اب سیلانی انجانے نمبروں سے آنے والی ٹیلی فون کالز کا نوٹس نہیں لیتا نہ سوچتا ہے کہ کال وصول کرتے ہی اسے وہ الفاظ سننے کو مل سکتے ہیں جو کسی کتاب میں موجود نہ ہونے کے باوجودسب سے زیادہ مستعمل ہیں۔ اب سیلانی ان رویوں کا عادی ہوچکا ہے اس لیے وہ سیل فون کی اسکرین پر انجانا دیکھ کر سوچ میں نہیں پڑا اور کال وصول کرلی۔
’’السلام علیکم سیلانی بھائی!‘‘
’’وعلیکم السلام ‘‘
’’ہم ادھر سعودیہ کی شمیسی جیل سے بات کر رہا ہوں۔‘‘
’’ہیں .... کیا کیا کیا .... جیل سے، وہ بھی سعودیہ کی؟‘‘
’’جی بھائی ہم جیل میں ہے اور بڑی مشکل میں ہے، ہمارا مدد کرو، آپ ہمیں جانتے ہو، میں گل اعظم بات کر رہا ہوں، وہ جو شیرشاہ سے آپ کو فون کرتا تھا۔‘‘
سیلانی کے ذہن میں ایک دم سے جھماکا ہوا، اسے گل اعظم یاد آگیا، کراچی کے علاقے شیرشاہ میں گل اعظم کی پشاوری چپلوں کی دکان تھی۔ جس گلی میں گل اعظم کی دکان تھی وہیں اس کے دوست حضرت بلال کا گھر بھی تھا۔گل اعظم اکثر اسے فون کرتا، اس کے کالم پر بات کرتا اور چائے کی دعوت دے کر کہتا کہ سیلانی بھائی! میں آپ کا انتظار کرتا ہوں۔
سیلانی نے گل اعظم سے پوچھا ’’گل اعظم! آپ سعودیہ اور پھر جیل میں کیسے آگئے؟ ماجرا کیا ہے اور یہ کیساجیل ہے کہ آپ کو فون کرنے کی بھی سہولت ہے؟‘‘
’’سیلانی بھائی !مت پوچھو لمبا داستان ہے، ہم ادھر بہت مصیبت میں ہے، نوازشریف اور آرمی چیف سے بولو خدا کے لیے ہمارا مدد کرے، ہم بےگناہ ہے، بڑی مشکل میں ہے۔‘‘
’’گل اعظم،گل اعظم .... مجھے پوری بات تو بتاؤ۔ تم نے کیا کیا ہے ،کسی عربی سے جھگڑا تو نہیں ہوا،کسی کو پیٹا ویٹا تو نہیں ہے؟‘‘
’’نہیں ،نہیں .... ہم ایسا کیوں کرے گا سیلانی بھائی، بس ہمارا نصیب خراب تھا کہ ہم ادھر سعودیہ آگیا، اچھا خاصا چلتا ہوا دکان تھا، سارا کام بھی خراب ہوگیا اور ہم بھی خوار ہوگیا، ہوا ایساہے کہ ادھر شارع فیصل پر ایک ویزہ بیچنے والا ایجنٹ ہے۔ ایک دوست نے اس خبیث کے بچے سے ہمارا سلام دعا کرایا، اس نے ہم کو کہا کہ میرے پاس حرم شریف کا ویزہ آیا ہوا ہے، خانہ کعبہ میں خدمت کا کام ہوگا، اب بتاؤ کون مسلمان اس عزت کو چھوڑے گا کہ اس کی آنکھ بند ہو تو وہ حرم شریف میں ہو، صبح آنکھ کھلے تو حرم شریف میں ہو۔ ہمارا تو خوشی سے دل جھوم گیا، ہم نے اس کو دو لاکھ پینتیس ہزار روپے دیا اور پروٹیکٹر، میڈیکل کروا کر گھر والوں کا دعائیں اور بچوں کا فرمائشوں کا پرچی لے کر جہاز پر چڑھ گیا۔ راستے بھر میں دل ہی دل میں اللہ کا شکر ادا کرتا رہا کہ پتہ نہیں اللہ کو ہمارا کون سا نیکی اچھا لگ گیا کہ اس نے ہم کو اپنے گھر کی خدمت کے لیے بلایا۔ واللہ! خوشی سے ہمارا کیفیت ہی عجیب تھا، ہم ادھر پہنچا تو پتہ چلا کہ ادھر تو بات ہی کچھ اور ہے، ہم کو ہمارے کفیل نے ادھر ایک ہوٹل میں برتن دھونے پر لگا دیا۔ سیلانی بھائی! ہمارے ساتھ بڑا ظلم ہوا، اس ایجنٹ نے جھوٹ بول کر ہمیں ادھر پھنسا دیا، ہم پٹھان محنت سے نہیں گھبراتا لیکن ہم تو ادھر حرم شریف کاخدمت کے لیے آیا تھا، جتنا تنخواہ ہمیں کفیل دے رہا تھا، اس سے زیادہ تو پاکستان میں کما لیتا تھا، سب گھر والا بھی پاس ہوتاتھا، ہم نے کسی نہ کسی طرح تین مہینہ کاٹا اور پھر وہاں سے کام چھوڑ دیا، ہم سے ذلت برداشت نہیں ہوتا تھا، ہم ادھر سے بھاگ گیا اور چھپ گیا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ حج کرکے واپس آجائے گا، ہم نے حج کیا اور پھر خود کو پولیس کے حوالے کر دیا، اس نے ہمیں جیل ڈال دیا۔ اب ادھر کا حال یہ ہے کہ ادھر کا دنیا ہی الگ ہے، ایک ایک ہال میں ستر ستر پاکستانی ہے، ہمیں بس اتنا کھانا ملتا ہے کہ ہم زندہ رہے، دو خمس سے کیا ہوتا ہے اور کھانا بھی ایسا کہ حلق سے نیچے نہیں اترتا اور پیشاب پاخانہ کا الگ مصیبت ہے۔ ایسا گندا غلیظ جگہ ہے کہ انسان کا بدبو سے دماغ پھٹ جائے،گندگی سے کپڑا بھی بلماس ہوجاتا ہے۔ ادھر ہم لوگوں کا نماز پڑھنا بھی مشکل ہو گیا ہے۔ جب کپڑا صاف نہیں ہوتا تو نماز کیسے پڑھے؟ بہت مشکل میں ہوں سیلانی بھائی! ہمارے لیے کچھ کرو، ہم لوگ مجرم نہیں ہیں۔‘‘
’’مجھے یہ بات بتاؤ کہ آپ کفیل سے بھاگے کیوں؟ آپ نوکری چھوڑ دیتے۔‘‘
’’سیلانی بھائی! ہمارا پاسپورٹ کفیل کے پاس تھا، وہ ہم کو نہیں چھوڑتا، اسی کے پاس نوکری کرنا ہوتا ہے، آزاد ویزے والے کا مرضی ہوتا ہے کہ وہ کہیں بھی کام کرے۔ ہم ایگریمنٹ والے ویزے پر آیا تھا، ہم کوجس نے ویزہ جاری کیا تھا اسی کے پاس کام کرنا ہوتا ہے۔‘‘
گل اعظم سے بات کرنے کے بعد سیلانی نے اسے کہا کہ آپ کو سیل فون رکھنے کی اجازت ہے؟
’’ہاں! ہمارے پاس موبائل ہے، یہ منع نہیں ہے۔‘‘
’’اس سے ایک وڈیو بنا کر بھیجو، اس میں اپنا سارا حال بتاؤ۔‘‘
’’ہم بنا کر بھیجے گا بس آپ یہ ہمارا کام کرو، ادھر پندرہ بیس ہزارپاکستانی ہے، سب آپ کو دعا دے گا، ہم لوگ بڑی مشکل میں ہے۔‘‘
گل اعظم واقعی بڑی مصیبت میں تھا۔ وہ دور کے ڈھول کی تھاپ سن کر چل پڑا تھا اور اب قریب پہنچنے پر کانوں میں انگلیاں ڈالے ہوئے پریشان کھڑا تھا کہ یہ کیا مصیبت ہے۔گل اعظم کے ساتھ واقعی زیادتی ہوئی، اس سادہ لوح انسان کو ایک عیار ایجنٹ نے لوٹ لیا، اس میں اس کی سادگی یا حماقت کا بھی بڑا حصہ تھا لیکن اس وقت تو مسئلہ مکہ مکرمہ کے قریب شمیسی جیل میں موجود ہزاروں پاکستانیوں کا تھا جو دیار غیر میں اپنے خوابوں کی تعبیریں ڈھوندنے نکلے تھے، جو اپنے بچوں کو اچھے اسکولوں کے یونی فارم میں دیکھنے کی خواہش میں دربدر ہوئے تھے، جو کرائے کے مکان سے اپنے نام کی تختی والے مکان کی آرزو میں باہر نکلے تھے، جو بہنوں کی ڈولیوں کا بوجھ ڈھونے کے لیے ہزاروں میل دور بوجھ ڈھونے پہنچے تھے۔ سیلانی کو ویزے اور بیرون ملک ملازمتوں کی پیچیدگیوں کا کچھ پتہ نہیں، اس نے معاملہ سمجھنے کے لیے اپنے کزن نذر الرحمان کو کال کی وہ ساری بات سننے کے بعد کہنے لگا:
’’ایک آزاد ویزہ ہوتا ہے اور دوسرا کمپنی کا یا جاب ایگریمنٹ والا، آزاد ویزے میں بندہ اپنی ملازمتیں تبدیل کر سکتا ہے لیکن ایگریمنٹ والے ویزے میں اسے اس کمپنی یا بندے کے پاس کام کرنا پڑتا ہے جس نے اسے بلایا، اب اگر اس کی اس بندے یا کمپنی سے نہیں بنتی یا کوئی تنازعہ ہوجاتا ہے تو وہ سعودی عدالت سے رجوع کر سکتا ہے یا اس سے پہلے ہی کفیل سے بات چیت کر کے معاملہ نمٹا سکتا ہے، اگر وہ اسے بتائے بنا کہیں اور چلا جاتا ہے اور وہ کفیل وہاں کی متعلقہ وزارت کو آگاہ کر دیتا ہے تو وہ سعودی قوانین کے حساب سے مجرم قرار پاتا ہے اور ایسے لوگوں کو ملک بدر کر دیا جاتا ہے‘‘۔
اب جب سیلانی نے گل اعظم سے بات کی تو یہی معاملہ نکلا، وہ سعودی عرب خانہ کعبہ کے خدمت گاروں میں شامل ہونے کے لیے آیا تھا، ہوٹل میں برتن دھونے کے لیے نہیں، اس نے دو تین مہینے کام کیا اور پھر وہاں سے بھاگ نکلا، وہ چھپتا چھپاتا پاکستانیوں کے ڈیروں میں ادھر ادھر نہایت معمولی اجرت پر کام کرتا رہا، وہ حج کرنا چاہتا تھا، حج کے بعد اس نے خود کو پولیس کے حوالے کردیا کہ اسے ڈی پورٹ کر دیا جائے، اور پولیس نے اسے شمیسی جیل میں ڈال دیا جہاں کی ایک اور ہی دنیا تھی۔
گل اعظم نے اپنے سیل فون سے وہاں موجود پاکستانیوں کے انٹریو کر کے سیلانی کو بھیجے، جنہیں سن کر سیلانی کا دل بوجھل ہوگیا۔ یہ سنہرے دنوں کی آس میں وطن چھوڑ کر گئے تھے اور جیل کی کوٹھڑیوں میں پڑے پاکستانی سفارتخانے والوں کا انتظار کر رہے تھے۔گل اعظم کا کہنا تھا کہ سفارتخانے والے آتے ہیں لیکن گنے چنے پاکستانیوں کو ہی لے جاتے ہیں اور صورت حال یہ ہے کہ روزانہ دو دو تین تین سو پاکستانی شمیسی جیل میں سنہرے خواب دیکھنے کی سزا کاٹنے پہنچ رہے ہوتے ہیں۔
گل اعظم کا کہنا ہے کہ یہاں صفائی ستھرائی اور تازہ ہوا نہ ہونے کے سبب ہر دس میں سے آٹھ قیدی بیمار ہیں۔ جب ایک ہال میں ستر ستر پچاسی پچاسی لوگ بھرے جائیں گے تو صفائی کہاں سے ہوگی اور صحت کیا رہے گی؟ ان پاکستانیوں کی وطن واپسی کے لیے یقینی طور پر حکومت کو حج آپریشن کی طرح کا کوئی سلسلہ کرنا پڑے گا اور ساتھ ساتھ ان سفاک عیار ایجنٹوں کے خلاف بھی وہ ایکشن لینا ہوگا جو کبھی نہیں لیا گیا۔ ایک آپریشن ضرب عضب ان دہشت گردوں کے خلاف ہونا چاہیے جو سادہ لوح پاکستانیوں کو بیرون ملک ’’بیچ‘‘ ڈالتے ہیں۔
سیلانی اپنی اس تحریر کے ذریعے شمیسی جیل میں موجود ہزاروں گل اعظموں کی اپیل وزیر اعظم کے سامنے رکھ رہا ہے کہ انسانی بنیادوں پر ہی سہی، ان پاکستانیوں کو وطن واپس لایا جائے، انہیں اچھے دنوں کی خواہش اور خوابوں کی سز امل چکی ہے۔ سیلانی اچھی امید کے ساتھ یہ اپیل کرتے ہوئے واٹس اپ پر شمیسی جیل کے پریشان حال ہم وطنوں کو ہمدردی اور افسوس بھری نظروں سے دیکھتا رہا، دیکھتا رہا اور دیکھتا چلا گیا۔
تبصرہ لکھیے