ہوم << دہشت گردوں کی کمر، آخر کب تک؟ سید اسرارعلی

دہشت گردوں کی کمر، آخر کب تک؟ سید اسرارعلی

سید اسرارعلی ڈاکٹر آپریشن کے بعد باہر آیا اور لواحقین پر دکھیاری نگاہ ڈالتے ہوئے کہا:
’’معاف کردیجئے گا ہم نے اپنی پوری کوشش کی لیکن ہم سردار جی کو بچانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ نرس متوفی کے پاس ہے، آپ بھی اندر جاسکتے ہیں اور ضروری کاغذی کارروائی کے بعد لاش لے جاسکتے ہیں‘‘۔
سردار نی اور اس کے بچے روتے ہوئے اندر داخل ہوئے ۔ نرس سردارجی کی ناک میں روئی ڈال رہی تھی۔ دفعتاً سردارنی چیختے اور چلاتی ہوئی سردارجی پر پھیل گئی۔ سردارنی نے سردار کے لاشے کوجھٹکتے ہوئے کہا۔ ’’اوئے ظالماں، یہ تم نے کیا کردیا۔ مجھے اکیلا چھوڑدیا‘‘۔ سردار جی کے لاشے کو جیسے ہی دو تین جھٹکے ملے، وہ ہوش میں آگیا (شاید ڈاکٹروں نے غلطی کردی تھی یا وہ اندرون سندھ والے یونیورسٹیوں کے ڈاکٹر تھے)۔ ہوش میں آتے ہی اس نے سردارنی کو کہا۔’’اوئے بلو، میں توزندہ ہوں‘‘۔ سردارنی نے فوراً کہا ’’اوئے چپ کر جھوٹے، تو ڈاکٹر سے زیادہ سیانا ہے؟‘‘۔ پتہ نہیں آگے کیا ہوا ہوگا کیونکہ میں نے لطیفہ یہاں تک سنا ہے۔ ویسے بھی ہمارے ملک میں روز بروز ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں کہ اب لطیفے بھی سچ لگنے شروع ہوگئے ہیں۔ شاید آپ لوگوں کو یاد ہی ہوگا، پچھلے سے پچھلے سال قصہ خوانی بم دھماکے میں شہداء کے ساتھ ساتھ ایک بے ہوش زخمی کو بھی تابوت میں بند کر دیا گیاتھا۔ وہ تو اچھا ہوا کہ عین جنازے کے دوران اسے ہوش آیا ورنہ منوں مٹی تلے تابوت کے اندر بےموت مر جاتا۔
جس طرح سردارنی کو اپنے زندہ شوہر سے زیاد ہ ڈاکٹر کے اوپر یقین تھا بالکل اسی طرح جب مقتدر اداروں اور حکمرانوں نے کہہ دیا کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے تو ہم نے بھی سکھ کا سانس لے لیا کہ اس معاملے میں یہ لوگ بہت سیانے ہیں۔ دوسری بات یہ ہیں کہ ان ’’بدبختوں‘‘ کو چونکہ ہمارے ادارے اور حکمران اچھی طرح جانتے ہیں تو اس لیے جب انہوں نے کمر توڑنے کا اعلان کر دیا تو ہم نے من و عن یقین کر لیا کہ اب تو ان شاء اللہ جان چھوٹی۔ اس لیے ہم نے میڈیکل رپورٹ طلب کی نہ کمر کا ایکسرے، نہ بعد از علاج پرہیز اور نہ ہی اس آپریشن پر آنے والے اخراجات کا حساب۔ ہم نے کسی سے یہ بھی نہ پوچھا کہ اس کمر کو توڑنے کے لیے اپنے کتنے بازو ٹوٹے ہیں۔ کتنے سینے چھلنی اور کتنی سر پھٹ چکے ہیں۔ ہم نے یہ بھی نہ پوچھا کہ صاحب، کچھ بچت بھی ہوئی ہے یا ابھی تک خسارہ ہی خسارہ چل رہا ہے۔ ہمیں تو بس ایک ہی چیز کی خوشی تھی کہ اب کمر ٹوٹ گئی ہے اور اب ہم قدرے محفوظ ہیں۔ لیکن کوئٹہ حملے کے بعد احساس ہوا کہ کمر ٹوٹ گئی ہے لیکن شاید انہوں نے افغانستان کے کسی کارخانو مارکیٹ سے نئی کمر خرید لی ہے۔
ٹی وی چینلز پر ایسے ہر سانحے پر سب سے اہم جانکاری یہی ہوتی ہے کہ ’’سب سے پہلے خبر کس نے دی‘‘۔ کس نے پل پل کی خبریں نشر کی۔ ٹی آر پی ، سب سے زیادہ کس نے وصول کیا۔ کس نے سب سے زیادہ لاشوں اور زخمیوں کو کور کیا۔ کس نے اپنی برانڈ کی کفن ڈالے اور سب سے پہلے ہسپتال کون گیا۔ کس کو مریضوں نے کھری کھری سنادی۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی روایتی تعزیتی بیانات اور کھوکھلے اعلانات کی بھرمار ہوئی۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی کسی نے فرمایا ’’آخری دشمن کے خاتمے تک جنگ جاری رہے گی‘‘۔ کوئی ان سے پوچھے، جناب جنگ اس طرح لڑی جاتی ہے۔ اس سے زیادہ سنجیدگی سے تو ہمارے ہاں ساس اور بہوکی لڑائی میں دکھائی جاتی ہے۔ کسی نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں وفاق اور بلوچستان ایک پیج پر ہیں اور نیشنل ایکشن پلان پر بھر پور عمل جاری ہے۔ اعلیٰ سطحی اجلاس میں اس عزم کا بھی اظہار کیا گیا کہ معصوم کیڈٹس کو وحشت و بربریت کا نشانہ بناکر دہشت گردوں نے قوم کی غیرت کو چیلنج کیا ہے‘‘۔کاش! کوئی انہیں بتائے کہ صاحب! تم لوگوں کو بھی کبھی غیرت آئے گی‘‘۔ افسوس آج تک تو نہ آسکی۔ کہا گیا کہ عوام کے فعال تعاون سے انہیں دندان شکن جواب دیا جائے گا۔ ماشاء اللہ۔ چشم بد دور۔ فعال تعاون تو خیبرپختونخوا میں چارسدہ کے عوام نے کرکے بھی دکھایاتھا۔ دہشت گردوں کو ’’ہٹ اینڈ رن‘‘ منصوبے میں کامیاب نہ ہونے دیا اور انہیں گھیر دیا یہاں تک کہ فوجی جوان پہنچ گئے اور ان دہشت گردوں کو واصل جہنم کر دیا۔اب اتنا تو لوگ کر رہے ہیں۔ اس عوام نامی ’’بدبخت‘‘ مخلوق سے اور کتنی قربانیاں لینی ہیں۔ اسحاق ڈار نے تو ان کا پہلے ہی بھرکس نکالا ہوا ہے اور رہی سہی کسر ’’کوریڈور‘‘ میں پوری کردی جائے گی۔
ایک سیاسی قائد نے کہا کہ ’’کوئٹہ حملہ ایک بزدلانہ فعل ہے‘‘۔ کیوں صاحب! آپ کو ان ظالموں سے بہادری کی توقع تھی جو پوری نہ ہوسکی؟۔ ہم بھی تو یہی کہہ رہے ہیں کہ ان بزدلوں کے دانت کھٹے کرکے ثابت کردیجیے کہ آپ لوگ ان سے زیادہ بزدل نہیں ہیں ورنہ ہم تو یہی سوچیں گے کہ آپ بھی خدانخواستہ۔ کسی صاحب نے یہ ارشادبھی کیا کہ ’’دہشت گردوں کے مذموم عزائم کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘۔ اس محترم سے بس اتنی اپیل ہے کہ خدارا، جس سنجیدگی کا درس آپ پارلیمینٹ کے جوائنٹ سیشن میں عمران و قادری کے دھرنے کے خلاف دے رہے تھے، اس سنجیدگی کا مظاہرہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بھی کردیجیے ورنہ آپ کی قوم پرستی کے لیے پختون باقی نہ رہیں گے۔ ہر بار کی طرح اس بار بھی بڑے صاحب نے بریفنگ دیتے ہوئے فرمایا ہوگا، ’’ان بزدلانہ کاروائیوں سے دہشت گرد قوم کا عزم متزلزل نہیں کرسکتے‘‘۔ پچھلی بار کی طرح صاحب، اس مرتبہ بھی بڑے غصے میں ہوگا۔ جان کی امان پاتے ہوئے، ہاتھ باندھے صرف اتنا عرض کریں گے کہ آپ تو اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے دنیا میں نمبر ون مانے جاتے ہیں۔ ٹھیک ٹھیک نشانے سے انھیں ختم کرنے پر توجہ دیجیے۔
دل کے ایک کونے سے آواز آرہی ہے کہ چلا چلا کر سب سے پوچھ لوں۔ بتائیں نا، اور کب تک لڑنا ہے؟ کوئی حتمی تاریخ؟ کوئی بھرپور لائحہ عمل؟ کوئی معلوم اہداف؟ کوئی واضح حکمت عملی؟ اور کتنی لاشیں، اجڑے گھر اورٹوٹے دل دیکھنے ہیں؟

Comments

Click here to post a comment