’تم حرمِ کعبہ میں دعا کرنا کہ خدا میرے بیٹے کو شہادت عطا فرمائے اور پورا ہندوستان اس کے باعث ہِل کے رہ جائے‘، مظفر وانی حج پہ جانے والی اپنی عزیزہ سے درخواست کر رہے تھے۔ برہان مظفر وانی کی شہادت نے فی الواقع پورے ہندوستان کو ہلا ڈالا ہے۔ تحریکِ انتفاضہ میں جتنی جان اب ہے پہلے کبھی نہیں تھی۔ ہندوستان Humanitarian Disaster کی طرف بڑھ رہا تھا ، جس وجہ سے عالمی پریشر نے جنم لیا اور انڈیا کو دفاعی پوزیشن اختیار کرنا پڑی۔ جنازہ مقبوضہ کشمیر کی تاریخ میں سب سے بڑا تھا۔ قریباََ 85لاکھ کی آبادی والے کشمیر میں 10 12لاکھ کشمیری نمازِ جنازہ میں ہر رکاوٹ اور کرفیو کے باوجود موجود تھے۔ لاہور چیمبر آف کامرس کے خنک کمرے کے باہر 22 اکتوبر کی اداس شام گہری ہو رہی تھی۔ مرتضیٰ شبلی مرصّع، مسجع اردو اور خالص انگلش لہجے میں روانی اور تہذیب سے لڑیوں میں حقائق کے تلخی پِرو رہے تھے، کہیں کہیں پرکشش فارسی انداز میں مولائے روم اور اقبال کے شعر بھی پڑھتے جاتے۔
آج اس انتفاضہ کو 106 دن ہو چکے ہیں۔ 110 لوگ کم ازکم نشانہ بن چکے ہیں۔ 50%افراد وہ جو راہ چلتے؍ گھروں میں شہید ہوئے ہیں۔جس طرح اسرائیل اندھا کرنے کے لیے گنز کا استعمال کرتا ہے اسی طرح انڈیا نے بھی سفّا کانہ اندازمیں اب تک تقریباََ 1500افراد کو جزوی یا مکمل طور پہ نابینا بنادیا ہے۔ 15000سے زائد افراد زخمی ہیں جن میں سے 1500کے قریب Life changing inguriesکا شکار ہو بن چکے ہیں۔ 15000سے زائد گرفتا ر ہیں اور 500افراد سے زیادہ بدنامِ زمانہ Public safty act کے تحت بغیر وجہ بتائے ، پرچہ کاٹے جانوروں کی طرح جیلوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں۔ 2000سے زائد عوامی ریلیاں جن میں مظاہرین کی تعداد 20000 سے 200000 تک رہی اب تک نکالی جا چکی ہیں۔ خود ہمارے گھر تین بار حملہ ہوچکا ہے ۔ میرے والدین کشمیر میں نامعلوم مقام پر بھاگ چکے ہیں۔ مرتضٰی بتا رہے تھے اور ہم ادب کی چاشنی میں گھلے سنگین حقائق کو حلق سے اتارنے کی ناکام کوشش کررہے تھے۔ سلسلہئِ کلام جاری تھا…
یہ جان لینا چاہیے کہ موجودہ تحریک میں حرّیت کانفرنس کا کوئی کردار نہیں اور یہ اب نوجوانوں کے ہاتھ میں ہے جنہیں نمازیں پڑھنے سے بھی روکا گیا۔ اس انتفاضہ میں پاکستان کا بھی کوئی کردار نہیں۔ تین ہفتے کی زبردست مزاحمت اور بڑے پیمانے پہ شہادتوں کے باعث عالمی برادری کی خاموشی ٹوٹی۔پھر اْڑی حملہ ہوگیا اور پاکستان بھارت میں براہِ راست ٹکرائو شروع ہوگیا۔ کشمیر میں اکثر لوگ یقین رکھتے ہیں کہ یہ سب خود بھارت کا رچایا گیا ڈرامہ تھا، اس کی مختلف یقینی وجوہات بھی ہیں جیسے:
٭ایسا ہونا خود انڈیا کے لیے بین الاقوامی طور پہ حمایت لینے اور توجہ ہٹانے کے لیے فائدہ مند ہے
٭بِل کلنٹن کی 1996/97میںانڈیا آمد کے وقت بھی سکھوں پہ حملے شروع کردیے گئے تھے اور الزام پاکستان پر لگا دیا گیا تھا
٭انڈیا پچھلے 30سالوں میں دودرجن کے قریب اس طرح کے اسٹیج سجاتا رہا ہے جن کے راز بعد میں طشت ازبام ہوتے رہے ہیں
٭سمجھوتہ ایکسپریس کا سازشی سانحہ بھی اسی سلسلے کی سیاہ کڑی تھی
٭اْڑی ایک گیریژن سٹی ہے جہاں ہر ایک کشمیری کے مقابلے میں 5فوجی موجود ہیں۔ ایک ایسے شہر میں یہ ہونا بھی عجیب ہے
سمجھ لینا چاہیے کہ انڈیا اس تمام عمل سے تین طرح کے مقاصد حاصل کرنا چاہتا ہے…ورلڈ کمیونٹی کو بلیک میل کرنا…پاکستان کو ڈرانا…رائے عامہ کو گمراہ کرنا۔ امریکہ کے پاکستان ڈیسک کا انچارج بھی ایک انڈین ہے……ہال میں بسکٹ اور سینڈوچز تقسیم کیے جارہے تھے۔ حاضرین ہمہ تن گوش تھے۔شبلی پانی پینے کے بعد پھر گویا ہوئے…
ہم مایوسی کا شکار ہوچکے تھے۔ ہرطرف مایوسی ہی دِکھتی تھی۔ پاکستان سے بھی امیدیں ختم ہوچلی تھیں۔ہندوستان میں ایک مستحکم بیانیہ موجود ہے کہ اصل مسئلہ پاکستان ہے۔ اگر وہ خرابی پیدا نہ کرے تو کشمیر کوئی پرابلم ہی نہیں… لیکن امیدوں کے دیے اچانک روشن ہوگئے ہیں۔ کشمیر میں 38000کے قریب عسکری تھے جن میں سے 18000نے سرنڈر کر دیا۔ 2010ء تک مشرف دور میں پالیسی شفٹ کے نتیجے میں انڈین انٹیلی جنس کے ذرائع کے مطابق عسکریوں کی تعداد قریب قریب ختم ہو چکی تھی۔ گو عوامی حمایت بڑے پیمانے پہ موجود تھی۔یہ لوگ مجاہدین کو پناہ مہیا کرتے، ان کے خرچے اٹھاتے۔ مجاہدین کے جنازوں میں 70000 تک مجمع پہنچ جاتا۔وہاں پاکستان، حزب المجاہدین اور لشکرِ طیبہ کے نعرے لگتے ہیں۔ اس وقت کشمیر میں سب قیادت یکسو نظر آتی ہے۔
یہ تاثر خود بھارت میں مضبوط ہوتا چلا جارہا ہے کہ انڈین آرمی اس مسئلے کو حل نہیں ہونے دیتی۔ مختلف وجوہات میں یہ بھی شامل ہیںکہ مقبوضہ وادی میں بھیجے گئے فوجیوں کو تنخواہیں اور مراعات زیادہ ملتی ہیں۔ایک عام فوجی کی تنخواہ 22000ہے لیکن وادی میں بھیجے جانے کی صورت میں 26000۔ اس کے علاوہ بھارتی فوج کمبل سے لے کے چھوٹی چیزوں تک وادی سے چراتی ہے۔ جنرل مشرف نے وادی کی Demilitrizationکی بات کی تو اسے فوراََ رد کردیا گیا…چائے سَرو ہوئی تو سردی کا احساس کچھ کم ہوگیا۔ نرم لہجے کے مالک مرتضٰی شبلی کی دھیمے لہجے میں آگ گفتگو آگے بڑھی…
پاکستان کی واضح حمایت سے جدوجہدِ آزادی کو پشت پناہی کو دلاسا حاصل ہوا ہے۔ نوازشریف ان دنوں ہمارے ہاں بہت مقبول ہیں۔ جس دن پاکستان کی جماعتوں کا مشترکہ اجلاس اور اسمبلی سیشن تھا لوگ گھروں میں ٹیلی ویژن سکرین کے آگے بیٹھے رہے۔ جنرل راحیل شریف کا خطاب بھرپور شوق سے سنا گیا۔ بگڑتی صورتحال کے باعث وادی بھر میں فوراََ ریاست کی طرف سے پاکستانی چینلز پر پابندی عائد کردی گئی۔ حالات بالکل بدل گئے ہیں۔ لوگ شہید ہوتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں پر خوف ان کے چہروں کے ساتھ دلوں سے بھی ختم ہو گیا ہے۔ وہ آگے بڑھتے ہیں ، گرتے ہیں، پھر اٹھتے ہیں۔ اب لوگ سرِعام پاکستانی جھنڈے اٹھائے نعرے لگاتے نظر آتے ہیں۔ہم بچپن سے یہ جھنڈے دیکھتے آئے ہیں لیکن اب یہ Love affairاوپن ہوگیا ہے۔ہم نے نعرے سنے ہیں…’بھوکا ننگا ہندوستان۔ جان سے پیارا پاکستان‘۔ اس تحریک نے شہری علاقوں کے ساتھ دیہاتوں میں بھی جڑیں پکڑ لی ہیں۔اتنے بڑے پیمانے کے موومنٹ کو دیکھتے ہوئے فاروق عبداللہ نے جون میں کہا تھا کہ کشمیری تو پاکستان ہیں…سوالوں کا لمبا سلسلہ شرکا کی موضوع سے وابستگی کا پتہ دے رہا تھا۔ پانی کا گھونٹ بھرا اورجواب شروع ہوئے…
ہم سمجھتے ہیں آزاد کشمیر حکومت بہرحال بہتر ہے۔ یہاں کوئی سڑکوں پہ قتل تو نہیں ہوتانا؟ کوئی خواتین کو اٹھا کے تو نہیں لے جاتا۔ کرپشن ہوگی مگر تشدد تو نہیں۔ فوج کی اتنی بڑی تعداد اور پھر اس کی بدمعاشی تو قائم نہیں۔راج ناتھ کسی ریاست کے اندرونی معاملات میں بیان جاری نہیں کرسکتا لیکن کشمیر پر کھل کے بولتا ہے۔
ہم پاکستانی میڈیا کے کردار سے مطمئن نہیں۔ آپ صرف اتنا کردیں کہ کشمیر کو ایک پروفیشنل ایشو کے طور پہ لے لیں۔ کیا اس میں خبریت کے تمام تقاضے پائے نہیں جاتے؟میڈیا صرف اپنی پروفیشنل ذمہ داریاں پوری کرے ۔ انڈیا ایک بڑی طاقت ہے ، اس کے بارے میں معلوماتی رپورٹنگ کریں جذباتی نہیں۔ یہی رپورٹنگ کارآمد ہوسکتی ہے۔ اس اہم نشست کے اختتامی مراحل شروع ہوچکے تھے…
مضبوط پاکستان ہی ہمارے لیے خواہش اور دلچسپی کا باعث ہے۔ دریائے نیل کا منبع ایتھوپیا میں ہے۔ وہ کمزور ملک تھا۔ ڈیم بنانا چاہا تو مصر نے جہازوں کے ذریعے اس پہ بم برسائے اور ڈیم کی تعمیر آگے نہ بڑھنے دی…ملّا زناوی وہاں کے لیڈر تھے۔ انہوں نے ملک کو مستحکم کیا ۔ آج ایتھوپیا ڈیم بنا رہا ہے اور مصر کچھ کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ اس لیے مضبوط پاکستان ہی امید کی علامت ہے
یونیفائیڈ میڈیا کلب کی طرف سے منعقدہ ’کشمیر انتفاضہ‘ ورکشاپ ختم ہوچکی تھی۔ کرنے کو بہت کچھ صحافیوں کے لیے چھوڑ گئی تھی۔ فرسٹ ہینڈ نالج اور لائن آف ایکشن ۔ کوئی چاہے تو پروفیشن سمجھ لے چاہے تو ذمہ داری،ذات کی ترقی جان لے یا پاکستان کی ناگزیر تکمیل ، جاب کا تقاضا سمجھ لے یا امت کا قرض ۔پر یہ پڑھے لکھے صحافی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ذہن بدل سکتے ہیں۔ سوچنے کا رخ موڑ سکتے ہیں۔ گر کوئی کرنا چاہے۔
روایتیں کچھ چلا چلے ہم
تم ان کو آگے بڑھائے رکھنا
تبصرہ لکھیے