دو ہزار دو کے الیکشن کے بعد یکدم آصف زرداری کی اہمیت جنرل مشرف کے نزدیک بہت بڑھ گئی تھی۔ اس وقت جنرل مشرف اکیلے حکومت نہیں بنا سکتے تھے۔ مرحوم امین فہیم بھی‘ جو جنرل مشرف کے ساتھ کبھی کبھار شام گزارتے تھے‘ زرداری کو اچھے لگنا شروع ہو گئے۔ جنرل مشرف کو یاد آیا کہ ایک سیاسی طوطا ان کی قید میں ہے‘ جس کے بدلے بینظیر بھٹو سے سیاسی حمایت حاصل کی جا سکتی ہے۔ بینظیر بھٹو بھی روایتی مشرقی بیوی کی طرح باپ کے سیاسی ورثے پر اپنے بچوں کے باپ کو اہمیت دیتی رہی تھیں‘ اور بعد میں شوہر کی کرپشن کی وہ سے ہی نواز شریف دور میں انہیں پاکستان چھوڑ کر دبئی منتقل ہونا پڑا تھا۔ زرداری بینظیر بھٹو کو یہ یقین دلا چکے تھے اگر نواز شریف کو سیاسی محاذ پر شکست دینا ہے تو پھر انہیں نواز شریف جتنی دولت درکار ہے۔ بینظیر بھٹو آخرکار قائل ہو گئیں‘ اور پھر ایک دن پتہ چلا کہ سوئس بینکوں میں چھ ارب روپیہ اکٹھا ہو چکا ہے۔ اس سے پہلے انیس سو پچانوے میں لاکھوں پائونڈز کا سرے محل بھی لندن میں خریدا جا چکا تھا۔ پھر دونوں نے مڑ کر نہ دیکھا۔ خدا کی قدرت‘ جو محل دبئی میں بینظیر بھٹو نے لاکھوں درہم کے عوض خریدا تھا‘ اس میں وہ چند ماہ بھی نہ رہ سکیں اور گڑھی خدا بخش ابدی نیند جا سوئیں۔
جنرل مشرف نے اپنے سیکرٹ ایجنٹوں کے ذریعے زرداری کو قائل کر لیا کہ اگر وہ بینظیر بھٹو سے منوا لیں کہ امین فہیم وزیر اعظم بن جائیں‘ اور وہ خود دبئی میں رہیں تو ان کی (زرداری) رہائی ممکن ہے‘ ان پر مقدمات بھی کچھ عرصے بعد ختم ہو جائیں گے۔ بینظیر بھٹو سمجھدار تھیں۔ جانتی تھیں کہ اگر سندھ سے اپنی پارٹی میں سے انہوں نے کسی مخدوم کو وزیر اعظم بنوا دیا‘ تو ہمیشہ کے لیے وہ بھٹو کے سندھ سے وزارت عظمیٰ کا دعویٰ کھو دیں گی اور ان کے بچوں کو بھی مستقبل میں مشکلات پیش آئیں گی۔ امین فہیم کے نام پر رضامندی نہ ملی تو جنرل مشرف نے ایک اور پتہ پھینکا۔ مولانا فضل الرحمن کا نام سامنے آ گیا۔ زرداری اس نام پر بھی تیار تھے‘ لیکن بینظیر بھٹو ڈر گئیں کہ پہلے ہی ان پر الزام تھا کہ وہ طالبان کی گاڈ مدر ہیں‘ لہٰذا وہ طالبان کے گاڈ فادر کو وزیر اعظم بنوا کر مغربی ملکوں میں اپنی تباہی کا بندوبست نہیں کر سکتی تھیں۔ اس انکار پر زرداری بہت برہم تھے؛ تاہم اس دوران جنرل مشرف کے سیکرٹ ایجنٹ جیل میں زرداری سے مسلسل رابطے میں رہے۔ زرداری کو جیل سے اٹھا کر پمز ہسپتال کے وی آئی پی وارڈ میں داخل کرا دیا گیا تھا کہ کسی دن یہ مہرہ بھی جنرل مشرف کے کام آئے گا۔
اس دوران زرداری اور ایک ایجنسی کے سربراہ اس بات پر متفق ہو گئے کہ انقلاب لایا جا سکتا ہے اور وہ بھی بینظیر بھٹو کے بغیر۔ ایک سیکریٹ ڈیل ہوئی‘ جس میں طے پایا کہ زرداری رہا ہو کر علاج کے بہانے ملک سے باہر جائیں گے اور پھر واپس لوٹ کر لاکھوں کا مجمع اکٹھا کرکے لاہور پر چڑھائی کریں گے‘ جہاں پرویز الٰہی کی حکومت تھی۔ طے پایا کہ اگر دھرنا کامیاب ہو گیا تو پھر نئے الیکشن دو ہزار پانچ میں ہوں گے۔ زرداری نے اپنی آزادی کے نام پر یہ ڈیل لے لی۔ اب اگلا کام بینظیر بھٹو کو قائل کرنا تھا۔ زرداری جیل میں رہ کر‘ اور سیکرٹ ایجنٹوں سے خفیہ ملاقاتیں کرکے سمجھدار ہو گئے تھے۔ پٹارو کے طالب علم نے آکسفورڈ کی گریجویٹ کو یہ گولی دے دی کہ اس بار جنرل مشرف سنجیدہ ہیں اور وہ چوہدری برادارن سے اکتا چکے ہیں‘ وہ جعلی جمہوریت کی بجائے اب اصلی اور نسلی جمہوریت لانا چاہتے ہیں اور ایسی جمہوریت صرف زرداری ہی لا سکتے تھے۔
بینظیر بھٹو نے ڈیل کی دیگر تفصیلات پوچھیں تو جواب ملا‘ شرط یہ ہے کہ اس بار پیپلز پارٹی کی قیادت وہ سنبھال لیں گے اور اکیلے لاہور فتح کرنے جائیں گے‘ بینظیر بھٹو دبئی میں بیٹھ کر بچے سنبھالیں گی‘ زرداری دو تین روز میں لاہور فتح کرکے انہیں پاکستان بلا لیں گے اور اس کے بعد وہ نئے انتخابات کی تیاری کریں گے۔ بینظیر حیران تھیں کہ بھلا جنرل مشرف کیوں دو ہزار چار میں اپنے یس باس ٹائپ وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ کو ہٹا کر پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم یا وزیر اعلیٰ کو لائیں گے۔ زرداری نے بینظیر بھٹو سے کہا کہ آپ کو پاکستان چھوڑے پانچ برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ آپ کو پاکستان کی نئی حقیقتوں کا علم نہیں۔ پاکستان میں سیاست، سیاستدان، جنرل اور سیکرٹ ایجنسیوں کے سربراہ بدل چکے ہیں۔ اب وہ ان سب کو ڈیل کر سکتے ہیں۔ وہ سب سمجھتے ہیں کہ کس کو کس اوقات میں رکھنا ہے۔ وہ ایک بار ان (زرداری) پر بھروسہ کرکے دیکھیں کہ وہ کیا کرتب دکھاتے ہیں۔
بینظیر بھٹو کو اس یقین دہانی کے باوجود شکوک تھے‘ لیکن وہ تیار ہو گئیں کہ شاید زرداری کوئی تبدیلی لانے میں کامیاب ہو جائیں۔ جیل میں ڈیل ہو گئی تھی۔ وہی ہوا‘ جو بڑے لوگوں کے ساتھ ہوتا ہے۔ طبیعت بگڑنے کا بہانہ بنا کر زرداری کو جنرل مشرف کے سیکرٹ ایجنٹوں نے ضمانت کرا کے دبئی بھجوا دیا۔ دبئی سے ایک اعلان کیا گیا کہ پارٹی قیادت وقتی طور پر زرداری نے سنبھال لی ہے۔ سب لیڈر اور ورکر وہی کریں جو انہیں زرداری کہیں۔ اس دوران بینظیر بھٹو نے زرداری کے ساتھ بیٹھ کر ایک ٹی وی انٹرویو دیا۔ ان سے پوچھا گیا: جنرل مشرف اور ان کے ساتھی زرداری کے ساتھ ڈیل کرنے کو تیار ہیں‘ آپ کے ساتھ نہیں؟ بینظیر بھٹو نے بڑے طنزیہ انداز میں جواب دیا: دراصل زرداری بھی فوجی سکول پٹارو سے پڑھے ہوئے ہیں‘ لہٰذا فوجی زرداری کو قابل بھروسہ سمجھتے ہیں جبکہ وہ سویلین اداروں سے پڑھی ہیں لہٰذا ان پر بھروسہ نہیں کیا گیا۔
زرداری نے پورا بندوبست کیا ہوا تھا کہ بینظیر بھٹو اس ساری سیاسی جنگ میں منظر پر نظر نہ آئیں اور سارا شو ان کا ہو۔ زرداری نے دبئی سے ہی زور و شور سے مہم شروع کر دی۔ پاکستان سے صحافیوں کے ایک جتھے کو تیار کیا گیا۔ ناموں کی ایک طویل فہرست بنائی گئی‘ جو دبئی سے زرداری کے لاہور پر حملہ آور ہونے کی روداد کے عینی شاہد ہوں۔ میرا نام بھی ان صحافیوں میں شامل تھا۔ دبئی میں ہر طرف زرداری صاحب کے چرچے تھے۔ لگتا تھا کہ وہ لاہور میں اپنے جھنڈے گاڑ دیں گے۔ روانگی کا وقت طے ہو رہا تھا کہ اس وقت لاہور اترا جائے۔ اس وقت تک سندھ اور پنجاب کے ورکرز پورے لاہور کو گھیر ے میں لے چکے ہوں۔ لاہور کی ساری مشینری معطل ہوچکی ہو۔ لاکھوں کے مجمعے نے ایئرپورٹ پر ڈیرے ڈالے ہوئے ہوں۔ وزیراعلیٰ پرویز الٰہی شاہ ایران کی طرح اقتدار چھوڑ کر کہیں پناہ کی تلاش میں ہوں گے اور چند گھنٹوں بعد جنرل مشرف خود ہی حکومتیں توڑ کر نئے انتخابات کا اعلان کر کے تین ماہ بعد اقتدار زرداری کے حوالے کر کے خود حج کرنے چلے جائیں گے اور باقی کی عمر اللہ اللہ کر کے گزاریں گے کہ اب اللہ کا نیک بندہ زرداری اس ملک کا نیا سربراہ ہوگا۔
پیپلز پارٹی کی پوری لیڈرشپ مسلسل یہ تاثر اپنے ورکرز، لیڈروں اور میڈیا کو دے رہی تھی کہ ان کی جنرل مشرف سے ڈیل ہوگئی تھی اور ان کا لاہور اتر کر لاہور پر قبضہ کرنا اسی ڈیل کا ہی حصہ تھا ۔ ہم صحافیوں کو صبح سویرے ہی نیند سے جگا کر دوبئی ایئرپورٹ لایا گیا۔ امین فہیم اور زرداری ایئرپورٹ پر موجود تھے۔ کچھ جیالوں نے زرداری کے نعرے لگانے کی کوشش کی تو صرف ایک سپاہی ان کی طرف آیا اور سب کی سٹی گم ہوگئی۔ نعرے بند جب کہ زرداری جو وہیں کھڑے تھے وہ بھی وہاں سے دور ہوگئے کہ جناب میرا ان سے کیا تعلق جو نعرے ماررہے ہیں ۔ جہاز میں داخل ہوئے تو پتہ چلا چارٹرڈ طیارہ تھا۔جہاں جی چاہے بیٹھ جائیں۔ زرداری صاحب چہرے پر مسکراہٹ کا لبادہ اوڑھے طیارے پر سوار ہوئے تو لگا ایک اور امام خمینی پاکستان میں انقلاب کے لیے جارہے تھے۔ جہاز لاہور کی فضائوں میں چکر لگا رہا تھا۔پیپلز پارٹی کے جیالے اپنے نئے چی گویرا کے استقبال کے لیے لاہور پہنچنے کی کوششوں میں لگے ہوئے تھے۔ زرداری پرامید تھے اس بار تو لاہور کی خیر نہیں ہے۔ہم سب بھی یہی سمجھ بیٹھے تھے سورج اب کی دفعہ مغرب سے نکلنے والا تھا ۔ جنرل مشرف اپنے وزیراعظم جمالی اور وزیراعلیٰ پرویز الٰہی کو برطرف کر کے زرداری کو نیا وزیراعظم بنانے ہی والے تھے۔بس لاہور فتح کرنے کی دیر تھی جو ابھی زرداری کے قدموں میں گرنے ہی والا تھا۔ابھی جہاز کی لینڈنگ میں کچھ دیر تھی کہ ایک ٹی وی اینکر جو زرداری کے باڈی گارڈ کم مشیر کا رول ادا کررہے تھے ہانپتے کاپنتے آئے اور میرے کان میں پراسرار انداز میں بولے۔کہانی ختم ہوگئی ہے!مجھے ان کی اس پراسرار سرگوشی سے اندازہ نہ ہوسکا کس کی کہانی ختم ہوئی تھی؟ زرداری کی کہانی ختم ہوگئی تھی؟ پرویز الٰہی کی ؟ کیا وہ زرداری کے لاہور ایئرپورٹ اترنے سے پہلے ہی کہیں فرار ہوگئے تھے؟
میں اسی خیال میں ڈوبا ہوا تھا کہ جہاز نے لاہور ایئرپورٹ کو ٹچ کیا۔ اب جو کچھ جہاز میں ہوتے دیکھ رہا تھا ، اس کے بعد واقعی کہانی ختم ہوگئی تھی ۔ ایک ایس پی مبین جہاز میں کورنش بجا لایا ۔ اس ایس پی نے جھک کر زرداری کے گھٹنوں کو ہاتھ لگایا اور بولا سائیں آپ میرے ساتھ چلیں ۔ باہر مرسیڈیز آپ کا انتظار کر رہی ہے۔
واقعی انقلاب آگیا تھا؟ پیپلز پارٹی کے جیالوں نے لاہور کا تختہ الٹ دیا تھا ؟ دو سوا دو سو سال پہلے گوجرانوالہ میں پیدا ہونے و الے رنجیت سنگھ کے بعد اب لاہور کا نیا بادشاہ نواب شاہ سندھ کا زرداری تھا اور پولیس سرکاری پروٹوکول کے ساتھ انہیں گورنر ہاؤس لے جا کر تخت ِلاہور پر بٹھانے آئی ہوئی تھی؟ (جاری)
تبصرہ لکھیے