ہوم << میں نے جلد ہی مر جانا ہے - نیر تاباں

میں نے جلد ہی مر جانا ہے - نیر تاباں

چند سال پہلے کوئی بیماری شروع ہوئی، مزید ٹیسٹ ہوئے اور ایک دن ڈاکٹر کا فون آیا ”آپ کے لیے ایک بری خبر ہے۔“ مجھے کینسر ہوگیا تھا۔ اتنی سی عمر اور اتنی بڑی بیماری! مجھے رہ رہ کر اپنی بیٹیوں کا خیال آ رہا تھا، اپنے شوہر کا، امی ابو کا، اپنا! پوری کوشش تھی کہ کہیں زبان سے یہ نہ نکل جائے کہ آخر میں ہی کیوں؟ میں ہی کیوں؟! یا اللہ! میری زبان سے کوئی شکوہ نہ نکلنے دینا۔ مجھے اپنی رضا میں راضی رکھنا۔
کیموتھراپی ہوئی اور تکلیف شدید سے شدید تر ہونے کے بعد آہستہ آہستہ کم ہونے لگی، طبیعت سنبھلنے لگی۔ کچھ ماہ میں میں مکمل طور پر صحتیاب ہوگئی لیکن تین سال کے مختصر عرصے میں ہی دوبارہ اسی ساری تکلیف سے گزرنا پڑا۔ لیکن اس بار میں ذہنی طور پر تیار تھی۔ جب ڈاکٹر نے اس بار مجھے بتایا تو آنسو تو بہے لیکن ساتھ ہی یہ بھی زبان سے نکلا کہ یہی اللہ کی مرضی ہے۔ الحمد لہ علی کل حال!
مجھے ایسا لگتا ہے کہ یہ بیماری اللہ کا ایک خاص کرم ہے مجھ پر! مرنا تو ہم سبھی نے ہے لیکن کینسر جیسے بیماری مجھے بھولنے نہیں دیتی کہ میں نے جلد ہی مر جانا ہے۔ میں تیار بھی ہوتی ہوں، گھومتی پھرتی بھی ہوں، سبھی دنیاوی کام کرتی ہوں، لیکن دنیا میں اب دل نہیں لگتا۔ مجھے احساس رہتا ہے کہ میں نے مر جانا ہے۔ دنیا میں رہتے ہوئے بھی فوکس موت پر ہی رہتا ہے۔ ہر دم کوشش رہتی ہے کہ کہیں کسی کا دل نہ دکھا دوں، کسی کی غیبت نہ کر بیٹھوں، اسراف کر کے رب کو ناراض نہ کروں، پیسہ جمع کر کے غریب کا حق نہ ماروں۔ یہ بیماری میرے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔"
تیس بتیس سال کی وہ جواں سال لڑکی، دو بیٹیوں کی ماں مجھے اپنی سرگزشت سنا رہی ہے۔ میرے کان اس کی باتیں سن رہے ہیں اور ذہن سوچنے پر مجبور ہے کہ جو اللہ کے شکر گزار بندے ہیں، وہ ہر حال میں شکر کا کوئی بہانہ ڈھونڈ ہی لیں گے، اور جنھیں شکوے شکایتیں کرنی ہیں، وہ ہزار نعمتوں کے باوجود کوئی نہ کوئی رونا روتے ہی رہیں گے۔

ٹیگز