑے لوگوں کا اقبالؒ

بڑے لوگوں کا اقبالؒ

کیا یہ ہماری خوش نصیبی اور خوش بختی نہیں کہ ہم اقبالؒ جیسی شخصیت کے وارث ہیں؟ ہم دنیا کے سامنے یہ فخریہ کہتے ہیں کہ ہمارے اقبالؒ نے دنیا کو نئی راہیں دکھائی ہیں۔ انہوں نے ملی و ادبی خدمات کو وظیفۂ حیات مانتے ہوئے مدح و ذم سے بے نیاز ہو کر انجام دیا۔ وہ تعریف کے ڈونگروں، مرحبا کے ترانوں، زندہ باد کی صدائوں اور خوشامدی حربوں سے نہ واقف تھے نہ خواہاں۔ اسی لیے اس سب کچھ کے علی الرغم یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ان کی ملی خدمات، ادبی کمالات اور دردمندی کو ان کی زندگی سے لے کر اب تک جو خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے، وہ شاید کم کم کسی کو نصیب ہوتا ہے۔ اقبالؒ کے حوالے سے جب جب کچھ پڑھنے کو ملتا ہے تو مایوسیوں میں اُمید کی شمع روشن ہوتی دکھائی دیتی ہے۔ اقبالؒ خیال و عمل کو نئی راہوں سے روشناس کراتا ہے۔ آئیے، اپنے محدود مطالعے کی مجبوری کو تسلیم کرتے ہوئے، ذرا دیکھتے ہیں کہ اقبالؒ کی صدا اور ان کے فکروعمل کو اس عہد کے بڑے بڑے لوگوں نے کس طرح محسوس کیا ہے۔
: قائداعظم محمد علی جناحؒ
٭ بھارت کے دستوری مسائل کے محتاط مطالعے اور تجربے کے دوران ان (اقبال) کے خیالات نے بالآخر مجھے انہی نتائج پر پہنچا دیا جن پر اقبال خود پہنچے تھے۔
٭ مجھے اس امر کا فخر حاصل ہے کہ ان (اقبال) کی قیادت میں مجھے ایک سپاہی کی حیثیت سے کام کرنے کا موقع مل چکا ہے۔ میں نے ان سے زیادہ وفادار رفیق اور اسلام کا شیدائی نہیں دیکھا۔
٭ ۱۹۲۹ء سے میرے اور سرمحمداقبال کے نظریات میں ہم آہنگی ہوئی اور وہی ایک عظیم اور اہم مسلمان تھے جنھوں نے ہر مرحلے پر میری حوصلہ افزائی کی اور آخری دم تک میرے ساتھ مضبوطی سے کھڑے رہے۔
: سید نذیر نیازی
٭ اقبال کی فکر بھی ایک طرح کا عمل ہے اور اگر عمل کے معنی ہیں نصب العین کے لیے ترغیبات تو حضرت علامہ کسی صاحبِ عمل سے پیچھے نہیں تھے۔
٭ محفل میں حضرتِ اقبالؒ کی گفتگو معمولی سے معمولی مسائل، واقعات اور حوادث سے پھیلتے پھیلتے اسلام، عالمِ اسلام، تاریخ، تمدن، سیاست اور معیشت سب پر چھا جاتی۔ انسان، کائنات، عمل و عقل، فکرووجدان، ادب اور فن سب اس کی زد میں ہوتے۔ اس پر حضرت علامہ کا حُسنِ بیان، صاف و سادہ اور دل نشین الفاظ، فصاحت و بلاغت، برجستگی اور بے ساختگی، توجہ اور التفات، شفقت اور تواضع، خلوص اور دردمندی، کہ جو ارشاد ہے، دل میں اُتر رہا ہے، ہر بات ذہن میں بیٹھ رہی ہے۔ پھر اُن کا انکسارِعلم، شگفتگی اور زندہ دلی کہ نہ غرور، نہ تمکنت، متانت بھی ہے تو ظرافت کی چاشنی سے خالی نہیں۔ حقائق و معارف کی دنیا سامنے ہے۔ قلب و نظر کے حجاب اُٹھ رہے ہیں۔ دل و دماغ کا رنگ نکھر رہا ہے۔ اللہ اکبر! کیا بے تصنع گفتگوئیں اور کیا بے تکلف صحبتیں تھیں۔
٭ گفتگو کرتے ہوئے حضرت اقبالؒ کی ہر بات دل میں اُتر جاتی تاآنکہ وہ اپنے مخاطبین سے اتنے قریب ہوجاتے کہ انھیں گمان ہوتا حضرت علامہ شاید انہی کی طرح سوچتے ہیں، حتیٰ کہ اُن کے مسائل بھی انہی کے مسائل ہیں۔ وہ دیکھتے کہ بایں ہمہ علم و فضل اور بایں ہمہ دانش و حکمت، اُن کے اور حضرت علامہ کے درمیان کوئی دُوری ہے نہ حجاب۔ یوں حضرتِ علامہ کا حُسنِ التفات، اُن کا خلوص اور دردمندی، تواضع اور انکسار انھیں اُس دنیا میں لے آتا جو گردشِ لیل و نہار سے آزاد، ثبات و دوام کی دنیا ہے، جہاں جلال و جمال، خیروصداقت سے ہم کنار ہیں اور جس میں حضرت علامہ کا ایمان و یقین، ان کا ذوق و وجدان اور فکرونظر جب اُن کی راہنمائی کرتا تو وہ اپنے اندر نہ صرف عظمتِ ذات کی جھلک دیکھتے، بلکہ محسوس کرتے کہ انھوں نے ایک کہیں زیادہ حقیقی، کہیں زیادہ لطیف، کہیں زیادہ برتر اور پاکیزہ تر دنیا میں قدم رکھا ہے۔
: سید سلیمان ندوی
٭ دنیا سے اُٹھ جانے کے باوجود راہنمائی اقبال سے طلب کی جائے گی۔
سید عطاء اللہ شاہ بخاری
٭ اقبال، جدید دانش اور قدیم حکمت کا نقطۂ معراج۔ چونکہ میاں (حضورِاکرمؐ) سے محبت رکھتے تھے، اس لیے اللہ نے ان پر علم و دانش اور فکرونظر کی راہیں کھول دیں۔
: شیخ عبدالقادر
٭ جُوں جُوں اُن کا مطالعہ، علم و فلسفہ کے متعلق گہرا ہوتا گیا اور دقیق خیالات کے اظہار کو جی چاہا تو انھوں نے دیکھا کہ فارسی کے مقابلے میں اُردُو کا سرمایہ بہت کم ہے اور فارسی میں کئی فقرے اور جملے سانچے میں ڈھلے ہوئے ایسے ملتے ہیں کہ جن کے مطابق اُردُو میں فقرے ڈھالنا آسان نہیں ہے۔ اس لیے وہ فارسی کی طرف راغب ہوگئے۔
: مولانا غلام رسول مہر
٭ اقبال انسانیت کے اعلیٰ مقاصد کے مُعلم، اسلامی حقائق کا شارح اور اسلام کی آفاقیت کا بہت بڑا داعی ہے۔ وہ ان برگزیدہ اصحاب، فکرونظر میں شامل ہے جن سے قدرت صدیوںبعد عالمِ انسانیت کو شرف بخشتی ہے۔
: خواجہ حسن نظامی
٭ جسم پنجابی، دماغ فلسفی، خیال صوفی، دل مسلمان۔
” عبدالمجید سالک
٭ اقبال نے اُردُو شاعری کو مریضانہ زارنالوں، حسرت و حرماں اور مایوسی و افتادگی سے نجات دلا کر حیات افروز اور جذبہ انگیز خیالات نظم کرنے پر مجبور کیا۔
: ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری
٭ غمِ دوراں کا ایسا نوحہ خواں اور عظمتِ انسان کا ایسا قصیدہ خواں بیسویں صدی میں کوئی شاعر نہیں ہوا۔
: ڈاکٹر جاوید اقبال
٭ اقبال کی رُوح کی بے تابی، بے چینی اور بے قراری آج بھی اقبال کے رازدانوں کے سینوں میںشعلہ کی طرح لپکتی ہے۔
٭ اقبال کی نکتہ آفرینی کے طلسم نے افکار کی گوناںگونی سے وحدتِ ایمانی پیدا کی ہے اور ایک ایسی منطق کو، جو محض مدرسوں کے طلبہ تک محدود تھی، ایک عالمگیر پیغام کی صورت میں دنیا کے سامنے رکھ دیا۔
٭ اقبال مظاہرِ الٰہی میں سے تھے۔ ایسے نابغۂ روزگار خدا تعالیٰ کی طرف سے ہدیے کے طور پر ہی انسانوں میں نمودار ہوتے ہیں، آرڈر دے کر نہیں بنوائے جاسکتے۔
٭ اقبال گھر پر ہوتے تو اُن کے ملاقاتیوں کا تانتا نہیں تھمتاتھا۔ ناشتا، دوپہر کا کھانا، شام اور رات کی چائے طشتری میں لگ کر اُن کے کمرے میں جاتی تھی، لیکن لوگ تب بھی اُن کا پیچھا نہیں چھوڑتے تھے۔
٭ اقبال کا بیشتر وقت ایسے معاملات کی نذر ہوتا رہا جو انھیں اور ان کے خاندان کے باقی افراد کو باعزت زندگی گزارنے کے قابل بنا سکیں۔ تحقیق و تصنیف کی خاطر فرصت کے لیے وہ تمام عمر ترستے رہے اور شعر شب بیداری کے عالم میں یا پھر تعطیل کے دنوں میں کہتے تھے۔ بعض اوقات مضامین سیلاب کی طرح اُمنڈ کر آتے اور الفاظ میں ڈھلے ہوئے اشعار کا طوفان بپا ہوجاتا، جیسے کسی مچھیرے کے جال میں بہت ساری مچھلیاں آ پھنسی ہوں اور وہ اس کشمکش میں ہو کہ کس کو پکڑے اور کس کوجانے دے۔
: مریم جمیلہ
٭ اقبال کی’’ اسرارِخودی‘‘ کے انگریزی ترجمے کے باوجود میں نے اسے مسحورکن پایا۔ بہت سے شاعر، جو مختلف ثقافتوں اور زبانوں سے تعلق رکھتے ہیں، اُن کی شاعری کا محور صرف قدرت کی خوبصورتی اور عاشقانہ محبت ہوتی ہے۔ اقبال وہ شاعر ہیں جس کی شاعری اسلام کی محبت کے گرد گھومتی ہے۔ ایک معروف کہاوت ہے کہ آرٹ اور پروپیگنڈہ کبھی مل نہیں سکتے۔ لیکن اقبال جیسے ذہین شخص نے اس کہاوت کو غلط ثابت کردیا۔ اقبال ان بہت تھوڑے لوگوں میں شامل ہیں جن کی شاعری ناصحانہ ہونے کے باوجود خوبصورتی نہیں کھوتی۔
: قدرت اللہ شہاب
٭ اقبال کی شخصیت دراصل ایک کثیر العباد (Multidimentional) شخصیت تھی۔ عالمِ اسلام میں وہ اپنی سطح کے پہلے شاعر اور فلسفی تھے جنہیں مشرق و مغرب کے علوم و فنون، فکروفلسفہ، تاریخ و تمدن کے روایتی اور جدید پہلوئوں پر صرف مطالعہ کے طور پر ہی نہیں بلکہ عملی مشاہدہ کے طور پر بھی بڑا عبور حاصل تھا۔ اتنے بڑے سمندر میں خیال اور بیان کی لہریں کسی خاص منتظم ترتیب کے ساتھ نہیں اُبھر سکتیں۔ یہ لہریں آڑی ترچھی بھی ہوں گی، متقاطع، متحارب ور معارض بھی۔ علامہ کا کمال یہ ہے کہ بھنوروں اور گردابوں کے ان ریلوں میں بھی اُن کے فکری بہائو کے ۲؍ واضح اور متوازن رُخ برقرار ہیں ۔ مادی دنیا کے معاملات میں وہ بڑی حد تک عملیت پسند (Pragmatic) ہیں۔ یہاں پر ان کی فکر کا رجحان اور اسلوب اپنے مطالب کو بطور نفس الامر بیان کرتا ہے اور یہ نفس الامر یا امرِواقعہ کبھی حتمی نہیں ہوتا بلکہ وقت، ماحول اور دیگر عوامل کے ساتھ ادلتا بدلتا بھی رہتا ہے۔ لیکن جہاں تک داخلی یا روحانی یا اسلامی افکاروبیان کا تعلق ہے، اقبال کی شاعری اور نثر دونوں یکساں طور پر مستقیم، مسلسل اور یک رنگ ہیں۔
: این میری شمل
٭ مذہب کی تاریخ میں جسے ’’پیغمبرانہ‘‘ انداز کا تجربہ کہا جاتا ہے، اقبال اُس کی بہترین مثال تھے۔
: فقیرسیدوحیدالدین
٭ اقبال کی شخصیت بہت عظیم المرتبت تھی۔ لیکن اُن کی ذاتی زندگی مردِ درویش و قلندر کے مانند تھی۔ سیدھی سادھی معاشرت، کوئی تصنع نہیں، کسی قسم کا کّرِوفر نہیں۔ مکان کے درودیوار آرایش سے عاری۔ ہر شخص ان تک بغیر کسی دشواری کے پہنچ سکتا تھا۔ آرایش اور نمائش کی طرف اُن کی نظر ہی نہیں جاتی تھی۔ ان کی زندگی ایک صابر اور متوکل مسلمان کی زندگی اور اُن کا عمل ان کے فکرونظر کا نمونہ تھا۔
: ڈاکٹر فرمان فتح پوری
٭ اقبال کو اس بات سے چڑ تھی کہ شاعری یا کوئی اور فن افادیت و مقصدیت اور زندگی کی تعمیروتہذیب سے عاری ہو۔
: ڈاکٹر بصیرہ عنبرین
٭ علامہ اقبال کے ہاں فکرِعمیق کی پیش کش، اُردُو اور فارسی دونوں زبانوں میں نہایت پُرتاثیر اسلوب میں ہوتی ہے۔ خاص طور پر فارسی زبان میں علامہ اقبال نے غیرمعمولی ذہانت و فطانت کا اظہار کیا ہے۔
: فیض احمد فیض
٭ جہاں تک شاعری میں حساسیت، زبان پر عبور اورغنائیت کا تعلق ہے، ہم تو اُن (اقبال) کے خاکِ پا بھی نہیں۔ اگر علامہ سوشلزم کے معاملے میں ذرا سنجیدہ ہوجاتے تو ہمارا کوئی ٹھکانہ نہ ہوتا۔
: شورش کاشمیری
٭ لوگ جُوں جُوں کلامِ اقبال سمجھتے جائیں گے، ان میں فراتِ زیست سے مردانہ وار گزرنے کا حوصلہ اور صلاحیت پیدا ہوتی چلی جائے گی۔
٭ اقبال کو پاکستان سے محذوف کر دیں تو پاکستان ذہانتِ ملی کے اعتبار سے محض ایک بیان رہ جاتا ہے۔
٭ اقبال نے روانی و جولانی، ظرافت و سلامت، تجربہ و تمثیل، آواز و طریق، استدلال و اشارات اور تخلیق و فن کا ایک ایسا نمونہ پیش کیا کہ مجھے اُن کے ساحر ہونے کا یقین ہوگیا۔
٭ اقبال نے بلاشبہ کروڑوں انسانوں کو بالواسطہ اور بلاواسطہ متاثر کیا اور شاید پوری تاریخِ انسانی میں اس لحاظ سے اتنا بڑا شاعر کوئی نہیں۔
عرفان صدیقی (انڈیا)
٭ اقبال کے ہاں تاریخی، مذہبی، اساطیری حوالے، تلمیحات اور استعارے بہت کثرت سے ملتے ہیں۔ اقبال کو سمجھنے کے لیے ہمیں لغت سے زیادہ انسائیکلوپیڈیا کی ضرور پڑتی ہے۔
٭ اقبال زبان کے بہت بڑے ماہر تھے۔ زبان سے ان کا بڑا اجتہادی رشتہ تھا بلکہ کہیں کہیں تو بڑا باغیانہ رشتہ ہوجاتا ہے۔
٭ عشق کو آپ پرانے حوالے سے پڑھنا چاہیں گے تو اقبال آپ پر کھلیں گے ہی نہیں۔ اقبال نے بہت سے شعری کلیدی الفاظ استعمال کیے لیکن ان میں دوسرا رنگ اور معنویت بھر دی ہے۔ اس معنویت کی تلاش اقبال کی تفہیم میں ایک بڑا کام ہے۔
: سید اقبال عظیم
٭ اقبال کو اُردُوشاعری کی معراج سمجھتا ہوں۔ اگر مجھ سے کہا جائے کہ تمام شعراء میں سے صرف ایک کا انتخاب کرو تو بلاتامل اقبال کا دامن تھام لوں گا، اس لیے کہ اقبال نے جو کچھ ہمیں دیا ہے، وہ ہمارے پورے سرمایۂ شاعری پر بھاری ہے۔
: شمس الرحمن فاروقی
٭ اقبال کے کلام کی ایک طرح سے بنیادی لے یا زیریں لہر یہی سوال ہے کہ کائنات میں انسان کا کردار کیا ہے اور کائنات سے انسان کا رشتہ کیا ہے؟ اس کی انہیں بہت فکر ہے اور وہ اس کے بارے میں بہت سوچتے ہیں اور بہت پوچھتے رہتے ہیں۔ خود سے بھی، اللہ سے بھی، تمام لوگوں سے بھی۔ خود کائنات سے سوال کرتے ہیں اور غالباً پہلی بار اتنا تجسس، اتنا سوال اور استفسار اُردُو کی شاعری میں نظر آتا ہے۔
: ڈاکٹر عبدالغنی
٭ نظم’’ طلوعِ اسلام‘‘ میں اتنے پھیلے ہوئے مواد کو سمیٹ کر ایک منظم ہیئت مرتب کرنا اور شروع سے آخر تک بنیادی تخیل کو مسلسل ترقی دینا نہ صرف ایک غیرمعمولی ذہنی استعداد کا ثبوت ہے بلکہ زبردست جذبہ قلبی کا نشان ہے۔ اس میں فکر کی وسعت اور فن کی بلوغت اپنے عروج پر ہے۔ یقینا یہ ایک الہامی کیفیت کا سرچشمہ ہے۔
: ڈاکٹر رشید امجد
٭ اقبال نے اپنی شاعری کے ذریعے فرد کی انفرادیت کو نمایاں کرتے ہوئے اسے ایک ایسا ولولہ عطا کیا جس کے بل بوتے پر وہ سامراج سے ٹکرانے کی ہمت پیدا کرسکتا تھا۔ انہوں نے ماضی کی قوت سے حال کا مقابلہ کرنے کی تدبیر کی۔
: ڈاکٹر صفدر محمود
٭ علامہ سے محبت کے تقاضے پورے کرنے کے لیے فلسفہ، تاریخ و حدیث، عربی، فارسی اور تاریخِ اسلام پر گہری نظر ضروری ہے۔
: جاوید ہاشمی
٭ دیکھا تو یہی دیکھا کہ جو اقبال کے سحر میں گرفتار ہوجائے، اُسے اپنی منزل چرخِ نیلی فام سے پرے نظر آتی ہے۔
: ہارون رشید
٭ اقبال ایک آدمی بھی نہیں، فقط ایک ادارہ بھی نہیں۔ اقبال ایک حیرت کدہ ہے، تاریخ میں جس کی کوئی دوسری نظیر نہیں۔ اس جہان میں جو داخل ہوا، عمر بھر اُسی کا ہورہا۔
٭ اُردُوشاعری کے ہاتھ میں بھیک مانگنے کا کشکول اور آواز میں خودترسی تھی، جب وہ (اقبال) شعر کے افق پر اُبھرے، اُمید، ایمان اور عزم کی مشعل تھامے، چالیس برس اُس نے اُردُوادب کے دھندلے میدانوں کو روشنی سے بھردیا۔ انسان کی پوری تاریخ میں کوئی شاعر ایسا نہ تھا جس نے سیاسی، لسانی اور فکری اعتبار سے کسی معاشرے کو اتنی گہرائی اور وُسعت میں متاثر کیا ہو۔ اُردُو زبان کے تیور ہی اُس نے بدل ڈالے، اُس کا نسائی لہجہ مردانہ ہوگیا۔
: محمد حسین گوہر
٭ اقبال نے اُردُوشاعری کو فکر اورذوقِ یقین دیا۔ اقبال کی شاعری کی ہمہ گیری، حیات آفرینی، فعالیت و عملی امکانات، انقلابی حیات آفرینی سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ اُن کا فلسفۂ خودی فرد کو اپنی شخصیت کی تکمیل پر آمادہ کرتا ہے اور اُسے سماجی مقاصد سے ہم آہنگ انجمن آرائی کے کام میں لاتا ہے۔
٭ اقبال گزشتہ میں ثبت ایک نقش نہیں ہے، آیندہ کے لیے ایک امکان اور بشارت کا زندہ و جاوید نشان ہے۔
٭ عقل پر وجدان کو، بے روح عبادت پر مذہبی تجربے کو، روایت زدگی پر مہم جوئی کو اور تسلیم و رضا پر تسخیر کی طلب اور شوقِ فروزاں کو اقبال جو ترجیح دیتے ہیں تو اسی لیے کہ زندگی جیسی کہ ہمیں میسر آتی ہے، اُسے ارتقاپذیر اور متحرک اور کارکشا رکھنے کے لیے، اس کے امکانات کا سراغ لگانا، انہیں دریافت کرنا ضروری ہے۔ دانش اور بصیرت کی یہ لہر اقبال کی سرشت میں صرف روایتی تصورات کے توسط سے نمودار نہیں ہوئی۔ اقبال نے اس کی ترتیب و تشکیل کے عمل میں اپنی ذہنی روایت اور پس منظر کے علاوہ دوسری روایتوں اور سرچشموں سے بھی استفادہ کیا۔
٭ اقبال گردوپیش کی دنیا کے مظاہر اور اشیا میں ابتری اور باہمی لا تعلقی کے باوجود ایک تنظیم کے خواب سے کبھی دست بردار نہیں ہوئے تھے۔ ان کی نظر انسانی صورت حال کی حقیقت کے ساتھ ساتھ اس کے امکان پر بھی تھی۔ وہ ایک مستحکم اور پائیدار مستقبل بین (Futuristic) رویہ رکھتے تھے۔
: سیدابوالحسن علی ندوی
٭ زندگی کے طویل تر دور میں دماغ پر علامہ اقبال کا بڑا غلبہ رہا ہے۔ یہ کہا جاسکتا ہے کہ کسی معاصرشخصیت کے افکار کا اتنا گہرا اثر دماغ پر نہیں پڑا جتنا علامہ اقبال کے کلام کا۔
٭ اقبال کو میں نے اولوالعزمی اور ایمان کا نوحہ خواں شاعر پایا۔ جب بھی میں نے ان کا کلام پڑھا تو دل جوش سے اُمنڈ نے لگا اور لطیف جذبات نے انگڑائیاں لینا شروع کردیں۔ احساسات و کیفیات کی لہریں بیدار ہونے لگیں اور رگوں میں شجاعتِ اسلامی کی رُوح دوڑنے لگی۔
٭ اقبال کی آہِ سحرگاہی اس کا اصل سرچشمہ ہے۔ جب سارا عالم خوابِ غفلت میں پڑا سوتا رہا، اس اخیرِشب میں اقبال کا اُٹھنا اور اپنے رب کے سامنے سجدہ ریز ہوجانا، پھر گڑگڑانا اور رونا، یہی چیز تھی جو اس کی روح کو ایک نئی نشاط، قلب کو نئی روشنی اور ذہن کو فکری غذا عطا کرتی ہے۔
٭ اقبال کی فنی مہارت و چابکدستی اور بلیغ منظرکشی و سماں بندی کہ حالات و واقعات کی تصویر نگاہوں میں پھر جائے اور قال حال اور جنت نظیر بن جائے۔
٭ اقبال اپنی تدریسی، دقیقہ سنجی، دروں بینی اور بالغ نظری سے ملکوں، تہذیبوں، مذہبوں اور قوموں کی روح میںاُترجاتے ہیں اور پھر اپنا ذاتی مشاہدہ اور صداقت کا تجربہ و تجزیہ شعرونغمہ کے پردوں کی آڑ میں ہوبہو سامنے رکھ دیتے ہیں۔
: نعیم صدیقی
٭ وہ قوت جسے مذہب قرار دے کر شعروفن کی محفلوں سے نکال دیا گیاتھا اُسے اقبال ایک پُرعظمت تحریک کی حیثیت سے اپنے ساتھ لے کرایوانِ سخن میں داخل ہوئے۔
٭ اقبال نے دلوں اور دماغوں پر نہایت ہی گہرا اثر اس لیے ڈالا کہ ملت نے اپنے سفرِجستجو میں اُس کے شعلۂ نوا کو بہترین قندیل پایا ہے۔ ان کے یہاں ہمیں اپنی بکھری ہوئی ہستی کا سراغ ملتا ہے۔ ہم کیا تھے؟ کیا ہوگئے؟ اور ہمیں کیا ہونا چاہیے؟ کون سے عقائدوتصورات ہمارے لیے روح کی حیثیت رکھتے ہیں؟ ہمارا ڈھانچہ کن اصولوں، قدروں اور روایتوں سے بنتا ہے؟ ہماری زندگیوں کا اعلیٰ ترین مشن کیا ہے؟ ہمارے انسانِ مطلوب کے خدوخال کیا ہیں؟ ان سوالوں کا اقبال کے یہاں واضح جواب ملتا ہے یا کم از کم جواب تک پہنچنے کے لیے واضح اشارے ملتے ہیں۔
٭ اقبال نے اسلام کی روشن صداقتوں کو شعر میں اس شان سے سمویا کہ شعریت کو کوئی ضعف نہیں پہنچا بلکہ شعریت اور زبان نکھر گئی۔ فن کے ناوک اور زیادہ نوکیلے ہو کر دلوں میں ترازو ہوگئے۔
: رشید احمد صدیقی
٭ معلوم ہوتا ہے جیسے شاعری نے اقبال کو اقبال بنانے میںاپنی ساری آزمائشیں ختم کر دی ہوں اور اُن کے بعد ان پر ساری نعمتیں بھی تمام کر دی ہوں۔ جیسے اُردُوشاعری کا دین اقبال پر مکمل ہوگیا ہو۔ اس کے باوجود اقبال کی فکرونظر کی وسعت اور گہرائی کا یہ عالم ہے کہ اس کا بہت کم حصہ ان کے کلام میں منتقل ہوا ہے۔
حرفِ آخر، یقینا یہ اقبال کی فکروعمل کا کمال ہے کہ ہر کسی نے گلشنِ اقبال میں بکھرے رنگوں اور خوشبوئوں کو اپنے ہی انداز سے محسوس کیا اور یوں ہر کسی پر ایک نئی واردات و کیفیت منکشف ہوئی،حالانکہ اقبال تو یہی سمجھتے تھے کہ ؎
اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے
کچھ اس میں تمسخر نہیں واللہ نہیں ہے
: ڈاکٹر ندیم
کلامِ اقبال خیال و عمل کو نئی راہوں سے روشناس کرنے میں مددگار ہے۔
: سید نذیر نیازی
علامہ کا انکسارعلم، شگفتگی اور زندہ دلی ایسی کہ نہ تعلیٰ، نہ غرور، نہ تمکنت صرف صاف و سادہ اور دل نشین الفاظ اُن کا بیان ہوتے۔
: مولانا غلام رسول مہر
اقبال انسانیت کے اعلیٰ مقاصد کے مُعلم اور اسلام کی آفاقیت کے بہت بڑے داعی تھے۔
: ڈاکٹر اختر رائے پوری
اقبال سے بڑا عظمتِ انسان کا قصیدہ خواں اور کوئی نہیں۔

: ڈاکٹر جاوید اقبال
اقبال کی نکتہ آفرینی کے طلسم نے افکار کی گوناںگونی سے وحدت ایمانی پیدا کی۔ وہ مظاہرِ الٰہی میں سے تھے۔
بشکریہ اردو ڈائجسٹ