سلیم صافی کا گلدستہ:
جمعیت کے نوجوان، پاسبان کے شباب اور پھر لفظوں کے کھیل میں گم ہو جانے والے صحافی سلیم صافی، آج کل اتحادیوں کے زیرِ لب ہیں، وجہ ان کا کالم "جماعت اسلامی کیوں نہیں" ہے جسے پڑھ کر جماعت اسلامی کے حامی پھولے نہیں سما رہے اور مخالفین ناگواری کے احساسات کو سنبھالنے کی کوشش کر رہے ہیں میں نے بھی حرفِ گل پڑھا تو تلملا اٹھا، فرطِ جذبات سے نہیں کہ مجھے بہت خوشی ہوئی، اور نہ اس وجہ سے کہ ناپسندیدگی کی آخری حدوں کو پہنچ کر کراہت میں ڈوبنے لگا تھاسچ تو یہ ہے کہ یہ گلدستہ جو انہوں نے چن کے رکھا ہے میری آنکھوں کو بھی ویسے ہی خیرہ کر گیا ہے جیسے ان کے حامی لطف اٹھا رہے ہیں مجھے انکار نہیں جماعت اسلامی ایسے نظام پر کھڑی ہے جس کے اندر کرپشن پنپ نہیں سکتی، اگر کسی فرد کے اندر اس کی بو بھی آ جائے تو یہ اگل کر باہر پھینک دیتی ہے جو پھر اعجاز چودھری صاحب اور حنیف عباسی صاحب کے نام سے باقی سیاسی جماعتیں اٹھا لیا کرتی ہیں۔ عنایت اللہ خان صاحب کی صوبائی کارگردگی ہر دیکھنے والے کو نظر آ رہی ہے، جسے وہ بدتمیز جمہوریہ سوشل میڈیا کا لفب عنایت فرما رہے ہیں اگرچہ ظاہری طور پر وہ اس کارکردگی کے منافع میں برابر کے شریک ہیں، پشاور کی خوبصورتی کو ہمیشہ تحریک انصاف کے دور حکومت سے موسوم کیا جائے گا قطع نظر اس کارکردگی کا شرف و اعزاز جماعت اسلامی کے وزیر کو ملا اور انہوں نے امانت و دیانت سے اس کا حق ادا کرنے کی تابہ مقدور کوشش کی مجھے جماعت اسلامی کی الخدمت فاؤنڈیشن کی انسانی خدمات کا اعتراف ہے، ہاں شاید وہ کینسر کا ہسپتال نہیں بنا پائے لیکن جھوٹے جھوٹے زخم جسے شاید بڑے لوگ غرباء کے لیے قابل برداشت سمجھا کرتے ہیں، الخدمت کے مرہم کو محسوس کرتے ہیں۔ وہیں مجھے اسلامی جمیت طلبہ کی منظم افرادی اور نظریاتی قوت سے انکار نہیں اور پھر ان کے ان نوجوانوں پر اثرات جو نہ تو مذہبی پس منظر کے حامل، نہ کسی مدرسے کے طالب علم اور نہ مولویانِ دین کے فیضانِ نظر بلکہ جدید تعلیم کے خوگر ہوتے ہیں۔ بابت ترکی کے اس حقیقت سے تو اب سیکولر احباب بھی انکار نہیں کر پا رہے کہ رجب طیب اردوگان، سیاسی اسلام کا ہی راہی ہے، ہر جلسہ عام میں دونوں ہاتھ اٹھا کر رابعہ کا نشان بنانا اس کا واضع اظہار ہے کہ وہ عالمی تحریک اسلامی کا ہی نمائندہ ہے جس کی علاقائی اکائیاں اخوان المسلمون اور جماعت اسلامی ہیں۔ پاکستان کے اندر جمہوریت اور جمہوری کارکردگی میں جماعت اسلامی اس قدر مستحکم روایت رکھتی ہے کہ ن لیگ، پی پی پی پی، جے یو آئی (ف) اور ایم کیو ایم تو کجا تحریک انصاف کوشش کے باوجود ایک صدی میں بھی یہ مقام حاصل نہیں کر سکتیں کیونکہ یہ تمام جماعتیں، اپنی بناوٹ اور ساخت میں جمہوریت کو برداشت نہیں کر سکتیں اور جب کبھی حقیقی جمہوری گونج اٹھے تو ان کا ڈھانچہ ٹوٹ کر دو اور تین میں بکھر جاتا ہے اسی طرح سلیم صافی کی اس بات سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا ہے جب جماعت اسلامی دھرنا دینے پر آ جائے تو پھر لگ پتا جائے گا کہ شہر کیسے بند کیے جاتے ہیں اور دھرنے کیسے دیے جاتے ہیں کیونکہ قاضی حسین احمدؒ کےدور امارت کے بعد احتجاجی سیاست اس کے خمیر کا حصہ بن چکی ہوئی ہے جس کے مزے چار سال سے تحریک انصاف چکھنے کی کوشش کر رہی ہے
تشنہ سوال اور تشنہ جواب:
اس اقرار مبینہ کے باوجود مجھے اس سوال کا جواب نہیں مل سکا جو خود سلیم صافی صاحب تلاش کر رہے تھے کہ جماعت اسلامی کیوں نہیں؟ دلیل کی زبان میں جو سحر ہمارے حواس پر طاری کیا گیا ہے، آخر وہ اس سوال کا جواب کیوں نہیں؟ 75 سالہ جماعت اسلامی ان نایاب خوبیوں کے باجود سیاسی میدان میں ناکام کیوں ہے؟ میں پھر اقرار کرتا ہوں کہ یہ گلدستہ بہت خوبصورت ہے، اس میں وہ تمام تر پھول چنے ہیں جو سیاسی جماعتوں کی پہچان ہوا کرتے ہیں اور جو انہیں پُرکشش بنا دیتے ہیں، جو کارکردگی کے پیمانوں کو لبا لب بھر دیتے ہیں لیکن اس گلدستے کا جماعت اسلامی کو فائدہ کیوں نہیں ہو سکا؟ آخر ان پھولوں کی خوشبو اس چمن میں بہار آور کیوں نہیں ہو سکی؟ جماعت اسلامی کیوں نہیں؟ یہ سوال نیا نہیں ہے، یہ گردان پرانی ہے. ان خوبیوں سے صرف نظر کرتے ہوئے بہت سے دانشور اس بارے سوچتے اور جواب بنانے یا دینے کا اہتمام کرتے پائے گئے ہیں. اس سعی کے دوران اگرچہ سیاسی میدان میں مقابلہ آرائی کا تقابلی طریقہ ایک عرصہ سے پروان چڑھ رہا ہے، لیکن زیر زمین جڑیں گاڑنے کے لیے کسی بھی جماعت کے لیے اپنی پالیسوں اور پروگرامات کا آزاد جائزہ لینا از حد ضروری ہوا کرتا ہے. آج ہی فرخ سہیل گوئندی صاحب نے اس سوال کا جواب تلاشنے کی ایک ایسی ہی کوشش کی ہے، سلیم صافی صاحب جس کا تقابلی طریقے سے جائزہ لے رہے تھے، لگے ہاتھوں ہم اس تجزیے کا جائزہ بھی لیے چلتے ہیں
سماجی تقسیم اور سیاسی جماعتیں:
فرخ سہیل گوئندی صاحب پہلا جواب سماجی کثرتیت کی بنیاد پر اٹھاتے ہیں کہ سماج تو نسلوں، رنگوں اور اس قسم کی دوسری سماجی تقسیم میں بٹا ہوا ہے اور جماعت اسلامی کی رکنیت مسلمانیت کے کڑے دائرے میں کھڑی ہے لہذا عام سماج اس کا حصہ نہیں بن پاتا. اس بنیاد جماعت اسلامی کو روایتی کمیونسٹ پارٹی کی طرح کی ایک جماعت قرار دیا گیا ہے اگرچہ سماجی کثرتیت پالیسی سازوں کے لیے اہم ہونا چاہیے لیکن کسی بھی سماج کی ترقی، خوشحالی اور فلاح کے لیے یہ تقسیم اچھی نہیں ہوتی، عملی زندگی میں اسے خاطر میں نہیں لانا چاہیے، سماج جتنا زیادہ تقسیم ہو گا اتنا زیادہ کمزور اور نان پروڈکٹو ہو گا۔ اسی طرح سیاسی جماعتوں کا معاملہ بھی ہے وہ سماجی تقسیم سے بالاتر کسی یکسانیت پر افراد کو اکٹھا کر سکتی ہیں، مذہبی جماعتوں بارے یہ نقطہ آسان فہم ہے کہ اگر وہ کسی مخصوص فرقے کی نمائندہ ہوں تو سماج میں پاپولر ہونے کے بجائے ایک مخصوص طبقے کے لیے ہی پُرکشش ہو سکتی ہیں۔ جماعت اسلامی ان تمام سیاسی اور مذہبی رکاوٹوں سے بالا دست مسلمانیت کی بنیاد پر افراد کو اکٹھا کرتی ہے، چاہے وہ کسی رنگ کے ہوں، کسی نسل اور قبیلے کے ہوں یا کسی فقہی مسلک سے تعلق رکھتے ہوں اس بنیاد کو رکاوٹ کیسے سمجھا جا سکتا ہے جب پاکستان میں 96 فیصد مسلمان بستے ہوں اس بنیاد میں رکنیت کی کڑی شرائط کا تذکرہ بارہا کیا جاتا ہے لیکن کیا یہ شرائط واقعی جماعت اسلامی میں شمولیت اختیار کرنے میں رکاوٹ ہیں؟ جب ہم اس سلسلے میں معلومات اکھٹی کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ رکنیت سے پہلے حامی، کارکن اور امیدوار ایسے راستے ہیں جن سے داخل ہوا جا سکتا ہے، اگر کوئی شخص سمجھتا ہے کہ وہ رکنیت کی شرائط پر پورا نہیں اتر سکتا تو حامی اور کارکن بن کر بھی جماعت اسلامی کا حصہ رہ سکتا ہے اس پر یہ سوال ضرور اٹھتا ہے کہ جماعت اسلامی ایسے کارکن اور عام حامی کو پالیسی سازی میں حصہ دار یا عہدیدار یا امیر بننے کا موقع فراہم نہیں کرتی، جیسا کہ ہم عصر مغربی سیاسی جماعتیں راستہ مہیا کرتی ہیں۔ اس سلسلے میں یہ بات قابل غور ہے کہ ہر جمہوری سیاسی جماعت اس امر میں مخصوص کڑی شرائط ضرور رکھتی ہیں جنہیں میرٹ کا نام دیا جاتا ہے جو فارمل بھی ہیں اور انفارمل بھی، نرم بھی ہیں اور سخت بھی- اگرچہ ووٹر اور حامی یا کارکن ہونے لیے نا تو مغربی جمہوری جماعتیں کوئی بڑی شرائط رکھتی ہیں اور نہ ہی جماعت اسلامی کی طرف سے الیکشن میں نقارہ بجتا ہے کہ اسے صرف صالح لوگ ہی ووٹ دیں، عام مسلمان یہ زحمت نہ اٹھائیں
قیادت کا عوامی معیار:
اس ضمن میں ایک اور نقطہ بھی اہم ہے جسے عوام اور جماعتوں میں فرق اور تضاد کے طور پر پیش کیا جاتا ہے کہ جماعتوں کے آئیڈل اور کردار عام لوگوں سے زیادہ اونچے ہو جائیں تو عوام کے لیے ان میں کشش نہیں رہتی. سیاسی جماعتوں کو ووٹ حاصل کرنے لے لیے خود کو عام لوگوں کے معیار پر لانا پڑتا ہے. جماعت اسلامی کے پس منظر میں اگرچہ اس معیار کو عوامی صورتحال کے آئینے سے دیکھا جاتا ہے کہ عوام بہت اچھے مسلمان نہیں، تو صالح مسلمان ان کے ووٹ کے حقدار نہیں رہتے، اگر عوام اخلاقی طور پر کمزور ہیں تو بہترین اخلاق والوں کو پسند نہیں کریں گے، اگر عوام کرپٹ ہیں تو کرپشن کرنے والے افراد بار بار اقتدار پر براجمان ہوں گے درحقیقت حکمران عوام کا عکس ہوں گے، لیکن سیاسیات میں اس صورت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، سیاسی میدان تو عوامی معیار کو عوامی خواہشات کے پیمانوں سے ماپتا ہے جو مسلسل بدلتی رہتی ہیں، اسی لیے سیاسی جماعتیں اپنے منشور اور پروگرامات کو نت نئے نعروں اور ایجنڈوں سے مزین کرتے ہیں ان کے مسائل کو حل کرنے کے دعوے کرتی ہیں تاکہ عوام کو جیتا جا سکے مغربی ممالک میں ان ایجنڈوں، نعروں اور پروگرامات کو دلیل اور صلاحیتوں کی جانچ سے، حقائق کی نظروں سے تول کر عوام کے سامنے رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے اور پھر اسی بنیاد پر عوامی رجحان ترتیب پاتا ہے.
خالص مادی بنیادوں پر سراج الحق صاحب کا صالح مسلمان ہو جانا، عوام کے لیے معنی نہیں رکھتا۔ عوام کے لیے اگر کچھ اہم ہے تو اس سے پھوٹنے والے مظاہر ہیں، ایمان دار ہونا، کرپٹ نہ ہونا، عدل پسند ہونا، ذمہ دار ہونا، ڈسپلن کا پابند ہونا وغیرہ وغیرہ جو قیادت کے لیے مطلوب چیزیں ہیں، بے ایمان قوم بھی چاہے گی کہ ان پر ایمان دار کی حکمرانی ہو، ایسا حاکم نہ ہو جو ان کو لوٹ کھائے، کار اقتدار کو اچھے طریقے سے نبھائے، جو اپنے لیے چاہے وہی عوام کے لیے پسند کرے یہ خواہشات بھی باقی تمام عوامی خواہشات کی طرح حرکت میں رہتی ہیں، کبھی سامنے آ جاتی ہیں تو کبھی پس پردہ چلی جاتی ہیں.
دین، دنیا اور سیاست:
مسلمانوں کے دین اور دنیا بارے فکر مند رہنا، اسلامی سیاست کا ایک ناقابل معافی جرم سمجھا جاتا ہے، وہ کہتے ہیں کہ مسلمان تو کلمہ پڑھا اور ہو گئے، اب دنیا میں کسی کو فکر مند ہونے کی ضرورت نہیں، اس مسلمان کو نیک سے پرہیزگار اور صالح بنانے کے لیے نہ تو کسی جماعت کی ضرورت ہے اور نہ کسی ریاست کا یہ کام ہونا چاہیے کہ وہ اپنی حدود میں ماحول کو سازگار بنائے جس کے اندر نیکی کرنا آسان اور بدی کرنا مشکل ہو جائے البتہ اس مسلمان کو بد بنانے اور راہِ ہدایت سے دور لے جانے والی قوتوں کو کام کرنے کی کھلی آزادی ہونی چاہیے- یہ بطور ایک سبق عرصے سے اسلامی تحریکوں کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اگر تمہیں کچھ کرنا ہے تو باقی جماعتوں کی طرح مسلمانوں کی تعلیم اور فلاح پر توجہ دو، اقتدار بھی تمہیں مل جائے تو ریاست کو اسلامیانے کا خواب ترک کردو، مسلمانوں کو ان کے تشخص اور تہذیب کے لیے باقی قوتوں کے حال پر چھوڑ دو، اس سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ مسلمان سائنس اور ٹیکنالوجی کے میدان میں بہت پیچھے رہ گئے ہیں، طاقتور وسائل رکھنے کے باوجود انہیں ان طاقتوں کا اسیر ہونا پڑا جو اس میدان میں آگے کھڑی تھیں، پیٹرو ڈالر کو ایک مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے، خود برصغیر میں جب مسلمان آئے تو انہوں نے یہاں وقت کے نظام کو سائنسی جدت عطا کی، سائنسی علم اور نیا آرٹ دیا. البیرونی، محمود غزنوی کے ساتھ اس خطے میں تحقیق و اکتشاف آیا لیکن آج اس خطے کے مسلمان سائنسی میدان میں بھارت سے پیچھے ہیں. دوسری طرف دیکھا جائے تو کیا یہ محسوس کیا جا سکتا ہے کہ مسلمان، صالحیت میں زیادہ آگے چلے گئے ہوں؟ آج سے ہزار دوہزار سال قبل کے مسلمان سے زیادہ بہتر مسلمان بن گئے ہوں؟ حقیقت میں مسلمانوں پر زوال یکطرفہ نہیں ہے، جہاں وہ سائنس اور آرٹ کے میدان میں کمزور ہو گئے ہیں وہیں ایمان کے ضعف نے بھی انہیں آن گھیرا ہے. وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی دنیا ان کے دین کے ساتھ پیوست ہے، ان کی مادی ترقی ان کی دینی قوت کے ساتھ جڑی ہے، انہیں توڑ کر کسی بھی میدان میں عظمت نصیب نہیں ہوسکتی، مسلم سماج کو اٹھانے کی اس طرح کی یکطرفہ کوششیں بارہا ہو چکی ہیں، مصر سے ترکی تک اس کی مثالیں موجود ہیں لیکن یہ بارآور ثابت نہیں ہوئیں.
جماعت اسلامی کیوں نہیں؟ یہ سوال ابھی قائم و دائم ہے، جواب کی تلاش ابھی باقی ہے. ناکام لوگوں کی ایک ایک ادا کو شک کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے. جماعت اسلامی کیوں نہیں؟ اس کے ایک ہزار جواب ہو سکتے ہیں، دوست اور دشمن اپنی اپنی نظروں سے دیکھتے اور جواب تلاشتے ہیں، دلیل اور حقائق کی روشنی میں ان جوابات کو جانچ کر ہی اصل جواب تک پہنچا جا سکتا ہے.
تبصرہ لکھیے