ہوم << روٹی - کاشف جانباز

روٹی - کاشف جانباز

انسان روٹی کے لیے کس کس در کو نہیں کھٹکتاتا، کہاں کہاں نہیں بھٹکتا، اور کیا کیا نہیں کرتا؟ ہر ٹیڑھی تدبیر، ہر چال، ہر فریب اور ہر جھوٹ کی کڑی جا کر ملتی ہے، تو انسان کے پیٹ سے کیسی عجیب بات ہے کہ دو تین روٹی سے بھر جانے والا پیٹ اتنی چال بازیاں کر کر کے بھی نہیں بھرتا.
یا شاید یہ پیٹ ہے ہی نہیں لیکن اس پیٹ کے لیے اللہ سے گام گام پر بغاوت کرنا ہمارا شعار بن چکا ہے، بس رزق ملنا چاہیے، اس بات سے بے نیاز ہوئے کہ آیا وہ حلال کا ہے یا حرام کا یعنی آخری مقصد اس گڑھے کو بھرنا ہے مگر حیف صد حیف کہ وہ بھرتا پھر بھی نہیں ہے.
غلط راہوں پر لگ جانے میں سب سے بڑا ہاتھ ہمارے عدم بھروسے کا ہے نیتوں کا فتور تو ہے ہی ہے لیکن وہ توکل اللہ جو پہاڑوں کو چیرتا ہے آندھیوں میں گھرے چراغ کو جلائے رکھتا ہے اور ڈوبتے وقت تیراکی سے نابلد کو تیرائے رکھتا ہے.
ہمارے دامن اسی توکل کو گنوا بیٹھے ہیں اب آسودگیوں کی غوغا خود پسندیوں کی دلربا آسائشوں کی انتہأ اور من مانیوں کی ہو ہا سبھی کچھ تو ہے مگر اللہ پر بھروسہ جو ساری دولتوں سے اعلی تمام مراتب سے بالا اور کامرانی کا رسالہ ہے اسے پرزے پرزے کر کے ہم نے مدتوں پہلے ہوا میں بکھیر دیا ہے.
پرندوں کا توکل تو ہے ہی قابل رشک جو دن کا دانہ چگتے ہیں رات بنا کے ذخیرے کے گزارتے ہیں کیونکہ اگلی صبح کیلئے انکی امیدیں اس ذات سے وابسطہ ہوتی ہیں جو کسی سے اپنا رابطہ پل بھر کیلئے بھی منقطع نہیں کرتا مگر ہم ہیں کہ رسیور کو اک کونے میں پھینک کر پھولے سانس اور کھلے مونہوں کے لیے ہائے ہائے کی گردانیں کرنے میں لگے ہیں.
توکل اللہ کوئی قید کیا ہوا پرندہ نہیں جو اک بار اڑ کے واپس نہ آسکے یہ دائم چکنے والی ہوا ہے جسے روک کر حبس کو تقویت دیتا تو صرف انسان اس کے بغیر کوئی کچھ نہیں کرتا، یہ الگ بات ہے کہ حضرت انسان کے پاس حیلے بہت بہانے بہت عذر بہت اور تو اور الزام ڈالنے کیلئے سر بھی بہت مگر حق یہی ہے کہ اسی کا سر اسے بے سر کیے ہوئے ہے.
بات توکل کی ہے تو اک روداد بھی بیان کرتا چلوں جسے ابو اور نانا سے بارہا مرتبہ ہمارا گاؤں جہاں اب تو مساجد کا جال بکھرا ہوا ہے تب ایک ہی مسجد ہوا کرتی تھی جس میں سارے نمازی اکٹھے ہوتے تھے، جس کا فائدہ یہ تھا کہ جو جو غیر حاضر ہوتا تھا اس کی باآسانی نشاندہی ہو جاتی تھی.
ایک بار نمازیوں نے ٹھانی کہ جو جو نماز میں حاضر نہیں ہوتا اس کے گھر جا کر اس کی سرزنش کی جائے، سمجھایا جائے نیز جس طرح وہ قائل ہو سکے، اسے کیا جائے. بس اسی مشن کو لے کر وہ مسجد سے نکلے، بندے گنے چنے ہی تھے، جب ان سب کی طرف ہو لیا گیا تو کسی نے ان دو بھائیوں کی طرف توجہ دلائی، جو مسجد کے پڑوسی تھے، جن کی سکونت اس کے عقب میں تھی. لیکن کسی ایک کا بھی ان کی طرف خیال تک نہ گیا یا شاید گیا بھی تو سب نے بھلا دیا اور بھلاتے بھی کیوں نہ کہ وہ سارے گاؤں سے بے نیاز، بس کھجی کی چٹائیاں بنانے میں جٹے رہنے والے اور جیسے ہی دو پیسے ہوتے، انہیں افیون پر خرچ کر دینے والے بےکار سے عملی ”افیونی“ ہی تو تھے.
خیر اس بے در در پہ جا کر دستک کی بجائے صدا لگائی گئی تو انہوں نے اندر آنے کا کہہ دیا. پوری جماعت کو اپنے گھر میں پاکر ان پر گھبراہٹ بھی طاری ہوئی مگر ساتھ خوشی بھی تھی کہ اتنے معزز لوگ اس غریب خانے پر آئے خاطر تواضع کی پیشکش کی تو دستے نے شکریہ ادا کر کے مدعا بیان کیا کہ یار نماز تو کم از کم پڑھا کرو جس پر ایک نے کہا کہ دل تو بہت کرتا ہے مگر سارا دن اس لت کا خمار ہی جان نہیں چھوڑتا تو مسجد خاک جایا جائے کیونکہ اس کی جناب میں یوں حاضر ہوتے شرم آتی ہے.
جس پر جماعت کا ایک فرد بولا کہ تم اس افیون کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے، حیرت ہے کہ ساری کمائے اس میں راکھ کر دیتے ہو نہ تمہیں روٹی کی نہ روزی کی بس فکر رہتی ہے تو اس افیون کی جیسے ہی اک دو چٹائیوں کے پیسے ہاتھ آتے ہیں تم لوگ ہاتھوں ہاتھ بیس کوس سے اس کی ڈلیاں لے آتے ہو.. کوئی گھر کی فکر کرو عقل کو ہاتھ مارو پہلے آٹا تو پورا کرو پھر یہ بھی پیتے رہنا. جس پر اس عملی نے جو جواب دیا وہ اگر سونے کے پانی بھی لکھ دیا جائے تو حق ادا نہ ہوگا...
اس نے کہا کہ میاں صاحب اللہ نے ”ٹک“ روٹی دینے کی ذمہ داری لی ہوئی ہے، اس کا وعدہ کہ اس نے بھوکا نئیں سلانا، بس اب اللہ جانے اور روٹی جانے، جس کی ذمہ داری ہے وہ نبھا رہا ہے اور نبھاتا رہے گا، رہا سوال اس افیون کا تو اس کا اللہ نے وعدہ نئیں کیا، اس لیے ہم سارا دن تھکتے ہیں ورنہ اس کی فکر سے بھی بے نیاز ہو جاتے....
میں آج بھی جب وہ رزق کے حوالے سے کی گئی بات یاد کرتا ہوں تو جسم میں جھرجھری سی دوڑ جاتی ہے، کہاں وہ عملی جو سب سے بے نیاز، لیکن اتنا انہیں بھی پتا تھا کہ روٹی اللہ نے دینی ہے اور کہاں ہم باہوش کہ جنہیں چپے چپے کی خبر ہے لیکن ایسے حواس باختہ ہوچکے ہیں کہ رازق تک سے یقین اٹھ گیا ہے، اس لیے تو ذہنی اختراع کے مرید ہو چکے ہیں اور ان راہوں پر چلتے جنہیں ابلیس ہموار کرتا ہے.
لیکن ایک بات حتمی ہے توکل اللہ ہے تو سب کچھ ہے، یہ نہیں تو کچھ نہیں، اس میں عقیدوں کی چمچماتی روشنی سے لیکر زندگی کے ہر ایک جھمیلے کا حل پنہاں ہے. بس اب اس سے زیادہ قسمت کے اعتبار سے کج رو کون ہوگا جو مسائل کے خود ساختہ انبار تو رکھتا ہے مگر توکل کی نعمت اس سے کوسوں دور ہے.

ٹیگز

Comments

Click here to post a comment