ہوم << عدم اعتراف، انسانوں کا سب سے بڑا جرم - ڈاکٹر بشری تسنیم

عدم اعتراف، انسانوں کا سب سے بڑا جرم - ڈاکٹر بشری تسنیم

تاریخ انسانی میں انسانوں نے جو سب سے بڑا جرم کیا وہ ”عدم اعتراف“ ہے. اور سب سے پہلا جرم اللہ تعالى کی وحدانیت کا عدم اعتراف ہے. اللہ تعالى کے چنیدہ بندوں کو ہادی و رہنما کے طور پہ قبول نہ کرنا بھی انسانی تاریخ کا جرم عظیم رہا.
مال و دولت، تخت و تاج والوں نے بھلا دیا کہ یہ جاہ و حشم عارضی ہے. دنیا کے فانی ہونے اور اعمال کی جواب دہی کا عملا عدم اعتراف ہمیشہ پستی کی دلیل بنا. .
زندگی سدا ایک جیسی نہیں ہوتی دھوپ چھاؤں گرمی سردی کی طرح رحمت کے ساتھ ساتھ زحمت بھی زندگی کی اٹل حقیقت ہے. زندگی اسی سرد و گرم کا نام ہے اور عقل مندی یہ ہے کہ اس کی ناخوشگواریوں کا خوش گواری کے ساتھ سامنا کیا جائے.
تکلیف، غم، دکھ، پریشانی یا بیماری سے واسطہ پڑے تو جب تک اس حقیقت کا اعتراف نہ کر لیا جائے گا، اس سے نپٹنے کا طریقہ کیسے سمجھ آئے گا؟
زندگی کی مشکلات کا سامنا کرنے کا سب سے ناقص طریقہ یہ ہے کہ حقارت اور منفی زاویے سے ان کا سامنا کیا جائے. زندگی کی ذمہ داریا ں نبھانا ایک مشقت طلب کام ہے جو فرد اپنی ذمہ داری کا اپنے عہدے کا اعتراف سچے دل سے کرتا ہے، وہ اس کو احسن طریقے سے نبھانے کا اعتراف بھی کرتا ہے. راعی کم رعیت رکھتا ہو یا زیادہ، اپنی ڈیوٹی سے انحراف کرتا ہے تو اپنے عہدے سے انصاف کیسے کرے گا اور انصاف نہ کرنے والا ظالم کہلاتا ہے. اب ظالم اپنے ظلم کا اعتراف کرے گا تو ہی اس کا ازالہ بھی کرے گا ..
کامیاب زندگی کا راز یہ ہے کہ دوسروں کی قابلیت صلاحیت کا صدق دل سے اعتراف کیا جائے. جو لوگ تنگی نفس سے محفوظ ہیں وہی فلاح پانے والے ہیں..دوسروں کے راستے تنگ کرنے والے، دوسروں کو اللہ سبحانہ و تعالى نے جو کچھ عطا کیا ہے اس کا اعتراف نہ کر نے والے حاسد کہلائے جاتے ہیں. مولانا جلال الدین رومی سے سوال کیا گیا کہ حسد کسے کہتے ہیں تو انہوں نے جواب دیا:
”دوسروں میں خیر و خوبی، نعمت، کامیابی کو تسلیم نہ کرنے کا نام حسد ہے.“
اگر اس کو تسلیم کر لیا جائے چاہے اس کے لیےنفس پہ جبر ہی کیوں نہ کرنا پڑے تو انسان روحانی ترقی کی معراج پا سکتا ہے. دوسروں کی نعمتوں پہ خوش ہونا، اپنے رب کی تقسیم پر راضی رہنا ہے اور یہی پختگی ایمان کی نشانی ہے. اگر انسان خود کو نعمت ملنے پر تو رب کی تقسیم پہ راضی ہو مگر دوسرے کو ملنے پہ اللہ کی عطا و بخشش پہ سوال اٹھائے تو اس ذات کے رب العالمین ہونے کا عدم اعتراف ہے.
اس فانی دنیا کا ابدی قانون یہ ہے کہ اللہ تعالی نے انسانوں کو ایک دوسرے کے لیے آزمائش کا ذریعہ بنایا ہے اور ”ایکم احسن عملا“ کی مسابقت اس کی بنیاد بنائی ہے۔ سب کے حالات ایک جیسے نہیں ہوتے نہ ہی سب کے مزاج ایک دوسرے سے مطابقت رکھتے ہیں، انسانی معاملات ایک دوسرے سے ایسے جڑے ہیں جیسے انسان کے جسمانی اعضاء مربوط ہیں. مزاجوں اور حالات کے اختلاف کی وجہ سے انسان ایک دوسرے کے لئے باعثِ زحمت بھی ہوجاتے ہیں۔ اللہ سبحانہ و تعالى کی مشیت کے تحت لوگوں کے حالات میں الٹ پھیر بھی ہونا زندگی کی اٹل حقیقت ہے. اس حقیقت کا اعتراف کہ اچھے حالات کے ساتھ برے حالات کا سامنا کسی وقت اور کبھی بھی ممکن ہے انسان کو متوازن سوچ کا حامل بناتا ہے.
نامساعد حالات میں بالغ نظری کا انتخاب معاملات کو درست سمت میں رکھنے میں مددگار ہوتا ہے. بالغ نظری کا تقاضا یہ ہے کہ ناپسندیدہ حالات کے اسباب و علل کا اعتراف کر لیا جائے.
سب سے زیادہ اس بات کا احساس ہونا چاہیے کہ تکلیف کیسی بھی ہو زہنی،جذباتی، معاشرتی یا معاشی اس کا سامنا کرنے میں دوسروں کے قصوروں کے ساتہ ساتہ میری اپنی کیا کوتاہیاں شامل ہیں.
اپنی کوتاہیوں کو بے ضرر سمجھنا دوسروں کی غلطیوں کا طومار باندھنا دوسروں پہ بے جا غصہ کرنا، سارا ملبہ اوروں پہ ڈالنا نامناسب رویہ ہے.
معاملہ دو افراد کا ہو، دوگروہ کا یا دو قوموں کا منفی ردعمل کبھی مثبت نتائج نہیں لا سکتا. ہر دو فریق مخاصمت میں ایک دوسرے کی اچھائیوں پہ پردے ڈال کر برائیوں کا کیچڑ اچھالیں گے تو پھر معاملہ چھوٹا ہو یا بڑا شیطان کے ہاتھوں کھلونا بن جائیں گے.
”اس دنیا میں غم بھی زندگی کا لازمی حصہ ہے“ جو فرد اس کا ادراک کر لیتا ہے، وہ غم اور تکلیف کے ساتھ رہنا سیکھ لیتا ہے، اس کو کبھی نقصان لاحق ہوتا ہے تو وہ ذہنی توازن برقرار رکھتا ہے اور اس سے اپنی شخصیت کی تعمیر کے لیے سبق حاصل کرتا ہے. بڑے سے بڑے نقصان دہ امر کا ادراک کر لینا غم و نقصان کا آدھا علاج ہے. باقی آدھا علاج تدبیر سے ممکن ہوجاتا ہے. اس طرح جب اپنی امیدیں پوری نہ ہوں گی توانسان مایوس نہ ہوگا اور فریاد و ماتم نہیں کرےگا، اس کا شعوری ایمان اس کا سہارا بن جائے گا. اس دنیا میں سب کی امیدیں مختلف ہوتی ہیں اور ایک کی تمنا پورا ہونا بعض اوقات دوسرے کی تمنا کا خون ہوتا ہے. اور ”تلک الایام نداولھا بین الناس“ کا فارمولہ اللہ تعالى کے ہاتھ میں ہے اور اس کا خالق وہ خود ہی ہے. منزل پہ پہنچ جانے سے پہلے سارا سفر جس نہج پہ طے کیا، وہ بھی منزل مقصود پہ پہنچ جانے کا ایک حصہ ہے. جنت جیسی منزل تک پہنچنے کا تعین دنیا کے سفر کو طے کرنے کے طریقے پہ منحصر ہے.
زندگی کے سفر میں سب کو خوشیوں کا انتظار ہوتا ہے، ان کی تمنا ہوتی ہے ان کے لیے دعائیں ہوتی ہیں، اچھے نصیب کی التجائیں ہوتی ہیں، بےشک انسان دائمی خوشی کی طلب کرتا ہےاس لیے کہ دکھ اور غم اس کی لسٹ میں نہیں ہوتے کوئی ان کا انتظار نہیں کرتا، بےشک سکھ من چاہے ہوتے ہیں مگر غم دکھ تکلیف أن چاہے، بن مانگے نصیب ہوتے ہیں اور نصیب سے کوئی لڑ نہیں سکتا. اور اللہ سبحانہ و تعالى نے انسان کو اتنی نعمتوں سے نوازا ہے کہ جن کا شمار ممکن نہیں اور انگلیوں پہ گنے جانے والے چند دکھوں کا ذکر ضرور کیا وہ بھی اس لیے کہ صبر کرنے والوں کو بے حساب مزید نعمتیں عطا فرمائے. اور کچہ پانے کے لیے کچھ کھونا پڑتا ہے، کچھ خریدنے کے لیے کچھ ادا کرنا پڑتا ہے، اور وہ چند دکھ بھی ہر کسی پہ سب ہی ایک وقت میں نہیں نازل ہوجاتے، کسی وقت ایک غم آیا ہے تو بے شمار نعمتیں موجود بھی ہیں. ہر نعمت اور کامیابی کسی مشقت کا ثمر ہوتی ہے. اور خالق و مالک کسی پہ اس کی استطاعت سے بڑھ کے امتحان نہیں ڈالتا کہ رحمت اس کا شیوہ ہے. دراصل انسان اس کا اعتراف نہیں کرتا کہ یہ امتحان بھی اس رب کی رحمت کا ہی مظہر ہوتے ہیں، بھلا بغیر امتحان دیے کون سی ڈگری ملتی ہے؟
عدم اعتراف کا دوسرا پہلو یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زندگی میں حاصل خوشیوں، نعمتوں، راحتوں اور محبتوں کا اعتراف نہ کرے، ان گنت نعمتوں کا تزکرہ نہ کرے مگر ایک دکھ پہ واویلا کرے . غم بھی جب دائمی خوشیاں حاصل کرنے کا جواز بنائے گئے ہیں تو پھر انسان کس قدر نادان ہے جو کچھ حاصل ہے اس کانہ اعتراف کرتا ہے نہ قدر، جو ملنے کے بعد چھن گیا اس کا ماتم کناں ہے، جو کچھ موجود اور باقی ہے اس کی فکر نہیں. (لئن شکرتم لازیدنکم )
زندگی جو گزر گئی اس کا اعتراف کیا جائے کہ زیادہ گزر گئی ہے۔ زیادہ خرچ ہوجانے کا احساس ہوگا تو باقی ماندہ کو سلیقے سے خرچ کرنے کے لیے ہوش و حواس بیدار ہوں گے . خطاؤں پہ نظر جائے گی تو مغفرت کی طلب بھی ہوگی.گناہوں کا عدم اعتراف بھی سزا کی ایک شکل ہے.
نقصان، غم،گناہ یا خطاء کا ازالہ کرنا ہو تو اس کے موجود ہونے کا اعتراف کرنا لازمی ہے. کسی بھی وحشت کا مقابلہ اسی وقت ہوسکتا ہے جب اس حقیقت کو اس کے وجود کو تسلیم کیا جائے بیماری کا علاج تبھی ممکن ہے جب اس کا ہونا مان لیا جائے. دکھ ہو یا سکھ دونوں کے بارے میں عدم اعتراف زندگی سے توازن ختم کر دیتا ہے. نعتموں کا اعتراف شکر کا جذبہ پیدا کرتا ہے اور دکھ آزمائش کا اعتراف، صبر اور حوصلے کی ردا اوڑھا دیتا ہے. انسان کی زندگی میں ان دو پہلوؤں کے علاوہ کوئی تیسرا پہلو نہیں ہے.
اس میں شکر کا پہلو زیادہ وزن رکھتا ہے کہ نعمتیں اتنی ہیں کہ شمار ممکن نہیں (وإن تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا) اور غم کی تعداد اتنی کم کہ دو انگلیوں کے خانے بھی زیادہ ہی ہیں.
[pullquote]ولنبلونکم بشئ من الخوف والجوع ونقص من الأموال والا نفس والثمرات و بشر الصابرين .[/pullquote] اللہ تعالى ہمیں زندگی میں خوشی و غم کا اعتراف اور سامنا کرنے کے لیے ایمانی شعور عطا فرمائے اور ہمارے گھروں اور دلوں میں سکون نازل فرمائے. آمین
[pullquote]اللھم وما زویت عنی مما أحب فاجعلہ فراغاً لی فی ما تحب یا مقلب القلوب ثبت قلبی علی دینک [/pullquote] اے اللہ میری جن پسندیدہ نعمتوں کو تو نے مجھے عطا نہ کرنے میں بہتری سمجھی ہے تو اب ان کے حصول کا خیال بھی میرے دل سے نکال دے اور میرے دل کو اپنے پسندیدہ کاموں میں مشغول کردے... اے دلوں کو پلٹنے والے میرے دل کو اپنے دین پہ جمادے..
[pullquote]اللهم انی اسئلک حبک وحب من یحبک والعمل الذی یبلغنی الی حبک آمین....[/pullquote]