ہوم << محسن کُش : خالد ایم خان

محسن کُش : خالد ایم خان

کیا مستقبل کی تاریخ کے حوالوں میں ہمیں احسان فراموش کا نام سے یاد کیا جائے گا ،کیوں کے ہم بنیادی طور پر بے حس اور محسن کُش واقع ہوئے ہیں ہماری تاریخ بھری پڑی ہے ہماری بے حسی کے اور احسان فراموشی کے کارناموں سے جس نے جب کبھی خلوص نیت کے ساتھ ہمارے اوپر احسانات کی بارش کی ہم نے اجتماعی طور پر سب سے پہلے اُسی کی تکذیب کی بجائے اس کے کہ یہ قوم اُس شخص کی احسان مند ہوتی بلکہ اُس کے کئے تمام احسانات کو پس پشت ڈال کر اُس کی طرف سے ایسے اپنے رُخ مبارک موڑے کہ جیسے اس شخص نے ہم پراحسان کرکے کوئی بہت بڑا جرم کر دیا ہے جس کی سزا بحر حال اس کو بھگتنی ہی ہوگی ، اور کچھ ایسے افراد تو آج بھی ہمارے معاشرے کے اندر اپنے اس قوم پر کئے گئے احسانات کے جرم کی سزا بھگت رہے ہیں جس کا ذکر آگے چل کر کروں گا سب سے پہلے تو میں ذکر کرنا پسند کروں گا اس قوم کی اُس احسان فراموشی کا کہ جب بابائے قوم قائد آعظم محمد علی جناح صاحب کو سخت بیماری کی حالت میں جب کراچی منتقل کیا جا رہا تھا مسرور ائیر بیس پر طیارہ کی لینڈنگ کے بعد قائد آعظم محمد علی جناح صاحب کے اسٹریچر کو ایک خستہ حال ایمبولینس میںمنتقل کرکے اُن کی رہاش گاہ کی طرف لے جایا جانا تھا لیکن ماری پور کے علاقے میں وہ ایمبولینس خراب ہو گئی،جناب قائد آعظم صاحب روڈ پر بیماری کی حالت میں ایک ایمولینس کے انتظار میں پڑے رہے ایک گھنٹے تک سڑک پر گاڑیوں ،ٹرکوں اور بسوں پر گذرنے والے لوگوں کو بھی شائد معلوم نہ تھا کہ سڑک کنارے کھڑی اس خراب ایمبولینس میں اس ملک کا موجودہ گورنر جنرل اور اس ملک کا بانی حالت مرگ میں موجود ہے ، ایک گھنٹے کے بعد دوسری ایمبولینس آئی اور جناح صاحب کو ان کی رہاش گا ہ طیارے کی لینڈنگ کے تقربا پورے دو گھنٹے کے بعد پہنچایا جا سکا جہاں پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد 11ستمبر1948ء؁ کو محترم جناب قائد آعظم محمد علی جناح صاحب اس دار فانی سے کوچ کرگئے -
یہ تو آپ لوگوں کے لئے ایک چھوٹی سی اسٹوری ہوگی لیکن میرے لئے ناقابل یقین منظر نامہ ، ملت کا پاسباں محمد علی جناح ، رہبر قوم ، عظیم لیڈر ، قائد آعظم ، ملک کا حاظر گورنر جنرل کن نامساعد حالات کا سامنا کرتے ہوئے گذر گئے ، کیا وجوہات تھیں اُس وقت ملک کی انتظایہ کو کہ اُن کے ملک کا ایک عظیم لیڈر بیماری کی حالت میں دنیا سے پردہ پوشی اختیار کرکے زیارت کے گیسٹ ہاؤس میں تین چار ماہ تک خود کو دنیا سے الگ تھلگ کر لیتے ہیں ،کیوں اُس وقت کے اکابرین نے محترم قائد کو علاج کروانے کے لئے قائل نہیں کیا جہاں آج اُنہی کے بنائے ملک کا ایک وزیر آعظم اپنا معمولی چیک اپ کروانے کے لئے بھی لندن یاترا ضروری سمجھتا ہے ، کیوں تنہا چھوڑ دیا گیا تھا جناب قائد محترم کو کیا کبھی کسی نے اس پر بات کرنا بھی ضروری سمجھا ،نہیں کبھی نہیں کیوں کہ ہمیں تو بس پکا پکایا کھانا چاہئے، پکانے والے کا ہم کیوں سوچیں ،ہم کیوں اپنا وقت برباد کریں ،یہ محنت کیا کم ہے کہ ہم اپنا منہ چلا کر اس کھانے کو کھانے میں مصروف عمل ہیں بس کھائے ہی چلے جارہے ہیں ،پیٹ پھٹنے کو ہیں لیکن ہم کھائے ہی چلے جا رہے ہیں ،ہماری ہوس ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہی جتنا کھاتے چلے جارہے ہیں بھوک بھی مزید بڑ ھتی چلی جا رہی ہے، اس بھوک نے ہمیں آہستہ آہستہ خون آشام درندہ بنا دیا ہے اب ہم اپنے ہی لوگوں کا خون پینے سے بھی دریغ نہیں کرتے ،کھوتے ،کُتے تو ہم پہلے ہی کھا چکے ہیںبس کمی تھی تو صرف حضرت انسان کی جس کا گوشت بھی اب ہم نوچ نوچ کر کھا رہے ہیں ،ہم لوگ مردار خور ہو چکے ہیں ،حرام خور ہو چکے ہیں ، اپنے چہروں پر معصومیت کا خول چڑھائے اندر سے شیطان کے بھی باپ ہیں ہم ،ہمیں فطرتا کمینہ بنا دیا گیا ہے ،شروع دن ہی سے ہمیں احسان فراموشی کا سبق پڑھایا گیا ہے ،ہم سب سے پہلے گلا اُسی کا کاٹتے ہیں جس نے ہم پر احسانات کئے ہوتے ہیں -
اگر نہیں یقین تو اُٹھا کر دیکھ لیں اپنی تاریخ کہ ستر سالوں میں ہم نے کیا کیا اپنے محسنوں کے ساتھ کس کس انداز میں استحصال کیا ہم لوگوں نے اپنے محسنوں کا ، جنہوں نے اپنا سب کچھ تیاگ کر اس ملک اور قوم کی بھلائی کے لئے اپنے دن اور رات وقف کردئے ہم نے کیا کیا اُن کے ساتھ ،کیا کمی تھی ڈاکٹر عبالقدیر خان کو ہالینڈ میں ، زن ، زمیں اور زر کے ساتھ ساتھ شہرت کے انبار لگا دئے تھے ہالینڈ کی حکومت نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے آگے پھر کیا ضرورت آن پڑی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو ان تمام مال ودولت کے انباروں کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے پاکستان آگئے وجہ تھی اور وہ وجہ بھی ایسی ہے کہ شرم سے میرا سر جُھک جاتا ہے ، دنیا میں پاکستان کی سر بلندی ، اسلام کی سر بلندی ،بڑے بڑے دیگر ایسے اصحاب بھی پاکستان کی تاریخ میں ضرور ملیں گے کہ جنہوں نے اس ملک اور قوم کی سر بلندی کے لئے اپنی جانوں کے نذرانے پیش کئے لیکن میں بلا مبالغہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو جناب قائد آعظم محمد علی جناح کے بعد دوسرے نمبر پر رکھتا ہوں ایک نے اس ملک کو تشخص دیا اور دوسرے نے اس کے نام کو دنیا کے اندر سر بلند کیا ، جس نے اپنا دن اور رات ایک کر دیا ،جس کی کاوشوں اور انتھک محنت نے اس ملک کو دنیا کے اندر پہلی اسلامی ایٹمی طاقت اور غیر متنازعہ ایٹمی طاقت بنا دیا ، جس نے ہنود ویہود ونصاری کے تن بدن میں آگ لگا دی تھی اُسی دن ہی سے دنیائے اسلام کے یہ تینوں بدترین دشمن ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے پیچھے لگ گئے تھے اور مناسب موقع کی تلاش میں تھے جو کہ جنرل پرویز مشرف نے اُن کو فراہم کر دیا ،لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیوں ؟ کیا پُر خاش تھی جنرل مشرف کو ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے ؟ کہ جس کو بنیاد بنا کرجنرل مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان جیسے پاکستان کے مایہ ناز سپوت کو ،پاکستان کے اس قومی ہیرو کو ، پاکستان کے اس دنیا کے نامور ترین ایٹمی سائنس دان کو دنیا کے اندر بدنام کر دیا ، آخر ایسا کونسا بین الاقوامی دباؤ تھا اُس وقت کے ملک کے صدر جنرل پرویز مشرف کے اوپر کہ خود ملک کا صدر دنیا کو بتاتا پھر رہا تھا کہ ہمارا ایٹمی سائنسدان دنیا کو ایٹمی ٹیکنالوجی چوری چھپے فروخت کر رہا ہے ، اس لئے ہم نے اُس پر پابندیاں لگا کر قید کردیا ہے ،امریکہ نے تو کبھی اپنے کسی ایٹمی سائنسدان پر پابندیاں لگا کر قید نہیں کیا کیوں کہ وہ دودھ کے دُھلے ہیں ،اسرائیلی سائنسدانوں کو ایٹمی ٹیکنالوجی رات سوتے خوب میں مل گئی تھی امریکی سائنسدانوں کا اُس میں کوئی کمال نہیں تھا -
اسی طرح دنیا کے دیگر ملکوں کے ایٹمی سائنسدان بھی دودھ کے دُھلے ہیں وہ جو چاہے کرتے رہیں وہ ٹھیک ہے لیکن دنیا کے اندر غلط تھا تو صرف ڈاکٹر عبدالقدیر خان غلظ تھا کیوں کہ اُس کی سب سے بڑی اور بھاری غلطی یہی تھی کہ اُس نے پاکستان جیسے ایک غریب اسلامی ملک کو دنیا میں ایک عالمی طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا تھا ،جس کی سزا تو اُسے ملنی ہی چاہئے تھی جو وہ غریب آج تک بھگت رہا ہے دوسری طرف کمال ہوشیاری سے جنرل مشرف نے دنیا کے استعماری ٹولے کے کہنے پر پاکستانیوں کا ایسا برین واش کیا کہ سب کو یقین ہو گیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے بڑا پاکستان کا مجرم کوئی اور نہیں ، ہیرو ایک دم زیرہ ہو گیا ،آج کہاں گئی وہ دولت جو ڈاکٹر قدیر خان نے کمائی تھی جو شخص آج قربانی جیسے فریضے کی انجام دہی سے محروم ہے پڑوسیوں کے ہاں سے آنے والے گوشت پر گزارا کرکے صبر وشکر بجا لاتا ہے اور سوچتا ہے کہ جو اللہ کی مرضی ، سوچیں جس شخص نے اس قوم کے لئے اپنی ساری زندگی وقف کردی جس کے احسانات کا بدلہ ہم نے اس طرح ادا کیا کہ شائد مستقبل میں کوئی بھی دوسرا ایسا شخص سو مرتبہ سوچے گا کہ اس محسن کُش قوم کی خاطر اپنا سب کچھ قربان کروں تو کیوں ۔
میں ہمیشہ ہی سے کہتا چلا آیا ہوں کہ سچائی ہی میں جیت ہے سچ اور حق کبھی بھی چھپتا نہیں اور حق کہنے سے کبھی روگردانی مت کریں کیوں کہ جو قومیں حق گوئی سے محروم ہو جاتیں ہیں وہ آہستہ آہستہ تباہی کی جانب گامزن ہو جاتیں ہیں ،جھوٹ کا پُل کچھ ہی دیر قائم رہ پاتا ہے پھر ایک نہ ایک دن دریا برد ہو جاتا ہے دریا کی موجیں بہا کر لے جاتی ہیں جھوٹ کے سارے ملبے کو مجھے یاد آرہا ہے منگلا ڈیم جہاں کے کور کمانڈر جنرل مشرف تھے اور اُسی منگلا ڈیم کے پاس کی لوکیشن سیٹ کی تھی ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے غوری میزائل کے تجربہ کے لئے پرمیشن کے حصول کے بعد جس دن منگلا کور کے علاقے میں تجربہ کیا جانا تھا ڈاکٹر عبدالقدیر خان دیگر اہلکاروں کے ساتھ سائیٹ پر موجود تھے تو اُس وقت کے کور کمانڈر منگلا جنرل مشرف صاحب کچھ نابگتہ حالت میں وہاں تشریف لائے جس پر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے سخت الفاظ استعمال کئے اور کہا کہ آپ کو اس حالت میں سائیٹ پر نہیں آنا چاہئے تھا آج ہم ایک اہم قومی سنگ میل حاصل کرنے جارہے ہیں اور آپ اپنی حالت دیکھئے ، جس پر کور کمانڈر منگلا مشرف صاحب کو بڑی سُبکی برداشت کرنا پڑی تھی، کیا جنرل مشرف نے برسر اقتدار آنے کے بعد اپنا وہی غصہ نکالا ڈاکٹرعبدالقدیر خان پر کیا اُس وقت کے ملکی صدر نے ذاتی عناد کی خاطر ملک اور قوم کی ساری المیت کو داؤ پر لگا دیا ،اور اگر نہیں تو پھر قوم کو بتایا جائے کہ آخر کیوں یہود وہنود ونصاری کے کہنے پر ڈاکٹر عبدالقدیر جیسے قوم کے ہیرو کو قربانی کا بکرا بنایا گیا ، کیوں ہم نے اپنے ہی محسن کی کمر میں خنجر گھونپ دیا کیوں ہم محسن کُش بن گئے کیا تاریخ ہمیں محسن کُش کے الفاذوں سے یاد کرے گی ،کیوں کہ ہم محسن کُش ہیں ۔۔۔۔

Comments

Click here to post a comment