ہوم << ہماری طاقت اور کمزویاں - عظیم انور

ہماری طاقت اور کمزویاں - عظیم انور

گزشتہ چند دہائیوں سے مغربی طاقت کے مراکز نے جس خوبصورت انداز میں اسلام کو کٹہرے میں لا کهڑا کیا ہے کہ مغرب تو کیا ہم مسلمان اپنے مسلم اکثریتی علاقوں میں بهی اپنی صفائیاں پیش کرتے پهر رہے ہیں اور مغربی ثقافت کے مرعوب اسیر مسلمانوں کے بهیس میں بهی اپنا نظریہ پوری قوت اور طاقت کے ساته نافظ کرنے میں مصروف العمل ہیں.

اسلام کو پتهروں کے دور کا دین غیر فطری غیر انسانی دکیا نوسی غرض یہ کے پورا مقدمہ اس حکمت اور وذن کے ساته تیار ہوا ہے کہ مسلمانوں کا ایک بڑا گروہ جو دین اسلام کی حقیقی تعلیمات سے دور ہے اس مغربی دجالی کے فریب میں انتہائی مظبوطی سے جکڑا نظر آتا ہے.بنی نوع انسان آج جس فلسفہ پر گامزن ہے کے اپنی کمزوری کو طاقت میں تبدیل کیا جائے اور دشمن کی طاقت کو کمزوری میں. اس فلسفہ کا حقیقی استعمال ان مغربی اماموں نے اپنےعمل میں کیا ہے اور دراصل اسلام دشمنی میں اس حد تک گئے ہیں کے اسلام کی تمام خوبیوں اور طاقت کو اپنی پوری طاقت وزن اور پروپیگنڈہ سے مسلمانوں کی کمزوری بنانے کی کوشش کی ہے.

اسلام جس عقیدہ توحید، مساوات، برابری اور انسانیت کے بنیادی حقوق کی بات کرتا ہے اور یہی بنیاد مسلمانوں کے "اتحاد" کا ضامن ہوا کرتی تهی. آج پوری دنیا میں مغرب نے اپنی سازشوں سے اس کے پرخچے اڑا دئے ہیں اور مسلمان ہر بات پر تقسیم ہے کہیں مزہبی عقائد کے نام پر کہیں علاقائی عصبیت کے نام پر کہیں زات پات کی بناء پر کہیں فرقہ واریت کی آڑ میں. اللہ تو مسلمانوں کو حکم دیتا ہے اللہ کی رسی کو مظبوطی سے تهامو تفرقہ نا کرو تعصب نا کرو اور ایک جگہ تو اللہ سبحان و تعالی نے رسول مہربان (ص) کو مخاطب کرکے فرمایا کے اے اللہ کے رسول (ص)جو تیرے دین میں فرق کرتے ہیں ان کا آپ (ص) سے کوئی تعلق نہیں.

پهر بهی ہم مسلمان اس تقسیم پر آمادہ ہیں اور جو اتحاد امت کی بات کرتا ہے اس کے مقابل تقسیم کاروں کے پیروکار بنے بیٹهے ہیں. تو پہلا نشانہ امت مسلمہ کا اتحاد تها جسے دشمن نے با آسانی ہمیں تقسیم کرکے ہماری اس طاقت کو ہماری ہی کمزوری بنا ڈالا.دوسری مسلمانوں کی بڑی طاقت جہاد ہے جس کا اللہ سبحان و تعالی نے قران مجید میں ایک ہزار سے زائد بار تزکرہ کیا ہے. جہاد ہی وہ طاقت ہے جس کی بناء پر جو دنیا کا نقشہ ہمارے اسلاف نے تبدیل کیا اور دنیا کے سب سے بڑے رقبے پر اللہ سبحان و تعالی کا دین قائم کیا تها. مگر افسوس کے تہزیب نا سپاس اور مسلمانوں کے روپ میں ان کے پیروکاروں نے اس طاقت سے بهی ہمیں دور کردیا ہے.

مسلمان آج جہاد کا نام لینے سے بهی ڈرتے ہیں جیسے ہی جهاد کا نام لیا جاتا ہے کچه دہشت گردوں کا تصور ہمارے زہنوں میں آجاتا اور جهاد کو دہشت گردی سے تشبیہ دینے میں مغرب نے جس کمال سے پروپیگنڈہ کیا ہے ان کے عمل واقعی قابل داد ہے کے اپنے باطل نظریہ کو غالب کرنے کیلئے وہ پوری ایمانداری سے مصروف العمل ہیں.
تیسرا حملہ مسلمانوں کے خاندانی نظام پر ہے.کبهی ویلنٹاءن جیسے خرافات کی کوشسیں کبهی خاندانی منصوبہ بندی کا ریاستی و معاشرتی دبائو کبهی میڈیا کی شیطانی یلغار کہیں موباءل کمپنیوں کے فری پیکجز کبهی حقوق نسواں کبهی عورت کی آزادی کی آڑ میں فحاشی کا فروغ اور کبهی ویمن پروٹیکشن بل کے انتہائی خوبصورت پیکج میں ملفوف، ہر بار ٹارگٹ مسمانوں کو وہ انتہائی مظبوط خاندانی نظام ہے.

یہ مغربی اندهے ہماری آنکهیں بهی ضائع کرنا چا ہتے ہیں اور ہم پہ اپنا بوائے فرینڈ گرل فرینڈ کلچر نافظ کرنا چاہتے ہیں جو کہ یقینا" خاندانی نظام کیلئے زہر قاتل ہے. اس امر میں ہمارے میڈیا کا کردار یقینا" مجرمانہ ہے اور اسے لگام دینے کی اشد ضرورت ہے مگر افسوس اس میڈیا کی باگ ڈور تو انہی طاغوطی آقاءوں کے ہاتھ میں ہے.غرض کہ تمام کمزوریوں کی جو واحد وجہ ہے وہ مسلمانوں کا اپنے اجتماعی نظام کو ترک کرنا ہے اور دین محمدی (ص) کے حقیقی تصور سے خود کو دور کرنا ہے. آج مسلمانوں کے انفرادی دائروں میں تو ہمیں پهر بهی اسلام کی بہتر شکل نظر آتی ہے.

ہمارے معاشرے کا ایک قابل زکر طبقہ انفرادی زمہ داریوں میں مثئلا نماز روزہ حج زکوۃ کی ادئیگی میں قابل قدر نظر آتا ہے مگر اسلام کا جو اجتماعی تصور ہے جس نے مسلمانوں کے حال اور مستقبل کا تعین کرنا ہے وہاں ہم مسلمانوں نے اللہ سبحان و تعالی سے کهلی بغاوت کا اعلان کر رکها ہے اور اپنے اجتماعی معاملات اللہ تعالی کے باغیوں کو جن کی بغاوت کهل کر ایاں ہے انہیں راضی برضا سونپ رکهے ہیں. ہم مسجد میں تو خدا وند کریم کی اطاعت پر راضی ہیں مگر مسجد سے باہر ہمارے الہ اور ہیں گویا مسجد میں کسی اور خدا کی پرستش اور مسجد سے باہر کسی اور رب کی اطاعت.

اب اگر ہم مسلمانوں کا سنہری دور دیکهیں جس میں لوگ زکوۃ لے کر نکلتے مگر مستحق زکوۃ کوئی نا ملتا. جس دور میں انسانوں کے حقوق کی بنیادیں رکهی گئیں. عورتوں کو وراثت میں شریک بنا یا گیا. میرٹ کی بالا دستی کا یہ عالم کے غلاموں کو سردار بنایا گیا. احتساب کا یہ عالم کے بدو امیر وقت کا احتساب کرے. احساس گناہ اتنا شدید کے کسی سے غلطی ہو بهی جائے اور کوئی نا بهی دیکهے تو خود کو سزا کیلئے پیش کردے. عدل کا وہ عروج کے حاکم وقت اور اشرافیہ بهی نا انصافی کا تصور نہ کریں. جی ہاں وہ معاشرہ جس میں انفرادی اور اجتماعی دونوں اسلام اپنے پورے کردار کے ساتهہ نافظ تها اور بنیادی وجہ صرف ایک تهی کے ہمارے اسلاف جس خدا کی عبادت مسجدوں میں کیا کرتے تهے.

اسی خدا کی اطاعت مسجد سے باہر اپنے تمام انفرادی اور اجتماعی معاملات میں بهی کیا کرتے تهے اور انہوں نے اپنے اجتماعی معاملات کا سر پرست عبداللہ بن عبعی جیسے خدا کے باغی نہیں بلکہ اللہ کے رسول ﷺاور ان کے پیروکاروں کو بنایا تها.آج ہم مسلمان پهر اپنی طاقت پوری عزت کے ساتهہ بہال کر سکتے ہیں اور وہ تمام تدابیر جن سے اسلام دشمنوں نے مسلمانوں کو دور کرکے ہمیں کمزور کیا ہے اگر رسول ﷺاور خلفاء کی سنت کی حقیقی پیروی اور اللہ کے باغیوں کے بجائے اپنے اجتماعی معاملات کا سر پرست اس کے رسولﷺ کے پیروکاروں کو بنائیں تو یقینا' اللہ سبحان و تعالی کی نصرت ہم سے کوئی نہیں چهین سکتا اور ہم مسلمان ایک بار پهر دنیا کی امامت اللہ کے ان با غیوں سے چهین کر ویسا ہی اسلاف کا مثالی معاشرہ قائم کرسکتے ہیں.