ہوم << بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

بڑی خبر کا بڑا تنازع۔ حقیقت کیا ہے؟-سلیم صافی

saleem safi
اس حقیقت سے کوئی بڑے سے بڑا شریف بھی انکار نہیں کرسکتا کہ پاکستان میں سول ملٹری تنائو کی شکلیں تو بدلتی رہتی ہیں، لیکن ہر دور میں وہ موجود ضروررہتا ہے ۔تاہم شریفوں کے دور میں یہ معمول بعض اوقات حد سے بھی بڑھ جاتا ہے۔ یہ انسانی فطرت ہے کہ اپنے ہاتھوں کا تراشا ہوا پتھر اگر بھگوان بننے کی کوشش کرے تو عام بتوں کی بنسبت اس پر زیادہ غصہ آتا ہے۔ اہل صحافت کی صفوں میں بھی اسٹیبلشمنٹ کا زیادہ غصہ ان لوگوں سے متعلق دیکھنے کو ملتا ہے ،جن کو میدان صحافت میں عروج اس کے طفیل حاصل ہوا۔ بدقسمتی سے رائے ونڈ کے شریفوں کا شمار بھی ان لوگوں میں ہوتا ہے اور اسٹیبلشمنٹ جب اپنی بلی کے منہ سے اپنے خلاف میائوں میائوں کی آوازیں سنتی ہے تو اسے غصہ بھی کچھ زیادہ آجاتا ہے۔
دوسری وجہ اس کی یہ ہے کہ شریف نہ تو کھل کر مخالف کی صف میں کھڑے ہوتے ہیں اور نہ گجرات کے چوہدریوں یا عمران خان کی طرح شریفانہ طریقے سے اندھی تابعداری کرتے ہیں۔ شریف عدلیہ اورمیڈیا کی طرح اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ بھی سیاست سے کام لیتے ہیں۔ ضرورت پڑنے یا پھر دبائو آجانے کی صورت میں وہ ہاتھ قدموں میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے لیکن چونکہ تاثر ہے کہ بڑے شریف حد درجہ کینہ پر وربھی ہیں، اس لئے موقع ملتے ہی قدموں میں پڑے ہاتھ گریبان میں لے جانے میں دیر نہیں لگاتے۔یہ بھی تاثر ہے کہ گزشتہ چند ماہ سے وہ دوبارہ گریبان میں ہاتھ ڈالنے والی پوزیشن میں آگئے تھے اور اداروں کے ساتھ بھی لڑائو اور حکومت کرو والی پالیسی اپنانے لگے تھے۔ اس کا اظہار کبھی وزرا کے بیانات کی صورت میں کیا جاتا ہے، کبھی مختلف عہدوں پر مخصوص قسم کے لوگوں کی تعیناتی کی شکل میں ہوتا ہے تو کبھی کلبھوشن یادیو جیسے ایشوز پر پراسرار خاموشی کی صورت میں۔ دوسری طرف فریق ثانی اپنے طریقے سے اپنا دفاع کرتارہتا ہے۔ یہ وہ تلخ حقائق ہیں کہ جو کم و بیش ہر صحافی اور ہر سیاستدان کے علم میں ہوتے ہیں لیکن بوجوہ کھل کر اس کا ظہار نہیں ہوتا۔ جو صحافی بہت زیادہ بہادر یا پھر ضمیر کے غلام ہوتے ہیں وہ بھی مشکل سے اشاروں کی زبان میں بات کرلیتے ہیں۔ سرکاری طور پر وزیر مشیر دن رات بیانات تو یہ جاری کرتے ہیں کہ فریقین مکمل طور پر ایک صفحے پر ہیں لیکن وہ خود بھی سمجھتے ہیں کہ جھوٹ بول رہے ہیں اور کم وبیش ہر صحافی کو بھی علم ہوتا ہے کہ جو دعویٰ کیا جارہا ہے، وہ حقیقت سے کتنا دورہے۔
اب کی بار تو بدقسمتی سے میڈیا کی اکثریت بھی دو گروہوں میں تقسیم ہوگئی ہے۔ ایک، ایک کی پراکسی کی حیثیت اختیار کر گیا ہے اور دوسرا، دوسرے کی پراکسی کا۔ اس تناظر میں جب کوئی سورس ،ایسی خبر لے آتا ہے کہ جوسول ملٹری تنائو یا تفریق سے متعلق ہو، تو صحافی بجا طور پر جلدی یقین کرلیتا ہے بلکہ اب تو نوبت یہاں تک آگئی ہے کہ ہم آہنگی کی علامت کسی خبر پر یقین نہیں کیا جاتا۔ ان حالات میں انگریزی اخبار کے ایک بڑے اور مستند رپورٹر کے پاس خبر لائی گئی اور شاید اسی تناظر میں انہوں نے یقین کرلیاحالانکہ میں نے خبر کی اشاعت یا پھر اس کے بعد اپنے ذرائع سے جو معلومات حاصل کیں، اس کی رو سے میٹنگ میں اگرچہ انہی موضوع پر بات ہوئی تھی لیکن وہ قطعاً اس انداز میں یا پھر تلخ ماحول میں نہیں ہوئی تھی۔ ایسا بھی نہیں تھا کہ یہ موضوعات سول قیادت کی طرف سے اٹھائے گئے تھے بلکہ خود عسکری حکام ایک منصوبہ عمل کے ساتھ اس میٹنگ میں گئے تھے اور جب انہوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اگلے مرحلے کا منصوبہ عمل سامنے رکھا تو اس پر انتہائی خوشگوار ماحول میں بعض سوالات بھی اٹھائے گئے اور بعض مشکلات کا بھی تذکرہ ہوا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ اس گفتگو کے دوران بھی سول ملٹری کی تقسیم نہیں تھی کیونکہ بعض سوالات خود عسکری سائیڈ سے اٹھائے گئے اور اسی طرح عسکری سوچ کی نمائندگی بعض وزراء بھی کرتے رہے جبکہ اسی طرح کی بحث کم وبیش کابینہ کی کمیٹی برائے سلامتی جیسے فورمز کی ہر میٹنگ میںمعمول کی بات سمجھی جاتی ہے۔
میری اطلاعات کے مطابق ڈی جی آئی ایس آئی یہ تجویز پہلے سے لے کر آئے تھے کہ وفاقی حکومت کے نمائندے کے ساتھ وہ ہر صوبائی ہیڈکوارٹر کا دورہ کریں گے اور وہاں اپنے ادارے کے حکام کو صوبائی حکومتوں کے ساتھ بٹھا کر آگے کا لائحہ عمل طے کریں گے۔ گویا میٹنگ میں انگریزی اخبار کی خبر میں شائع ہونے والے بعض اختلافی موضوعات پر گفتگو ضرورہوئی تھی لیکن نہ توماحول تلخ تھا اور نہ وہاں سول ملٹری کی تقسیم موجود تھی۔ کسی بھی فریق کا انداز طعنے یا ناراضی والا نہیں تھا۔ پھر مکمل ہم آہنگی کے ساتھ آئندہ کا لائحہ عمل بنایا گیا جس کی رو سے صوبائی سطح پر بھی سول ملٹری اداروں کے کوآرڈنیشن کو بہتر بنانے کے لئے اقدامات ہونے تھے لیکن خبر سے تاثر یہ ملا کہ جیسے انتہائی تلخ ماحول میں ایسی میٹنگ ہوئی کہ جس میں سول ملٹری قیادت دو انتہائوں پر تھی اور جس میں سول قیادت نے ملٹری سائیڈ کو کھری کھری سنائیں۔ ظاہر ہے اس خبر سے کئی حوالے سے نقصان ہوا اور یوں عسکری حلقوں کی ناراضی اور برہمی بلاجواز نہیں تھی۔ پہلا نقصان یہ ہوا کہ ہندوستان کے ساتھ جنگی فضا میں باہر یہ پیغام گیا کہ پاکستان میں سول ملٹری قیادت میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے۔ دوسرا نقصان یہ ہوا کہ جو منصوبہ عمل بنایا گیا تھا ،وہ سارے کا سارا سبوتاژ ہوگیا۔ جن لوگوں سے متعلق منصوبہ تھا، ان کو پہلے سے علم ہوگیا اور اس کے لئے جو سول ملٹری ہم آہنگی چاہئے تھی، اس کی طرف قدم تو کیا اٹھتا، الٹا تنائو بڑھ گیا۔
تیسرا نقصان یہ ہوا کہ اگلے مرحلے میں داخلے کے لئے بعض اہم دوست ملکوں کا بھی دبائو تھا اور ان کے ساتھ کچھ وعدے بھی کئے گئے تھے۔ ان دوست ممالک کو یہ غلط پیغام گیا کہ ان کو جو تاثر دیا گیا تھا، اس کے مطابق عمل کرنے کا ارادہ نہیں ۔اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ حکومت پوری قوت کے ساتھ خبر کی تردید کرتی اور ایک دو روز میں تحقیقات مکمل کرکے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کرتی لیکن ایسا کرنے کی بجائے معاملے کو تین مختلف تردیدی اور وضاحتی بیانات کے ذریعے مزید خراب کردیا گیا۔ عسکری حلقوں کو یقین ہے اور اس کا اظہار کور کمانڈر ز میٹنگ کے بعد آئی ایس پی آر کی پریس ریلیز میں کیا گیا کہ خبرفیڈ (Feed) کی گئی۔ فیڈکرنے والوں کے بارے میں ان کے ہاں یہ قوی خیال ہے کہ وہ حکومتی صف کے بعض اہم ذمہ دار ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اس سارے معاملے کی تحقیق ایک دن میں کی جاسکتی ہے کیونکہ یہ سانحہ مشرقی پاکستان نہیں کہ جس کے ذمہ داروں کے تعین میں سالوں کی تحقیق درکار ہو لیکن ایسا کرنے کی بجائے حکومت ضدپر اڑ گئی ہے۔
دوسری طرف حکومتی عہدیدارنجی حلقوںمیں اپنے خلاف سیاسی ہلچل کو ایک بار پھراشارے سے تعبیر کررہے ہیں۔ نتیجتاً پیدا ہونے والی سیاسی بے یقینی اور بداعتمادی کی وجہ سے ملک داخلی اور بالخصوص سفارتی محاذوں پر غیرمعمولی نقصان اٹھارہا ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ آمنے سامنے بیٹھ کر معاملات کو صاف کرنے اور ضروری اقدامات اٹھانے کی بجائے اب کی بار وزیراعظم صاحب روایتی پراسراریت کی پالیسی پر گامزن ہیں اور ساتھ ہی ساتھ دو نومبر کو اینٹ کا جواب پتھر سے دینےکے موڈ میں بھی نظر آتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ ہم جیسے لوگوں کو اس ملک کے نظام کی تبدیلی سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ہم جانتے ہیں کہ یہاں آمریت سیاسی ہوتی ہے اور جمہوریت خاندانی آمریت کا دوسرا نام۔ لیکن تشویشناک امر یہ ہے کہ اس وقت چین جتنا پاکستان میں سیاسی استحکام کا متمنی ہے، اتنا امریکہ اورہندوستان، پاکستان میں مارشل لا کا نفاذ چاہتے ہیں۔ مجھے تو لگتا ہے کہ امریکہ نے پھر 1999 والا کام شروع کردیا ہے کہ چور سے کہے چوری کرو اور گھر والے سے کہے بیدار رہو۔

Comments

Click here to post a comment