رات کو ثمامہ کے چاچو کے گھر جانا ہوا !!!
پوری فیملی افسردہ تھی ۔ ٹی وی کے سامنے ایک ٹاک شو دیکھ رہی تھی۔ اینکر کے درد جگانے والے سوالات اور شرکاء کے چھبتے ہوئے جوابات نے ماحول کو رنجیدہ کیا ہوا تھا۔
کئی افراد کو تو باقاعدہ آنسو بہاتے دیکھا لیکن آبدیدہ تو ہر کوئی تھا۔ تھوڑی تھوڑی دیر بعد لمبی سانسیں لی جاتیں۔ میں بھی رنجیدہ تھا اور انسانی خون کی ارزانی پر متحیر تھا کہ سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم نے تو ایک آدمی کے خون کو پوری انسانیت کا خون کہا ہے، یہ کیسے لوگ ہیں جو روز پوری انسانیت کا قتل کرتے ہیں اور ایک ہی حملے میں 60 ساٹھ دفعہ انسانیت کو موت کے گھاٹ اتارتے ہیں۔
بارود اور اسلحہ کی اس بے رحمانہ استعمال پر ”جدید دنیا“ پر غصہ آرہا تھا کہ انسانی جان لینے کو کیسے کیسے ہتھیار بنا ڈالے اور اس پر انسانیت کے چیمپئن ممالک اور سیکولرازم کے داعیان کا اسلحہ کا تجارتی حجم انسانی ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔
اسی اثناء میں ریموٹ میرے ہاتھ آیا تو میں نے چینل بدلنا شروع کیے، ایک ایک چینل بدلتا رہا، ہر چینل پر اینکر ”شام غریباں“ بپا کیے ہوئے تھے۔
اچانک اینکر نے بریک لی۔ اب جو بریک میں موبائل کے اشتہار میں مہوش حیات فواد خان کی اچھل کود شروع ہوئی، وہ مست ڈانس وہ مست ڈانس ہوا، وہ ابھی ختم نہیں ہوا تھا کہ ساتھ ہی پیپسی، سیون اپ، مرنڈا، کی بوتلیں پی کر جو بنت حوا میں کرنٹ آیا اور ایک گھونٹ لیتے ہی جیسے نیچے انگارے رکھ دیے گئے ہوں اور کوک کی ساوی ساوتری کی ”ظالما“ کی ترسی ہوئی شہوانی صدا۔ اسی طرح پھر دودھ ”ترنگ“ اور ”نیسلے“ کے اشتہارات۔
میں نے چینل بدلا تو ہر چینل پر یہی سماں تھا۔
یوں لگتا تھا جیسے آپ امام باڑہ ”گامے شاہ“ سےذکر مصائب سن کے سیدھا ”ہیرا منڈی“ میں آگئے۔
ٹاک شو میں تعزیت اور بریک میں مست۔
مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ کیسی عجیب غیرفطری رویہ ہے۔
اگر ان کو اتنا غم تھا یا ہے تو کیا ناچنا گانا لڈیاں ڈالنا بھی غم کا حصہ ہے۔
کوئٹہ میں 60 لاشیں پڑی ہیں، اینکر ان کے غم میں ٹسوئے بہا رہے ہیں لیکن مادرپدر آزاد کمرشلز اسی طرح چل رہے ہیں۔
کیا عجیب وغریب رویوں کا شکار ہوگئے ہم؟
غم تو کوئٹہ میں چند گھرانوں کا ہے، ملٹی نیشنل کمپنیوں کا تو نہیں۔
انہیں اپنی تجارت کرنی ہے۔
اور ایسے سانحات کے موقع پر میرے جیسے بیک ورڈ مولوی بھی ٹی وی پر بیٹھ جاتے ہیں تو ایسے پرائم ٹائم میں وہ اپنی تشہیر کیوں نہ کریں؟
یہ تجارتی سرمایہ دارانہ سوچ فطرتی تو نہیں۔
یہ مصنوعی ہے پیدا کی گئی ہے۔
جی لارڈ میکالے سرسید مائینڈ سیٹ نے تھوپی ہے ہمارے اوپر۔
جن کے ہاں تعلیم شعور کی بیداری نہیں بلکہ تجارتی مقاصد کے لیے ہوتی ہے۔
ٹیچر سے لیکر ماں تک جب یہ کہتی ہے کہ بیٹا پڑھوگے نہیں تو کماو گے کیسے؟
یہی وجہ ہے کہ اس نظام تعلیم کے اعلی فاضلین ایک آکسفورڈ کا پڑھا ہوا، دوسرا بھی کسی بڑے ادارے کا، اس سانحے پر بھی سیاست کرتے ہیں، 60 لاشوں کو اپنی سیاست کی بھینٹ چڑھاتے ہیں۔
55 منٹ کے تعزیتی اور ماتمی پروگراموں میں کوئی چار پانچ بار ایسی بریکیں ہماری اقدار کو کھوکھلا کرنے کی پالنگ نہیں تو اور کیا ہے؟
منافقت کے کتنے دبیز پردے ہیں کہ ہم غمگین ہوکر بھی ناچ رہے ہیں۔
ایسا تمام پروگراموں میں ہوتا ہے، درس قرآن درس حدیث بیانات رمضان ٹرانسمیشن سب میں یہ کمرشلز چلتے ہیں۔
کئی چینل پر علماء آتے ہیں، لیکن جب بریک آتی ہے تو وہ علماء نے جو محنت کی ہوتی ہے، اسے ایک کمرشل ہی بہا کر لے جاتا ہے
عجب وقت آن پڑا ہے
منافقت بھی آرٹ بن گیا ہے
تبصرہ لکھیے