ہوم << شربت بی بی سے شربت قیدی تک-سلیم صافی

شربت بی بی سے شربت قیدی تک-سلیم صافی

saleem safi
اسی کی دہائی کا تذکرہ ہے کہ جب جنرل محمد ضیاالحق کی قیادت میں پوری پاکستانی ریاست افغانوں کو ترغیب دے رہی تھی کہ وہ سوویت یونین کے خلاف بندوق اٹھائیںاور اپنے گھر کو چھوڑ کر پاکستان کے کیمپوں میں تشریف لے آئیں ۔تب پولیس کے ساتھ ساتھ جماعت اسلامی کے کارکن بھی مہاجر کیمپوں کے باہر اس نیت سے پہرہ دیا کرتے تھے کہ کوئی ان معزز مہمانوں کو نقصان نہ پہنچائے ۔ تب ہم پاکستانیوں کے لئے پستول کے لائسنس کا حصول ناممکنات میں سے تھا لیکن افغان مہاجرین اور مجاہدین کے ساتھ کلاشنکوفوں کے انبار لگے رہتے تھے ۔ ان کو پاکستان کے ان حساس مقامات اور علاقوں میں بھی وی آئی پی پروٹوکول ملتا تھا جہاں ہم پاکستانیوں کا داخلہ بھی حرام سمجھا جاتا ہے ۔ تب پاکستانیوں کے لئے امریکی اور یورپ جانا جوئے شیر لانے کے مترادف تھا لیکن افغان مہاجرین کو امریکہ اور برطانیہ کے ویزے ، مجاہدین لیڈروں کی سفارشی چٹ پر منٹوں میں جاری ہوتے تھے ۔ تب سعودی عرب سے لے مصر تک اور قطر سے لے کر چین تک ، من وسلویٰ کے جہاز بھرکرپاکستان لائے اور پھر پورے تزک و احتشام کے ساتھ ان معزز مہمانوں کی خدمت میں پیش کئے جاتے ۔ کئی جگہ پر پاکستانی پختونوں کی زمینوں پر ریاست نے جبراً قبضہ کرکے انہیں مہاجر کیمپوں میں تبدیل کیا اور یوں افغان مہاجر ہونا اتنا فائدہ مند اور معزز بن گیا تھا کہ ہزاروں پاکستانیوں نے بھی افغان مہاجر ین کے کارڈز اور افغانی پاسپورٹ بنالئے ۔ تب افغان مجاہدین امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے ہیرو تھے اورمغربی میڈیا ان مہاجرین کی کوریج کرکے انہیں کمیونزم کا مقابلہ کرنے کے لئے گھر بار چھوڑنے والے آزاد دنیا کے محسنوں کے طور پر پیش کررہا تھا۔
چنانچہ اسی تسلسل میں نیشنل جیوگرافک کے فوٹو گرافر اسٹیو میک کری (Stev McCurry) نے ایک مہاجر کیمپ میں نیلی اور حسین آنکھوں کی حامل ایک افغان بچی کی ایسی شانداراور پرکشش تصویر بنالی کہ وہ نیشنل جیوگرافک کے میگزین کے ٹائٹل پیج پر جگہ پاگئی ۔ حسین آنکھوںاور معصومیت کی وجہ سے وہ تصویر پوری دنیا میں مشہور ہوگئی اور اسے مونالیزا کی مشہور زمانہ پینٹنگ سے تشبیہ دی جانے لگی تاہم چونکہ وہ بچی ماڈل یا ایکٹر نہیں بلکہ ایک روایتی معصوم افغان بچی تھی ، اس لئے پوری دنیا میں شہرت پانے کے باوجود وہ اپنی تصویر کی شہرت کو کیش نہ کرسکی اور نہ پشاور یا پاکستان میں وہ بعد کے سالوں میں توجہ کا مرکز بنی ۔ نائن الیون کے بعد جب افغانستان اور اس کی وجہ سے پاکستان ایک بار پھر مغربی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنا تو نیشنل جیوگرافک کے اسی فوٹوگرافر کو خیال آیا کہ وہ پوری دنیا میں شہرت پانے والی اور خود ان کی وجہ شہرت بننے والی اس معصوم اور حسین آنکھوں والی افغان بچی کو تلاش کرلیں ۔ چنانچہ وہ ان کی تلاش میں پہلے افغانستان آئے اور پھر پاکستان ۔ بڑی کوششوں کے بعد انہیں معلوم ہوا کہ وہ بچی اب کئی بچوں کی ماں بن کر ایک عام مہاجر خاتون کی حیثیت میں پشاور کے ناصر باغ کیمپ میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے ۔
مقامی صحافیوں کے تعاون سے اسٹیو میک کری ان تک پہنچے اور اور انہیں برقع میں آنکھوں کی تصویر پر آمادہ کیا۔ اس تصویر کا یورپ کی لیبارٹریوں میں یہ جاننے کے لئے ٹیسٹ کرایا گیا کہ واقعی یہ وہی بچی ہے یا نہیں اورتصدیق ہوجانے کے بعد ان پر پوری ڈاکومینٹری تیار کرلی گئی ۔ اس ڈاکومینٹری کے ذریعے وہ ایک پھر عالمی شہرت حاصل کرنے لگی اور پتہ چلا کہ اس بچی کا اصل نام شربت گلہ ہے جو اس شہرت کے بعد شربت بی بی کے نام سے مشہور ہوئی۔ شربت بی بی اب ایک بار پھر عالمی ، پاکستانی اور افغانی میڈیا پر چھا گئی لیکن ظاہر ہے اس کی اپنی حالت نہ بدلی ۔ حالت بدلی تو یوں کہ گزشتہ چند سالوں سے دوسرے افغان مہاجرین کی طرح وہ بھی پاکستان کے لئے بوجھ بن گئی ۔ امریکہ ، ہندوستان اور بعض دوسرے ممالک کی شہہ پر افغان حکمرانوں نے پاکستان کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینا شروع کیا تو سزا ان معصوم اور مجبور افغان مہاجرین کو ملنے لگی ۔
افغان میڈیا پاکستان کے خلاف جو نفرت پھیلارہا ہے ، اس کے جواب میں پاکستانی میڈیا نے جو نفرت پھیلائی ، اس کا نشانہ یہی مہاجر بننے لگے ۔ پھر خیبر پختونخوا میں بعض حکمرانوں نے افغان مہاجر کیمپوں کی زمینوں پر قبضے کے لئے منصوبے بنائے ہیں ، اس لئے یہاں مہاجرین کے خلاف کچھ ضرورت سے زیادہ پھرتی دکھائی جارہی ہے ۔ انتہائی غلط وقت پر ، انتہائی غلط طریقے سے افغان مہاجرین کی پکڑ دھکڑ شروع کردی گئی لیکن ظاہر ہے کہ کسی جرم میں ملوث مہاجرین کی بجائے پہلی فرصت میں وہ مہاجرین نشانہ بننے لگے کہ جن کا ریکارڈ موجود تھا اور جو یہاں کاروبار کررہے تھے یا پھر اپنے گھر بنارکھے تھے ۔ دوسری طرف نادرا ، ایف آئی اے اور اسی نوع کے دیگر ادارے بھی حرکت میں آگئے چنانچہ پہلی فرصت میں شربت بی بی نشانہ بنی ۔ جعلی پاکستانی شناختی کارڈ رکھنے کے جرم میں پچھلے ہفتے ان کو گھر سے اٹھا کر پشاور جیل میں بند کردیا گیا ۔ اب ہے تو وہ ایک عام ، مجبور اور بے بس افغانی خاتون لیکن دوسری طرف پوری دنیا میں شہرت پاگئی ہے ۔ چنانچہ عالمی میڈیا میں ان کی گرفتاری کا غلغلہ بلند ہوا ۔ افغانی اور ہندوستانی میڈیا اسے پاکستان کے خلاف ایک چارج شیٹ کے طو رپر استعمال کرنے لگا۔ نیشنل جیوگرافک کے وہی فوٹوگرافر ان کے معاملے پر ایک اور فلم بنانے کے لئے پاکستان آرہے ہیں لیکن دوسری طرف خیبرپختونخوا کے حکمران اسلام آباد بند کروانے اور اسلام آباد کے حکمران ،اپنی حکومت بچانے میں مگن ہیں ۔
افغان سفیر ڈاکٹر عمر زاخیلوال پہلے دن سے کوششوں میں لگ گئے لیکن کوئی نتیجہ نہ نکلا۔ اس دوران مجھے یہ دردناک حقیقت بھی معلوم ہوئی کہ شربت بی بی کے میاں کچھ عرصہ قبل وفات پاگئے ہیں اور اس وقت وہ خود بھی ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں ۔ گزشتہ روز میں نے فون کرکے ڈی جی آئی ایس پی آر جنرل عاصم سلیم باجوہ صاحب سے درخواست کی کہ اگرچہ ان کا ڈومین نہیں لیکن انسانی ہمدردی کے ناطے وہ اس میں دلچسپی لیں اور انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ ایسا کریں گے ۔ میں خود بھی دکھی تھا کہ چوہدری نثار علی خان ، جو موجودہ حکومتی ٹیم میں انسانی اور اخلاقی حوالوں سے سب سے بہتر انسان سمجھے جاتے ہیں کیوں کر اس معاملے پر خاموش ہیں لیکن یہ جان کر مزید دکھ ہوا کہ اسلام آباد کھلا رکھنے کی کوششوں کی وجہ سے یہ معاملہ ان کے نوٹس میں ہی نہیں آسکا ۔ گزشتہ روز جب پریس کانفرنس میں یہ معاملہ ان کے نوٹس میں لایا گیا تو انہوں نے دکھ کا اظہار کرتے ہوئے یہ اعلان کیا کہ مکمل کیس وہ یوں ختم نہیں کرسکتے کہ جعلی سازی میں ملوث ان کے محکمے کے لوگ نہ بچ سکیں لیکن وہ فوری طور پر ان کی ضمانت کرادیں گے ۔
اتفاق کی بات ہے کہ جب چوہدری نثار علی خان یہ اعلان کررہے تھے تو میں محترم بھائی میجر عامر اورقیصر بٹ صاحب کے ساتھ شربت گلہ کا معاملہ ڈسکس کررہاتھا ۔ میں نے شربت گلہ کی بیماری کا بتایا تو میجر عامر صاحب نے ان کے علاج کی ذمہ داری بھی اٹھالی لیکن اب شربت گلہ کی جیل سے رہائی کا انتظار ہے ۔ مجھے امید ہے کہ قول کے پکے انسان کی شہرت رکھنے والے چوہدری نثار علی خان اپنا وعدہ پورا کرکے شربت بی بی کو رہا کردیں گے اور مجھے یقین ہے کہ میجر عامر صاحب کے ذریعے ان کا اور ان کے بچوں کے علاج معالجے کا بندوبست بھی ہوجائے گا لیکن سوال یہ ہے کہ پاکستان کی جو بدنامی ہوئی ، اس کو نیک نامی میں کون بدلے گا؟۔ ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ یہاں اسلام آباد میں دھرنوں کے ڈرامے بنا کر اور ٹی وی کیمروں کا رخ اس طرف کرکے شترمرخ کی طرح آنکھیں بند کرلیںتو کیا دنیا نے بھی آنکھیں بند کی ہوئی ہیں ۔ ہماری مشرقی اور مغربی سرحدوں پر جو کچھ ہونا ہے ، وہ ہورہا ہے ۔ جب ہم ڈراموں سے فارغ ہوکر اس طرف متوجہ ہوں گے تو لگ پتہ جائے گا کہ پلوں کے نیچے سے کتنا پانی بہہ گیا ہے اور وہ بھی پاکستان کے مخالف سمت میں