ہوم << حیا ایمان کا حصہ ہے - طاہر فہیم

حیا ایمان کا حصہ ہے - طاہر فہیم

طاہر فہیم سندھ کے وزیرِ اعلیٰ سید مراد علی شاہ نے سندھ کے تعلیمی اداروں میں رقص و موسیقی کی تعلیم پر پابندی کی خبروں کا سختی سے نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ پابندی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی۔چند انتہا پسند عناصر کے ہاتھوں وہ اپنے آزاد اور ترقی پسند منشور کو کسی قیمت پر یرغمال نہیں بننےدیں گے۔ موسیقی اور رقص کسی بھی آزاد معاشرے کے لیے کلیدی حیثیت رکھتا ہے‘ اور وہ ایسی سرگرمیوں کی حمایت جاری رکھیں گے۔(بی بی سی)
آج کل ہمارے تعلیمی اداروں میں رقص اور موسیقی عام چیز ہے ۔کوئی عام پروگرام بھی اس کے بغیر ممکن نہیں ۔مگر اب تو پارٹی میں باقائدہ موسیقار بلائے جانے لگے ہیں جس سے بھگڈر مچنے والے واقعات بھی ہو چکے۔جس طالب علم کو علم کے ساتھ اس کی تعلیم دی جائے گی وہ اپنی عملی زندگی میں پہنچنے تک اس کا عادی ہو چکا ہو گا۔جس کا اندازہ آپکو سیاسی جلسوں میں خوب ہوتا۔
پاکستان ایک اسلامی ملک ہے جس کی بنیاد ہمارے بزرگوں نے اسلام کے نام پر اپنے خون سے رکھی۔ پاکستان کے قیام کی ضرورت پر روشنی ڈالتے ہوئے بانیِ پاکستان نے اسی تہذیبی اور ثقافتی تشخص کی نشان دہی کی تھی
ہم ہند کو ہندستان اور پاکستان میں تقسیم کرنا چاہتے ہیں۔۔۔ ہندو ہند اور مسلم ہند دونوں کو الگ ہونا چاہیے۔ چونکہ دونوں قومیں ایک دوسرے سے بالکل مختلف اور بعض معاملات میں ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ اجازت دیجیے کہ میں آپ کو کچھ اختلافات کے بارے میں بتا دوں۔ ہم ان سے تاریخ، ثقافت، زبان، فنِ تعمیر، موسیقی، قوانین، اصولِ قانون اور ہمارا سارا معاشرتی تانابانا اور ضابطۂ حیات میں مختلف ہیں (اے بی سی لندن کے ذریعے امریکیوں کے نام پیغام، لندن ۱۳دسمبر۱۹۴۶ء، قائداعظم تقاریر و بیانات، جلد چہارم، ناشر: بزمِ اقبال لاہور، ترجمہ: اقبال احمدصدیقی، ۱۹۹۸ء، ص۲۷۲)
یاد رہے کہ قائداعظم رحمتہ اللہ نے یہ بات واضع کر دی کہ ثقافتی اور تہذیبی بنیادوں سے ان کی مراد اسلامی نظام زندگی ہے۔
کہا جاتا ہے کہ رقص اور موسیقی ہماری ثقافت ہے ۔
کیمبرج بین الاقوامی انگریزی کی ڈکشنری کے مطابق
کسی قوم مِلّت یا گروہ کے کسی خاص دور میں بود و باش کا طریقہ بالخصوص عمومی عادات ۔ رسوم ۔ روایات اور عقائد ثقافت یا کلچر کہلاتا ہے۔
چنانچہ ثقافت صرف عادات و رسوم کا ہی نہیں بلکہ صحتمند عادات و رسوم کے مجموعہ کا نام ہے جن کی بنیاد تربیت پر ہو ۔ ہر چند کہ کسی گروہ یا قبیلہ کے لوگ کچھ قباحتیں بھی رکھتے ہوں لیکن ان بُری عادات کو ان کی ثقافت کا حصہ نہیں سمجھا جائے گا۔
ثقافت نہ تو جامد چیز کہ ہم ہڑپہ اور موہنجوداڑو کے وارث ہیں اور نہ ہی ہر دم متغیّر کہمشہور تعلیمی ادارے نے اپنے ضوابط میں پنجابی زبان کو بیہودہ زبان قرار دیتے ہوئے اس سے منع کیا ہے۔
ثقافت وہ چیز ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے۔اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے جو پیدہونے سے دفنانے تک کا ڈھنگ سکھلاتا۔عموما ہمارے معاشرے میں سمجھا جاتا کہ عربی رسوم و رواج کی اسلامی ثقافت پر چھاپ ہے ایسا غلط ہے اسلام نے تو لہسن اور پیاز کھا کر مسجد میں آنے سے منع کیا تاکہ دوسرے لوگوں کو تنگی نہ ہو اسی طرح اس معاشرے کی خامیاں بھی واضع کر دیں۔اسلام کی اپنی ثقافت ہے جو کسی بھی معاشرے سے غلط اقدار سے متصادم ہے۔
اسلام نے مردوں کے لباس میں بتلا دیا کہ ستر ڈھانپنا ضروری۔لوگوں پر شرط عائد نہیں کی کہ پینٹ شرٹ نہیں پہن سکتے۔دنیا کے کسی کونے میں رہنے والے اپنی زندگی اسلام ثقافت میں ڈھال سکتے ہیں۔
اسی طرح دیگر معاملات زندگی ہیں۔
رقص بگڑ کر ایسی شکل اختیار کر لیتا جیسے کالجوں میں کیا جانے لگا جس میں مرد و زن کا آپس میں اختلاط ہوتا جس سے بے شمار معاشرتی بیماریاں پیدا ہوتیں۔حیا ختم ہوجاتا۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء ایمان کا حصہ ہے اور ایمان جنت میں لے جاتا ہے ۔ فحاشی ظلم ہے اور ظلم جہنم میں لے جاتا ہے ۔‘‘(جامع ترمذی:جلد اول:حدیث نمبر 2097)
اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہم اسلامی پاکستانی ثقافت میں ڈھل سکیں تو ہمیں اپنے گریبان میں جھانکنا ہو گا۔

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment