دفتر سے تھکا ہارا گھر پہنچا تو بیگم کا پریشان چہرہ بتا رہا تھا کہ کچھ تو گڑ بڑ ہے. اس نے دریافت کیا تو بیگم گویا ہوئیں کہ سوئی گیس مکمل بند اور چولہا نہیں جل رہا، چائے کیسے بناؤں؟ وہ حیران تھا کہ مضافاتی علاقوں میں گیس کی لوڈشیڈنگ کا سنا تھا لیکن اس کے گھر کی گیس بند ہونے کی خبر نے اسے پریشانی میں ڈال دیاتھا۔ وہ سیدھا باورچی خانے گیا، گیس کی لائن چیک کی، کبھی چابی کبھی لائن کی لیکجیج ڈھونڈتا رہا لیکن پھر تھک ہار کر بیٹھ گیا۔
رات کے کھانےکا وقت ہوا تو ہوٹل سے کھانا منگوایا اور اس طرح رات گزاری اور صبح ہوگئی۔ صبح اس کی اہلیہ نے اٹھتے ہی پھر چولہا جلانے کی کوشش کی تو چولہا ٹھنڈا ہوچکا تھا، گیس آتی تو جلتا نہ، اس روز صبح کا ناشتہ بھی نہ بن سکا، اور بچوں کو لیے وہ گھر سے نکلا، راستے میں بچوں کے لنچ کا انتظام کیا اور اسکول چھوڑتا ہوا اپنے دفتر کے لیے نکل گیا۔ وہ شدید مضطرب اپنی گاڑی میں بیٹھا سوچ رہا تھا کہ گھر جائے گا تو کیا کرے گا، وہ گہری سوچ میں ایسا ڈوبا کہ ڈوبتا چلاگیا، چند لمحوں میں وہ اپنے ماضی میں پہنچ چکا تھا، اسے یاد آ رہا تھا کہ جب وہ پیدا ہوا تو خود کو کراچی کے قدیم علاقے لیاری کی نسبتا پوش اور پڑھی لکھی بستی بہار کالونی میں پایا۔ اس علاقے کو قیام پاکستان کے بعد مشترکہ ہندوستان کے صوبہ بہار سے ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین کے لیے مخصوص کیا گیا تھا۔ اسی لیے اس بستی کا نام بہارکالونی رکھ دیاگیا تھا۔
اس کا ماضی ایک فلم کی طرح اس کے سامنے آگیا تھا۔ وہ اپنے بچپن میں خود کو بہار کالونی کی کشادہ گلیوں میں کھیلتے کودتے اور اچھے ماحول میں تربیت پاتا دیکھ رہا تھا،
کہ اچانک فون کی گھنٹی بجی اور اس کی سوچ کا تسلسل قائم نہ رہ سکا۔ اسے ماضی سے حال میں آنا پڑا، دفتر سے فون آرہا تھا، اس نے تسلی سے اسائنمنٹ ڈیسک کی ہدایات سنیں اور پھر دوبارہ سوچنے لگا کہ کتنی تیزی کے ساتھ تکمیل تعلیم، شعبہ صحافت سے وابستگی، ملازمت اور ازدواجی زندگی شروع ہوئی اور وہ اپنے والد کےبڑے خاندان کے اندر ہی ایک اور چھوٹے سے خاندان کا کفیل بن گیا۔ اسے یاد تھا کہ ابا بولا کرتے تھے کہ جب برصغیر کے مسلمانوں نے دوقومی نظریے کے تحت پاکستا ن کا مطلب کیا لاالہ الااللہ کا نعرہ لگاتے پاکستان کے قیام کی جدوجہد کی تھی تو دادا، ابا اور تایا بھی پیش پیش تھے۔ 14 اگست 1947ء کو مملکت خداداد پاکستان وجود میں آیا تو دادا مرحوم اپنے دونوں بیٹوں اور سارے کنبے کو لیا اور ہندوستان کے صوبے بہار کے علاقے گیا سے ہجرت کر کے پاکستان آگئے۔ ابتداء میں ابا بتاتے تھے کہ ایک سو بیس گز کے دوپلاٹوں پر دیوار گھیرنے کے بھی پیسے نہیں تھے، جیسے تیسے جھگی نما گھر بنایا اور پاکستان میں قیام کو چھ ماہ ہی گزرے تھے کہ والد اور تایا یتیم ہوگئے، دادا حالات کی سختی برداشت نہ کرسکے اور خالق حقیقی سے جاملے۔ ابا اور تایا نے یتیمی کے ساتھ ہی زندگی کا کٹھن سفرشروع کیا۔ محنت مزدوری سے کبھی نہ گھبرائے۔ کارخانے میں بیٹریاں بناتے، رنگ و روغن کا کام کرتے، پرچون کی دکان ہو یا اسٹیشنری کی دکان، کبھی کسی کام سے نہ گھبرائے اور اپنے خاندان کی کفالت کرتے رہے۔ چھوٹے بڑے سیلاب دیکھے، لسانی فسادات دیکھے، پینسٹھ اور 71ء کی جنگیں دیکھیں لیکن ہمت نہ ہاری اور مشکل وقت اپنی ہمت سے کاٹتے رہے اور اپنی اولاد کے لیے حتی الامکان آسانیاں، سہولت اور آسائشیں فراہم کرتے رہے۔
اسے یاد تھا کہ صرف ابا ہی نے نہیں اس کی اماں نے بھی معاشی تنگی، غربت ہو یا گھرداری، ہر میدان میں ابا کا بھرپور ساتھ دیا، اور زندگی کا سفر آگے بڑھتا رہا، جھگی کی جگہ مکان نے لے لی۔ اور پھر مکان گھر میں تبدیل ہوگیا۔ کچے گھر پکے ہوگئے۔ کچھ مناظر تو یہ تھے جو والد والدہ کی آنکھوں سے وہ دیکھتا رہا لیکن کچھ ایسے منظر اسے یاد آ رہے تھے جو اس کی آنکھوں نے دیکھے تھے، جب وہ اپنے بھائی بہنوں کو دور دور سے پینے کا میٹھا پانی کنستر میں بھر بھر کر لاتے دیکھتا تھا، اور پھر خود بھی گیلن کے ذریعے اڑوس پڑوس سے پانی بھر کرلانا اسے یاد آرہاتھا، وہ وقت بھلا نہ سکا تھا۔ جب گھر پر پانی کی لائن لگی تو ہینڈ پمپ سے پانی کھینچا جاتا تھا، ایک بھائی پمپ چلاتا تھا تو دوسرا اس کے نیچے بیٹھ کر نہاتا تھا اور وہ بھی ایک سو ایک یا لائف بوائے صابن سے۔ اس وقت بجلی کی اس طرح لوڈ شیڈنگ نہیں ہوا کرتی تھی، کسی خرابی کی صورت ہی بجلی غائب ہوتی، تو بچوں کو بھی تفریح کا موقع مل جاتا تھا اور وہ گھرکے برآمدے، چھت یا گلی میں خوب کھیلا کرتے تھے۔
وہ وقت تھا جب گھر کا تعمیراتی کام ہوتا تو سب بھائی بہن مزدور بن جاتے اور خود اینٹ اور بجری کا وزن اٹھاتے تو ابا مستری ہوتے، اس طرح چار پیسے بچائے جاتے تھے۔ تہواروں خصوصا عید پر اسے یاد تھا کہ گھر اور کمروں کی دیواروں پر سفیدی کی جاتی، چونا بھگو کر اس میں نیل ڈالتے اور بھائی بہن خود ہی کوچی سے دیوار پر سفیدی کرتے۔
چربی کے گرم گرم پراٹھے بھی اس کی نظروں کے سامنے گھورم رہےتھے اور ہاں آج کا پیسہ کیسے بھلایا جاسکتا تھا۔ اسے یاد تھا کہ بچپن سے لڑکپن تک جیب خرچ کے عوض ابا روز بالترتیب پانچ پائی، دس پائی، چار آنہ پھر آٹھ آنہ دیا کرتے تھے اور میٹرک میں جا کر اس کا جیب خرچ ایک روپے مقرر ہوا۔ آج کے پیسے سے کبھی علی بھائی کی دکان سے کٹ کٹی، چاول کا چورا کھاتے تو کبھی رضا بھائی کی دکان سے پائی پائی کے بسکٹ گوبٹ، پاپڑ یا فانٹا کھایا کرتے تھے۔ جب گھر میں انڈے کا سالن بنتا تو مہر الہی کی دکان سے چٹکے اور ٹوٹے ہوئے انڈے سستے داموں لانا اسے یاد آ رہا تھا۔
اسی اثنا میں وہ شاہین گورنمنٹ اسکول کی پرائمری کلاسز دیکھنے لگا، خود کو کبھی ٹاٹ تو کبھی دری اور ٹوٹے ہوئے ڈیسک پر کسی پریشانی کے بغیر پڑھتے دیکھ رہاتھا، پھر سیکنڈری کلاسز میں گیا تو غازی محمد بن قاسم گورنمنٹ اسکول کا حال بھی کچھ یہی تھا، لیکن اسکول کی حالت زار سے اس کا کوئی لینا دینا نہ تھا۔ اسے یاد آیا کہ کالج جانے کے لیے اسےپانچ روپے ملتے، تین روپے دوطرفہ کرایے کی مد میں اور دو روپے سے اکثر وہ ایس ایم سائنس کالج کے باہر آلو چھولے کی پلیٹ یا پھر ٹھنڈا شربت پیا کرتا تھا. اس زمانے میں فرد کا افراد سے اور افراد کا معاشرے سے رشتہ مضبوط تھا، بہارکالونی کی ترقی کا سفر بھی اس کی آنکھوں سے اوجھل نہ تھا، اس نے گندے بہتے نالوں کو سیوریج کے بہترین نظام میں بدلتے دیکھا تھا، اسے یاد تھا اس کا بچپن پانی کی لائنوں کی تنصیب اور کچی گلیاں اور سڑکیں پختگی کی جانب بڑھتے دیکھتے گزرا تھا.
یادداشت پر زور ڈالنے پر بہار کالونی کی سنگل اسٹوری مکانات پر مشتمل آبادی میں گلیاں صاف کرتے پچھتر جمعدار بھی اسے یاد آگئے تھے لیکن پھر اس نے بچپن سے لڑکپن کی جانب بڑھتے بڑھتے ترقی کرتے، علاقے کا نقشہ بدلتے بھی دیکھا، جب سنگل اسٹوری مکانات کی جگہ بلند بالا پانچ چھ منزلہ عمارتوں نے لے لیں اور کھلے کھلے برآمدوں والے مکانات فلیٹوں میں تبدیل ہوگئے، جہاں آٹھ دس افراد رہتے تھے سو سے ڈیڑھ سو بسنے لگے، وہ خود اب ایک تین کمرے کے ایک فلیٹ میں مقیم تھا جہاں نہ دھوپ میسر تھی، بارش کا مزا،
پانی، بجلی، گیس ،سیوریج کی سہولت آبادی کے تناسب سے اپ گریڈ کرنے والا کوئی نہ تھا، وقت گزرا سب کچھ بکھرنے لگا اب کچھ بچا نہ تھا کیوں کہ فرد فرد سے دور اور معاشرہ انتشار کا شکار ہو چکا تھا.
وہ انھی حالات میں لڑکپن سے جوانی میں تک پہنچا تھا، اور پھر ازدواجی زندگی شروع ہوئی، اور اب تین بچوں کا باپ ہے، ایک اچھے ادارے میں برسر روزگار اور معاشرے کا اہم حصہ بن چکا ہے، لیکن پھر آج ایک واقعے نے اسے برسوں پیچھے دھکیل دیا. وہ اپنے قابل فخر ماضی سے مطمئن اور حال سے خوش تھا لیکن بچوں کے مستقبل کے لیے مضطرب اور بےچین تھا کہ گھر کا چولہا کیسے جلے گا؟ کیونکہ آج اسے 2016ء کے پاکستان میں گھر کا چولھا جلانے کے لیے سلنڈر خرید کر گیس بھروانی پڑ رہی تھی۔
ماضی کی ساری یادوں میں آج وہ برسوں پیچھے گیا لیکن اسے اپنے گھر پر گیس کا سلنڈر نظر نہ آیا۔ اماں ضرور بتاتی تھیں کہ وہ کس طرح مٹی کے چولھے میں گوبر سکھا کر کھانے بناتی تھیں، پھر مٹی کے تیل کا چولہا آیا، اور پھر وقت کے ساتھ گیس کے چولہے سے گھر پر کھانا پکنے لگا۔ آج جب دنیا ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے اور اس کا ماضی بھی ترقی کی جانب مسلسل بڑھتے قدموں کی عکاسی کر رہا تھا لیکن اب وہ اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے پریشانی کا شکار تھا، اور کیوں نہ ہوتا بجلی کے لیے اب اسے گھر پر جنریٹرلانا پڑا، جنریٹر کے لیے پٹرول مہنگا لگا تو گیس کا سہارا لیکن اب تو گیس بھی غائب تھی۔ بجلی،گیس، ٹیلی فون اور نکاسی آب و پانی کی سہولت سے محروم بھی تھا لیکن ایک پاکستانی شہری ہونے کے ناطے اسے تمام یوٹیلٹی بلز ٹیکسو ں کے ساتھ لازمی ادا کرنے پڑتے تھے۔ تنخواہ بنک میں آنے سے پہلے ہی اس سے انکم ٹیکس بھی وصول کیا جا رہا تھا۔
وہ سوچ ہی رہا تھا کہ یک دم اس کے وجود سے ایک آواز آئی، میاں کیا سوچتے ہو، جو بویا ہے وہی تو کاٹو گے، وہ جیسے ہل کر رہ گیا جیسے اس کی الجھن سلجھتی نظر آرہی تھی. اسے خیال آیا کہ جب لوگ اپنے گھروں کو معاشرے سے الگ تھلگ رکھ کر کامیاب زندگی گزارنے کی کوشش کریں گے، جب معاشرے کی ترقی کے لیے کردار ادا نہیں کریں گے تو معاشرہ اسی طرح انحطاط پذیری، تنزلی اور پسماندگی کا شکار ہوتا چلاجائے گا۔ اس کا وجود ہی اس کا محتسب بن کر سامنے آگیا تھا۔
کوئی تھا جو جھنجوڑ رہا تھا، چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا،
عقل کے اندھو! فرد سے افراد، افراد سے خاندان اور خاندانوں معاشرہ بنتا ہے۔ جب تم اپنے گھراور بچوں کی ترقی کے لیے ساری زندگی لگاتے تو اس معاشرے کی ترقی کے لیے تم نے کیا کردار ادا کیا۔ اس کا وجود ایک مثال دے رہا تھا کہ آخر کیا وجہ ہے جب خریدار بازار سے کچھ خریدنے جاتا ہے تو چھان پھٹک، ٹھوک بجا کر اور مول تول کے بعد ہی کچھ خریدا کرتا ہے، اپنے بچوں کی بہتر سے بہتر تعلیم و تربیت کے لیے، گھر کی تعمیر اور صفائی کے لیے معیار کچھ اور ہوتا ہے لیکن جب بات گلی محلے علاقے شہر اور ملک کی آتی ہے تو ہمارا کردار کیا ہوتا ہے؟
اسے کوئی جھنجوڑے جارہا تھا کہ چولہا ایسے ہی نہیں بجھ گیا، اس کے بجھنے کے ذمہ دار تم خود ہو، تمہارے والدین نے اپنی ذمہ داری پوری کی لیکن تم نے اسے آگے نہ بڑھایا،
کیا تم خود اس معاشرتی تباہی، بنیادی سہولتوں سے محرومی کے ذمہ دار نہیں، اپنے بچوں اور گھر کے لیے خوب سے خوب تر کا انتخاب کرتے ہو لیکن، لیکن جب علاقائی، شہری اور ملکی ترقی کے لیے انتخاب ہوتا ہے تو ذات برادری، رنگ نسل، مسلک، فرقے اور زبان کی آڑ میں نااہل قیادت چنتے ہو، اور پھر کہتے ہو، بجلی بند، پانی کم،گٹر بند، کچرا گند، اور اب پریشان ہو کہ گیس بھی بند، تم ہو ذمے دار اپنے بچوں کے مستقبل کی تباہی کے، تم ہو کوئی اور نہیں.
ضمیر کی آواز اسے جھنجوڑے جا رہی تھی، اسے سمجھ آگیا تھا کہ اس کے گھر کا چولہا کیسے بجھ گیا؟ اگر وہ محلے شہر اور ملک کے لیے بھی چھان پٹک کر اہل، دیانتدار اور ایماندار لوگوں کو چنتا تو اس کے گھر کی طرح اور ہر ایک فرد کی طرح معاشرہ بھی ترقی کرتا، وہ طے کرچکا تھا، ارادہ باندھ چکا تھا، اس کے سامنے اس کا ماضی اور حال موجود ہے، اب اسے اپنے مستقبل کو خود سنوارنا ہے.
کیسے؟ اب وہ خوب جان چکا ہے، لیکن یہ اسے اس وقت ہی سمجھ آیا، جب گھر کا چولہا بجھ گیا لیکن ابھی دیر نہیں ہوئی تھی، وہ گھر کا چولہا پھر سے جلا سکتا تھا۔ کاش کہ ملک کے ہر شہری کو چولہا بجھنے سے پہلے احساس ہوجائے اور کہیں دیر نہ ہوجائے کہ گھر اور معاشرہ ہر ایک فرد کی یکسر توجہ کا متقاضی ہے.
تبصرہ لکھیے