شام سے ایک ہی سوال دریچہ دل پر دستک دے رہا ہے، کیا عمران خان ناکام ہوئے؟ پانامہ لیکس پر عمران خان کی ساری جدوجہد کا حاصل کیا ہے؟ وہ کامیاب ہوئے یا بری طرح ناکام؟ عمران خان کو میں نے کبھی’گنجائش‘ نہیں دی بلکہ بعض اوقات تو کچھ زیادہ ہی شدت سے میں نے انہیں تنقید کا نشانہ بنایا ہے لیکن جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے، میری رائے میں وہ اپنی جدوجہد کے باب میں کامیاب اور سرخرو ہیں۔ اور یہ کامیابی اتنی غیر معمولی ہے کہ وہ مبارک کے مستحق بھی ہیں۔ ایک ایسے عالم میں جب ان کے تازہ فیصلے پر طنز و تشنیع کے تیر برسائے جا رہے ہیں، اپنے اس ناقد کی جانب سے وہ مبارک قبول فرمائیں۔
عمران خان کی کامیابی کیا ہے؟ میں عرض کر دیتا ہوں۔
1۔ ان کی پہلی کامیابی یہ ہے کہ نظام کی خرابیوں کے خلاف انہوں نے عوام میں جو شعور پیدا کیا اسے آخری مرحلے میں اداروں کی مضبوطی کے قالب ڈھال دیا۔ ایسا نہیں کیا کہ لوگوں کو نظام سے متنفر کر کے کسی انتہا کی طرف دھکیل دیا ہو۔ انقلابی تصورات کے حامل گروہ بالعموم اسی انتہاء کا شکار ہو جاتے ہیں اور بغاوت پر اتر آتے ہیں یا پھر وہ اپنے تصورات کی ایک الگ دنیا آباد کر کے اس میں یوں بسیرا کرتے ہیں کہ معاشرے کے لیے اجنبی ہو جاتے ہیں۔ عمران اس نظام کو چیلنج بھی کر رہا ہے لیکن ان دونوں انتہاؤں سے بھی اپنے وابستگان کو بچا رہا ہے۔ وہ نظام کی خرابیوں کو للکار رہا ہے لیکن اس کی یہ للکار کسی انارکی کی شکل اختیار کرنے کے بجائے سپریم کورٹ کی بات مان کر اداروں کی طاقت میں اضافہ کر رہی ہے۔ وہ نظام کی خرابیوں کا خاتمہ چاہتا ہے لیکن کسی غیر فطری طریقے سے نہیں بلکہ ایک آئینی طریقے سے اور اداروں کو مضبوط کر کے۔ اس توازن کو قائم رکھنا کیا یہ معمولی کامیابی ہے۔
2۔ بعض ناقدین کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ عمران نے حاصل کیا کیا؟ یہ سب کچھ تو وزیر اعظم پہلے ہی آفر کر رہے تھے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ ٹی او آرز پر حکومت مان کر نہیں دے رہی تھی۔ اسے اپنے ٹی او آرز پر اصرار تھا۔ اس نے معاملہ سپریم کورٹ کو بھیجا تو ٹھوس اعتراضات کے ساتھ عدالت نے واپس بھجوا دیا۔ ایسے میں بات آگے کیسے بڑھتی۔اس وقت سپریم کورٹ کہہ چکی ہے کہ ٹی او آرز وہ خود بھی بنا سکتی ہے۔ میں نے دو ہفتے قبل عمران خان سے سوال کیا کہ حکومت آپ کا وہ کون سا مطالبہ مان لے تو آپ اسلام آباد دھرنا منسوخ کر سکتے ہیں۔ ان کا جواب تھا ’’حکومت ا پنے ٹی او آرز پر اصرار نہ کرے، اپوزیشن کے ٹی او آرز مان لے تو دھرنا منسوخ کیا جا سکتا ہے‘‘۔ اس وقت جب دھرنا منسوخ ہوا ہے عملا یہی صورت حال ہے کہ اب معاملہ حکومتی ٹی او آرز کے تحت نہیں دیکھا جائے گا۔ کیا یہ عمران خان کی کامیابی نہیں ہے؟
3۔ عمران خان نے یہ بھی ثابت کر دیا کہ اس کا مقصد تصادم یا لاشے گرا کر جمہوریت کا بستر گول کرنا نہیں بلکہ احتساب کی ایک بامعنی صورت گری ہے۔ انا کا قیدی بن جاتا تو تصادم کرانا اس کے لیے مشکل نہ تھا کہ ہر رہنما اپنے حصے کے بےوقوف ساتھ لے کر پیدا ہوتا ہے لیکن عمران نے دھرنا منسوخ کر کے بتا دیا کہ وہ یہ سب نواز شریف کی نفرت میں نہیں بلکہ بامعنی احتساب کے لیے کر رہا ہے۔ اب احتساب کی ایک صورت نظر آنا شروع ہو گئی ہے۔ اگرچہ اس میں بہت سے قانونی اور فنی مسائل ہیں لیکن بہرحال ایک سمت میں سفر شروع ہو گیا ہے اور قوموں کی زندگی میں تبدیلی دھیرے دھیرے ارتقاء سے آتی ہے، کسی راتوں رات آنے والے انقلاب سے نہیں۔ یہ سفر کبھی بار آور ثابت ہوا تو عمران خان کا شمار اس کے اولین نقوش میں ہو گا۔
احتساب کا جو سفر اب شروع ہوا ہے، یہ اگر سست روی کا شکار ہو جاتا ہے تو کٹہرے میں قاضی ہوگا، عمران خان نہیں۔
عمران خان پر تنقید ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی، لیکن فی الوقت اسے دل کی گہرائیوں سے مبارک۔
ویل پلیڈ عمران خان۔ تم ہارے نہیں ہو، تمہارا سفر امید کا سفر ہے۔ تمہاری پہاڑ جیسی غلطیوں کے باوجود یہ سفر جاری رہنا چاہیے۔
تبصرہ لکھیے