چائے والے کی نیلی آنکھوں کی بات ہو رہی تھی اور یہ بات کہ کیا کوئی جانتا بھی ہے کہ ان جھیل جیسی نیلی آنکھوں کے پیچھے کیا درد چھپے ہیں؟ دراصل ان کے پیچھے ایک پوری قوم کی بےبسی کی داستان سو رہی ہے اور ان سمندر آنکھوں کے پیچھے ایک پوری قوم کی بےحسی جاگ رہی ہے۔ ان دل فریب نیلی آنکھوں کے پیچھے کرب بھرے کچھ نوحے ہیں اور دل چیر دیتے لہو میں ڈوبے کچھ دوہے ہیں۔ لوگ مگر چہرہ دیکھتے ہیں اور بیبیوں نے ان آنکھوں کی بس خیرہ کن چمک دیکھی ہے۔ اس چہرے کے پیچھے اجڑی بستی دل کی خستگی اور ان آنکھوں کی جھیل میں ڈوبی حسرت بھری کہانیاں کب دیکھتے ہیں ؎
جو تار سے نکلی وہ دھن سب نے سنی ہے
جو ساز پہ گزری وہ کس دل کو پتا ہے
آئیے اِک نظر ان دل فریب نظاروں اور من موہ لیتی بہاروں کے پیچھے انسانیت کو شرما اور صاحبان دل کو لرزا دینے والی کچھ تلخ حقیقتیں بھی جھانک کے دیکھ لیں۔ میر اخیال ہے اس سے آشنائی کے لیے ہمیں جمال عبداللہ عثمان سے ملاقات کر نی چاہیے۔ جمال عبداللہ عثمان ایک نوجوان قلم کار ہے۔ سوات سے آئے اس نوجوان کا لہجہ کشمیری سیبوں کی طرح رسیلا اور اس کا قلم اہل زبان کی طرح البیلا ہے۔
جمال عبداللہ عثمان نے اپنا کیریئر کراچی کے مختلف اخبارات میں لکھنے سے شروع کیا۔ پھر جسارت نے اس کا کالم چھاپا اور پھر یہ کراچی کے جرات مند اخبار ”امت“ کا حصہ بن گئے۔ امت میں انہوں نے کالم نگاری اور فیچر رائٹنگ میں اپنا لوہا منوایا۔ انہی دِنوں سوات میں ہمیں اپنی بقا کی جنگ لڑنا پڑی اور لاتعداد صحافیوں کے استاذ جناب اطہر ہاشمی کو اس نوجوان کے سواتی ہونے کا پتا چلا تو انہوں نے اسے فیلڈ میں بھیج دیا۔ ایک تو اپنے علاقے کی خانہ ویرانی اور پھر سوات کا جنت نظیر خطہ بندوق کی آگ سے جھلسا اور بارود کی بو سے متعفن ہوا اس سے دیکھا نہ گیا۔ خیر ایک صحافی کے لیے آنکھوں کی بندش کے کیا معنی؟ وہی مثل کہ گھوڑا گھاس سے محبت کرے گا تو کھائے گا کیا؟
نہ چاہتے ہوئے بھی اس نے وہ نوحے لائیو دیکھے، اور وہ سب جبر دل پہ سہے۔ انسانوں کو چند بے دردوں کے کیے کی پاداش میں اپنے پیارے گھر گلیارے اور باغ و بازار چھوڑ کے مفلسانہ و مہاجرانہ نکلتے دیکھا۔ اس نے ہنستے بستے گھروں سے انجانی مسافتوں کو نکلتے مسافروں کے اشک بھی گنے اور ان کے پاؤں میں چبھے کانٹے بھی شمار کیے۔ اس نے بعض کم اندیشوں کی اٹھائی گرد کی اس دھول میں کئی نیلی آنکھوں اور کئی شہابی گالوں کی سندرتا اور مستقبل کو گم ہوتے بھی دیکھا۔ اس نے خیموں جیسے برقعوں میں جینے کو سعادت اور عادت سمجھنے والی کئی مہ رخوں کو تپتے سورجوں تلے بے پردہ جھلستے، نانِ جویں کو بلکتے اور اپنوں کی بے بسی کی تڑپ سے تڑپتے اور مچلتے دیکھا۔ یہ دیکھتا رہا، خود سے الجھتا رہا، گاہ روتا اور گاہ دور دیس والوں کے لیے آنکھوں دیکھے احوال لکھتا رہا۔ ستم کی سنگلاخ چکی کے پاٹوں میں آئے انسانوں کی سیاہ بختی پر یہاں کبھی یہ خود رو دیا اور کبھی اس کے قلم نے کچھ آنسو جذب کرکے دور بستے انسانوں کو رلایا۔
پھر ایک رات جب یہ نوجوان سو کے اٹھا تو اس کے چشم دید وہ سارے درد، وہ سارے کرب، وہ سارے نوحے اور وہ سارے جگر خراش کردار ایک کتاب ہوگئے تھے اور یہ کتاب ”لہورنگ داستان“ کے نام سے آج تک میری دراز میں پڑی ہے اور میں اسے کبھی کامل پڑھنے کی جرات نہیں کرسکا۔ کاش! کبھی مجھے اتنا حوصلہ ارزاں ہو کہ میں ایک قوم کے اشک سہ سکنے کا ارادہ باندھ سکوں تاکہ اس نوجوان کو اس کتاب کی رسید دے سکوں۔ بہرحال یہ تاریخ کے ایک حساس عہد کی امانت تھی جو اس شخص نے عہد آیندہ مورخ کے لیے عین چوراہے پر رکھ دی ہے۔
مجھے نہیں معلوم کہ اسلام آبادی چائے والا سواتی ہے، قبائلی ہے یا وزیرستانی یا کسی اور علاقے کا۔ مجھے نہیں معلوم وہ کسی درسگاہ کے اجڑنے سے چائے والا بنا ہے یا اپنے گھرکے لٹنے سے اتوار بازار میں آبسا ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ اس جیسے اور کتنے اپنے لٹے مستقبلوں کے سہانے سپنے، اپنے چکنا چور ہوگئے خوابوں کے ریزے اور اپنے گم ہوگئے سکولوں میں بکھرے بستے تلاش کرتے کرتے کہاں کہاں کاغذ چننے والے، بوٹ پالش والے، چائے والے، ورکشاپ والے چھوٹے بنے ہماری بے حسی کا گلہ ثبوت ہوا کرتے ہیں۔ میں کچھ بھی نہیں جانتا، لیکن شعر و اد ب سے کچھ نہ کچھ تعلق رکھنے کے حوالے سے اپنوں سے اتنا پوچھنا چاہتا ہوں کہ صاحبو! ناصحو! پند گرو! مقتدرو! حکمرانو! اپنے عشاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے؟
اے میری تقدیر کے بننے اور بگڑنے کے قلمدان تھامنے والو! یہ ایک چائے والا کہ جس کی گالوں اور جس کی آنکھوں نے مصرکے بازار تمہارے فٹ پاتھوں پر سجادیئے ہیں۔ سچ کہوں تو تم نے ان نیلی آنکھوں سے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا۔ یہ نہیں کہ انہیں گھروں سے نکال دیا، بلکہ یہ کہ پھر گھروں کو جانے نہیں دیا۔ یعنی جانے دیا؟ مگرریزہ ہوگئی زمیں پر گھر مگر کہاں؟ وہ سڑکیں اور وہ باغ کہاں تھے؟ وہ سکول اور وہ مدرسے کہاں تھے؟ وہ تتلیاں، وہ پھول اور وہ جگنو وہاں کہاں تھے؟ وہ تو اک ایسی اجڑی دلی ہے کہ جسے نوحہ کہنے کو کوئی غالب اور جسے المیہ کہنے کو کوئی شیکسپیئر تک نہیں ملا۔ آئیے اسی نوجوان کے چند روز پہلے کے ایک فیس بک سٹیٹس سے نیلی آنکھوں کا تازہ نوحہ دیکھتے ہیں کہ شاید کسی بنجردل میں ان کے لیے امید کا کوئی گلاب کھل اُٹھے۔
ابھی ایک وزیرستانی دوست آئے۔ چہرے سے شدید تھکاوٹ عیاں تھی۔ میں نے حال احوال پوچھا تو کہنے لگے: ”چار سال بعد اس نیت سے گئے تھے کہ حالات بہتر ہوگئے ہوں گے، لیکن خواب اور سراب کے سوا کچھ نہیں۔ سب ختم ہوچکاہے۔ آبا و اجداد نے جو مکان بنائے تھے، نئی نسل دہائیاں محنت مزدوری کرکے بھی انہیں دوبارہ تعمیر نہیں کرسکتی۔ مٹی کے یہ گھر تو جیسے تیسے بن جائیں گے۔ نہ بھی بنیں گزر ہی جائے گی، مگر سب سے تکلیف دہ بات یہ ہے کہ ہماری پوری کی پوری نسل اَن پڑھ پل رہی ہے۔ جہاں پندرہ سالوں سے گولہ بارود اور شیلنگ کے سوا کچھ نہ برساہو، وہاں تعلیم کیسی؟ علم کیسا؟“
تبصرہ لکھیے