ہوم << علماء کی نگرانی میں ٹی وی چینل کا قیام ضروری - صائمہ سلیم

علماء کی نگرانی میں ٹی وی چینل کا قیام ضروری - صائمہ سلیم

حق و باطل کی موجودہ کشمکش میں اہل حق کے دفاع کےلیے مستند علمائے کرام کی نگرانی میں ٹی وی چینل کا قیام ناگزیر ہوگیا ہے، اس کے جواز یا عدم جواز کے بارے میں علمی بحث کرنا علماء و فقہاء کا کا م ہے، ہم تو بس اپنی ناقص رائے کا اظہار کرسکتے ہیں۔
ایک زمانہ تھا جب لاؤڈ اسپیکر کے استعمال کے بارے میں بھی علمائے کرام تذبذب کا شکار تھے، بعض کے نزدیک اس کا استعمال ناجائز تھا مگر رفتہ رفتہ اسے ابلاغ کا جدید ذریعہ اور سہولت کے طور پر قبول کرلیا گیا، ایسی ہی بحث ٹی وی چینل کے حوالے سے جاری ہے۔
میرے ناقص علم کے مطابق تصویر کی حرمت کے پیچھے جو حکمت کارفرما ہے، وہ یہ کہ تصویر کےذریعے بت پرستی کی ابتداء ہوئی اور یہ کہ غیر مہذب اور ناشائستہ تصویر سازی کے ذریعے فحاشی پھیلائی جاتی ہے، تو عرض یہ ہے کہ یہ دونوں مقاصد تو ہر طرح کی تصاویر و ویڈیو سے حاصل کیے جا سکتے ہیں، چاہے وہ عکس کی صورت ہو یا حقیقی تصویر، سو عکس اورحقیقی تصویر کی بحث سے قطع نظر یہ بات دل کو لگتی ہے کہ جو کام حقیقی زندگی میں ناجائز و حرام سمجھتے ہیں وہ تصویر یا ویڈیو میں بھی حرام ہی سمجھی جائے گی مثلاً ایک خاتون حقیقی زندگی میں پردہ کرتی ہیں اور غیر محارم کے سامنے بے حجاب نہیں آتی، بلکہ باپردہ ہوکر سامنا کرتی ہے تو تصاویر یا ویڈیو میں بھی عورت کو اپنے پردے کا اسی طرح خیال رکھنا چاہیے، ایسا نہ ہو کہ علماء نے عکسی تصویر کی اجازت دی ہے، جیسےمرضی کسی بھی حلیے میں تصویر بناتی رہے کہ بعد میں ڈیلیٹ کردیں گے۔ یہ مناسب طرزعمل نہیں۔ بالکل اسی طرح اگر ٹی وی چینل کا قیام عمل میں آیا تو اسی اصول کو نافذ کرنا ہوگا کہ جن مناظر کا اظہار ہم حقیقی زندگی میں جائزنہیں سمجھتے، وہ چینل میں بھی نہ دکھائے جائیں‌. مختصر یہ کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں اصول و ضوابط طے کر کے ہم اپنا ہدف باآسانی حاصل کرسکتے ہیں۔
آج کے حالات اہل فکر و دانش کی نظر سے پوشیدہ نہیں، اپنی نسلوں کو بے راہروی و بے دینی سے بچانے کےلیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔ تحقیق سے یہ بات ثابت ہے کہ انسانی دماغ صرف آڈیو کے مقابلے میں آڈیو ویڈیو کا اثر زیادہ لیتا ہے اور حافظے میں بات تادیرمحفوظ رہتی ہے۔ عوام الناس تک رسائی کا یہی سب سے مؤثر ذریعہ ہے کیونکہ ہم بخوبی واقف ہیں کہ کل آبادی میں سے بہت معمولی تعداد میں لوگ اہل اللہ کی بات پڑھتے یا سنتے ہیں جبکہ ٹی وی تقریباً ہر گھر میں موجود ہے، لوگ اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ ٹی وی چھوڑنا ان کے لیےمحال ہوگیا ہےاور لوگوں نے اپنا دل و دماغ اس کے حوالے کردیا ہے، اسی کے تابع ہو زندگی گزارتے ہیں۔ کسی بات کا ٹی وی سے نشر ہوجانا ہی ان کے نزدیک اس کے مستند ہونے کے لیے کافی ہے تو اس طبقے تک رسائی حاصل کرنے کے لیے ٹی وی چینل کا قیام ناگزیر ہے ورنہ اس بے حیائی، فحاشی اور بے دینی کے سیلاب میں ایک بڑی تعداد بہہ جائے گی۔ کون ہوگا اس کا ذمہ دار .....؟
طلب والوں تک دین پہنچانا تو بہت آسان ہے، اصل گھاٹی تو بےطلبوں تک پہنچانا، سوئے ہووں کو جگانا ہے۔ تو پھر کون ہے اس گھاٹی کو عبور کرنے والا ....؟
کم از کم پہنچا دینا تو اہل علم کی ذمہ داری ہے، عمل میں کھڑا کرنا رب العالمین کا کام ہے.
ہم سب واقف ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دین کی دعوت و تبلیغ اور نشر و اشاعت کے لیے اس زمانہ میں موجود تمام وسائل کا استعمال کیا مثلاً بادشاہوں کو خطوط لکھ کر دعوت پہنچائی تو صحابہ کرام ؓ کو حکم دیا کہ وہ عبرانی زبان سیکھیں تاکہ دیگر اقوام تک اللہ کا پیغام پہنچایا جا سکے.
چند سال قبل مولانا اسلم شیخوپوری شہید رحمہ اللہ نے اس مؤقف کی تائید کی تھی مگر تا حال عملی طور پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی وجہ یقیناً یہی ہے کہ اس حوالے سے تمام علمائے کرام ایک موقف پر نہیں ہے، اللہ کرے جلد از جلد اس معاملے کا کوئی بہترین حل برآمد ہوجائے ۔۔

Comments

Click here to post a comment