ہوم << مسلمانوں کے باہمی معاملات - اعزاز احمد کیانی

مسلمانوں کے باہمی معاملات - اعزاز احمد کیانی

اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے باہمی معاملات اور اقوام کے باہمی معاملات کے بارے میں قران مجید میں ایک اصول طے کر دیا ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اے ایمان والو اگر تمہیں کوئی فاسق کوئی خبر دے تو تم اس کی اچھی طرح تحقیق کر لو، ایسا نہ ہو کہ نادانی میں کسی قوم کو ایذا پہنچا دو، پھر اپنے کیے پر پشیمانی اٹھائو۔ سورہ حجرات ، آیت ۶۔
بسا اوقات معاشرے میں ایسا ہوتا ہے کہ دو افراد یا دو خاندانوں کے درمیان تعلقات نہایت اچھے اور خوشگوار ہوتے ہیں لیکن کسی تیسرے فرد یا طبقے کی جانب سے کسی ایک فریق یا فرد کی جانب سے ایسی بات مشہور کر دی جاتی ہے جس دونوں فریقوں میں غلط فہمیاں جنم لیتی ہیں اور ان غلط فہمیوں کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ دونوں فریقوں کی طویل رفاقت اور گہری ہم آہنگی میں شگاف پڑ جاتا ہے بلکہ دلوں میں بھی گہری دراڑیں پڑ جاتی ہیں اور یوں تعلقات منقطع ہو جاتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالیٰ مسلمانوں کے لیے یہ اصول بیان فرما رہا ہے کہ جب تمہارے پاس کوئی فرد کوئی خبر لے کر آئے اور خصوصا ایسا فرد جس کا کردار مشتبہ ہو یا جس کا فسق مشہور ہو تو کوئی جوابی کارروائی یا جوابی عمل کرنے سے پہلے خوب خوب تحقیق و تفتیش کر لو اور اس بات کا پورا اطمینان کر لو کہ جو بات تم تک پہنچائی گئی ہے یا پہنچائی جا رہی ہے. یہ واقعی اسی شخص نے کہی ہے یا محض اس شخص کی طرف منسوب کی جا رہی ہے۔ معاشرے کے عمومی مشاہدے اور تجزیے سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ رشتوں میں بگاڑ سنی سنائی باتوں اور من گھڑت واقعات کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔
یہاں ایک بات اور قابل غور ہے کہ بعض اوقات دو افراد یا دو خاندانوں کے درمیان کوئی تیسرا فرد بوجہ حسد یا عناد و عداوت کے، جان بوجھ کر کوئی ایسی بات مشہور کر سکتا ہے جس سے دونوں فریقین کے تعلقات خراب ہوتے ہوں، یا ایسا بھی ہو سکتا ہے کوئی فرد خبر تو صحیح دے رہا ہو لیکن سننے والے سے بات سننے یا سمجھنے میں غلطی ہو گئی ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ بات بیان کرنے والے سے ہی سننے یا سمجھنے میں غلطی ہو جائے لہذا ان تینوں متذکرہ بالا صورتوں میں باہمی معاملات خراب ہونے اور باقاعدہ دشمنی کے اسباب پیدا ہو جانا کچھ بعید نہیں ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کے لیے ایک واضح اصول بیان فرما دیا تاکہ مسلمان اس اصول کو اپنا کر باہمی انتشار اور رنجشوں سے نجات پا سکیں۔
اس اصول میں میڈیا اور صحافت کے لیے بھی خوب خوب راہنمائی ہے، یعنی یہ کہ میڈیا پر بھی لازم ہے کہ آزاد اور غیر مصدقہ ذرائع سے آنے والی خبروں کو مکمل تحقیق و تفتیش کے بعد شائع اور نشر کیا جائے، اس سے نہ صرف میڈیا ٹرائل، میڈیا وار اور ریٹنگ کی بےجا دوڑ کا خاتمہ ہوگا بلکہ اعلیٰ صحافتی اقدار اور غیر جانبداریت بھی برقرار رہ سکے گی جو کہ صحافت کی اصل شناخت ہے۔
یہ اصول جس طرح دو افراد یا دو خاندانوں کے باہمی معاملات میں سود مند ہے بالکل اسی طرح اقوام کے لیے بھی سود مند ہے کیونکہ افراد یا خاندان کے مابین غلط فہمی یا باہمی اختلاف کی نوعیت تو انفرادی سطح کی ہے لیکن ظاہر ہے کہ اقوام کے مابین اختلاف کی نوعیت بھی عالمی سطح کی ہے اور نقصان بھی بھاری ہے۔ لہذاقوام کے لیے بھی یہ ہدایت کی جا رہی ہے کہ جب تم کسی دوسری قوم کے بارے میں کوئی بات سنو یا کسی امر پر مطلع ہو تو کوئی بھی کاروائی کرنے سے پہلے اپنے معتبر ترین ذرائع سے پوری تحقیق کر لو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم اپنی لاعلمی یا بےخبری کی وجہ سے کوئی ایسی کارروائی کر بیٹھو جس پر تمہاری نسلوں کو بھی پچھتانا پڑے۔
مسلمانوں کے باہمی معاملات کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے دوسرا اصول یہ بیان کیا ہے کہ کسی قوم کی عداوت تمہیں خلاف عدل کام پر آمادہ نہ کر دے، عدل کیا کرو جو پرہیزگاری سے متصل ہے اور اللہ تعالیٰ سے ڈرو۔ سورہ مائدہ ۔
انسان جب کسی معاشرے میں رہتا ہے تو اس کا معاشرے کے دوسرے افراد اور طبقات سے تعلق قائم ہوتا ہے، اس تعلق میں نشیب و فراز بھی آتے ہیں اور کئی زیر و زبر باہمی معامالات پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ معاشرے میں ایک فرد یا طبقے کے دوسرے فرد یا طبقے سے ذاتی، نجی، خاندانی، سیاسی، علمی، نظری، فکری اور مسلکی اختلافات ہونا کوئی ماورائے عقل نہیں بلکہ عین ممکن اور فطری امر ہے۔ ان اختلافات کی بنیاد پر اکثر و عموماَ فریق اول فریق ثانی کی بات سننے اور برداشت کرنے تک کو تیار نہیں ہوتا اور اکثر اوقات یہ اختلافات مزید شدت اختیار کر لیتے ہیں ۔ بلکہ اب تو باہمی قرابت داریوں اور رشتے داریوں کے لیے بھی ہم خیال اور ہم مکتب ہونے کی شرائط رکھی جا رہی ہیں۔
حالات کی اس نزاع اور اختلافات کی اس نہج پر فریق اول باقاعدہ فریق ثانی کے نقائص اور خامیوں کا نہ صرف متلاشی ہوتا ہے بلکہ الزامات اور تنقید کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا، ایک فریق دوسرے فریق کی تعریف تو درکنار حق و سچ بات کو بھی تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہوتا۔ یہ فضا کسی بھی معاشرے کے لیے قطعا غیر موزوں اور مضر ہے لہذا اللہ تعالیٰ نے اس ضمن میں مسلمانوں کے لیے واضح احکامات جاری کر دیے۔
اس اصول میں دو بنیادی نکات ہیں، اول یہ کہ عمومی حالات میں انصاف و عدل کے تقاضے پورے کیے جائیں، تمام معاملات کمال نیک نیتی سے طے کیے جائیں اور کسی بھی طرح کی عداوت اور ذاتی وابستگی کو اپنے اوپر حاوی نہ ہونے دیا جائے۔ اور دوم یہ کہ اختلافات اور دشمنی میں بھی حق کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑاجائے، بلکہ حق بات کو پوری خوشدلی سے تسلیم کیا جائے اور باوجود دشمنی کے بھی عدل اور انصاف کی روایت اپنایا جائے۔ اس بات میں کوئی شبہ نہیں کہ ایک شخص کو اپنے مخالف شخص کے بارے میں اس طرح کا انداز اپنانے میں خاصی دشواری کا سامنا کر پڑ سکتا ہے لیکن ظاہر ہے کہ طبعیت کے رحجانات پر شریعت کے احکام تبدیل نہیں ہوا کرتے بلکہ اپنی طبعیت کو شریعت کے اصول پر رضامند کرنا پڑتا ہے چاہے خود پر جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔
جس طرح معاشرے کے مختلف افردا و طبقات میں باہمی اختلافات ہوتے ہیں، اسی طرح مختلف طبقات و افراد میں باہمی محبت و وابستگی بھی ہوتی ہے، یہ اگرچہ معاشرے کے لیے نہائیت مثبت پہلو ہے لیکن حد سے زیادہ اور اندھی محبت بعض اوقات ایک طرف دوسرے افراد کے خلاف دل میں حسد و عناد کو جنم دیتی ہے تو دوسری طرف شخصیت پرستی، عدام توازن اور مبالغہ آر ائی کو بھی فروغ دیتی ہے۔ مثلا کسی ایک شخص کی کسی دوسرے شخص سے گہری وابستگی ہے، اچھے مراسم ہیں یا کوئی شخص کسی دوسرے شخص کے ساتھ خاص علمی، نظری، قلبی یا سیاسی تعلق سے جڑا ہوا ہے تو عموما وہ شخص اول تو اس شخص کی تعریفوں میں بےجا مبالغہ کرتا، دوم اس کے خلاف کسی طرح کی بات سننے سمجھنے کو بلکل تیار نہیں ہوتا بلکہ باقاعدہ اس کی وکالت پہ اتر آتا ہے اور سوم اس سے اختلاف کرنے والوں سے بھی بلاوجہ کی عداوت مول لے لیتا ہے۔
کسی شخص یا طبقے کا کسی دوسرے شخص یا طبقے سے محبت اور کسی بھی طرح کا خاص تعلق یقینا معاشرتی زندگی کا ایک خوشگوار پہلو ہے لیکن یہ خوشگواری معاشرتی فضا کو اس وقت تک ہی معطر رکھتی ہے جب تک کہ اس فضا میں منفیت کی آلودگی شامل نہ ہو۔
اس سلسلے میں اسلام نے ایک اصول بیان کیا ہے جو نبی اکرمﷺ کی احادیث سے واضح ہوتا ہے ۔
صحیح بخاری میں امام بخاری حضرت ابوموسیٰ اشعری سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے سنا کہ ایک شخص کسی دوسرے کی تعریف کر رہا تھا اور مبالغہ سے کام لے رہا تھا. رسول اللہ ﷺ نے فرمایاکہ تم لوگوں نے اس شخص کو ہلاک کر دیا، اس کی پشت توڑ دی۔
صحیح بخاری ہی کی ایک دوسری حدیث ہے جو عبد الرحمٰن بن ابی بکرہ کے والد سے روایت ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اگر کسی کے لیے اپنے کسی بھائی کی تعریف کرنی ضروری ہو جائے تو یوں کہے کہ میں فلاں شخص کو ایسا سمجھتا ہوں، آگے اللہ خوب جانتا ہے، میں اللہ کے سامنے کسی کو بے عیب نہیں کہ سکتا، میں سمجھتا ہوں وہ ایسا ایسا ہے، اگر اس کا حال جانتا ہو۔
اگر ہم نے واقعی ملت کا مقدر سنوارنا ہے، قوم کی تقدیر بدلنی ہے اور معاشرے میں تعمیری کردار ادا کرنا ہے تو ہمیں اپنے رویوں کو بدلنا ہوگا، خود ساختہ معیارات کو بدلانا ہوگا، اپنے رسم و رواج پر اللہ کے سچے اصولوں کو ترجیع دینی ہوگی اور ہر شخص کو انفرادی طور پر اس کی ذمہ داری لینی ہوگی، تبھی ایک مضبوط معاشرے کا قیام، باہمی معاملات کی درستگی، اور ایک قوم اور ایک امت کا خواب حقیقی معنوں میں پورے ہوسکے گا۔

Comments

Click here to post a comment