ہوم << جمہوریت اور دانشور - شہیر شجاع

جمہوریت اور دانشور - شہیر شجاع

دانشوران پاکستان کا آج کل کا موضوع ”جمہوریت اور دشمنان جمہوریت“ ہے۔ خوب جم کر دلائل ، نقطہ نظر و مؤقف کے ساتھ صفحات سیاہ کیے جا رہے ہیں۔
بقول کالم نگار مؤقف جانبداری پر مبنی ہوتا ہے جبکہ تجزیہ غیر جانبدار ،اسی لیے تجزیہ کار کٹہرے میں کھڑا کیا جاتا ہے۔ سو قاری جو حق و سچ کی تلاش میں، اپنی فکر کو وسعت دینے کی تگ و دو میں مختلف فیہ خیالات کو اپنے ذہن میں قید کر کے اس کو شعوری میکنزم کا حصہ بناتا ہے۔ اس کے بعد اس کا شعور ایک خبر برآمد کرتا ہے۔ حالیہ ایک کالم، محترم کالم نگار نے موقف و تجزیہ کی تعریف کرنے کے بعد ، خود ایک کالم نگار کی نگارش پر تجزیہ فرمایا۔ جس پر بلا کم و کاست کہا جا سکتا ہے کہ وہ تجزیہ جانبداری پر مبنی تھا یا کج فہمی پر۔
اس نتیجے پر پہنچنے کے بعد یا تو میں اپنے ذہن کا نتیجہ مکمل سمجھ کر اپنا موقف پیش کردوں ؟ یا اپنے آپ کو کند ذہن یا کم عقل کہہ کر رد کردوں۔ میری نظر سے وہ کالم بھی گزرا جس کا حضرت نے تجزیہ فرمایا۔ جس میں مخالف کالم نگار جمہوریت کو بہتر کہنے کے بعد آمریت کے مثبت پہلووں کو سامنے لیکر آتے ہیں جس کے تجزیے میں جناب فرماتے ہیں کہ ”یہ سراسر تضاد ہے اور تجزیے کی نہیں موقف کی نمائندگی ہے ۔ اور موصوف دراصل آمریت کی نمایندگی فرما رہے ہیں۔“ کیا اس کا مطلب یہ لیا جائے کہ ہم میں تنقیدی شعور ناپید ہوچکا ہے؟ اور محض موقف کی ہی نمائندگی رہ گئی ہے؟ یا یوں کہا جائے کہ آپ نے جو فرمایا وہی اصل ہے باقی فصل ہے ۔
پاکستان میں جمہوریت نام کی جو فصل ہے اس سے فوائد سیاستدانوں نے زیادہ اور عوام نے کم سمیٹے ہیں جبکہ آمریت میں کم از کم عوام کو بقدر بہتر حصہ ملا ہے۔ اسی طرح کیونکہ رائے عامہ میں بحث کا موضوع جمہوریت و آمریت ہے سو ایک موازنہ پیش کردینے سے کیونکر تجزیہ یہ کیا جائے کہ اس موازنے کا مقصد آمریت کو بہتر اور جمہوریت کو بدتر گردانا جائے ؟ نقاد دراصل جمہوریت کی تنقید نہیں سیاستدانوں اور آمروں کے ادوار کا موازنہ کر رہا ہے کیونکہ پاکستان میں ظاہر اور عمل میں یہی دو ادوار ہیں۔ امکان پر موازناتی تجزیہ نہیں کیا جا سکتا شاید کہ یوں بحث جمہوریت بمقابلہ آمریت کے بجائے، جمہوریت بروزن گڈ گورننس بمقابلہ بیڈ گورننس کی جانب منتقل ہوجائے۔ اور حقیقی موضوع اور مطمح نظر بھی یہی ہے۔
کرپشن کی تعریف میں جھوٹ، فریب، دھوکہ دہی، مکاری، خود غرضی، بد دیانتی و دیگر برائیاں شامل ہوجاتی ہیں، تو کیا ایسے شخص کو اپنا دامن صاف کیے بنا اس عہدے پر قائم رہنا چاہیے؟ میڈیا نے اس جنگ کو ن لیگ بمقابلہ عمران خان بنا دیا ہے۔ اگر مان لیا جائے ن لیگ عوام کی منتخب اکثریتی نمائندہ جماعت ہے تو تحریک انصاف بھی منتخب اقلیتی جماعت ہے۔ تو کیا جمہوریت کے معنی یوں لیا جائے کہ اقلیتی نمائندگی کا کوئی وجود نہیں ؟ اور جو بھی حکمران جماعت کا ووٹر نہیں اس کو اپنے حقوق پر بات کرنے کا بھی کوئی حق نہیں؟ یہ جمہوریت کے نام پر مذاق نہیں ہونا چاہیے۔ کسی کی سیاست پر انگلی اٹھائی جا سکتی ہے۔ اس کے طریقہ کار کو صحیح یا غلط کہا جا سکتا ہےمگر عوام کی نمائندگی کا مذاق اڑانا کسی طور جمہوریت کو زیبا نہیں یہ بادشاہی اطوار ہیں۔
پھر جب محترم دانشوران ملت یوں لفظوں کے کھیل سے عام اذہان کو پراگندہ کرنے لگیں گے تو پھر اعتماد کا منہج یا ماخذ تاریک ہوجائے گا۔ یہ گورننس کا مسئلہ ہے۔ یہ انصاف کا معاملہ ہے۔ یہ دیانت و بدیانتی کا کیس ہے۔ اس کو جمہوریت سے آپ جوڑنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ کرپٹ عناصر اس ڈھال کے پس پردہ محفوظ ہوجائیں۔ یہ الفاظ نہایت خوبصورت ہیں کہ ”جمہوریت کو چلنے دیا جائے“ اس سے یہی محسوس ہوتا ہے کہ مخالف جمہوریت کا دشمن ہے۔ آپ منتخب حکمرانوں کو کٹہرے میں کھڑے ہونے سے مانع ہو رہے ہیں۔ اگر بلاحدود احتجاج غیر سیاسی فعل کہا جا سکتا ہے تو حکمرانوں کو بددیانتی ، جھوٹ فریب وغیرہ سے چھوٹ دینا کیونکر قابل قبول ہو سکتا ہے۔ طاقت کا منہج وفاق ہے۔ اور جب وفاق ہی آئین کی پاسداری نہ کرے۔ اپنے وعدے وفا نہ کرے۔ مکر و فریب ہمہ وقت اس کے ساتھ موجود ہوں۔ پھر مخالف سے آپ توقع کریں کہ وہ جی حضوری کرتے ہوئے آپ سے انصاف طلب کرے؟
شاید جمہوریت یہی ہے کہ انصاف کے طلبگار کی چمڑی نہیں ادھیڑی گئی۔ اس کے ہاتھ پیر نہیں کاٹے گئے کیونکہ جمہوریت آڑے آگئی۔ جناب من جمہوریت کو داغدار آپ کر رہے ہیں۔ جمہوریت سے اعتماد اٹھنے کا سبب بھی آپ ہو رہے ہیں ۔ بقول شاعر
ہم ہیں بے راہ تو کیا راہنما تم بھی نہیں
قافلے کے لئے پیغام درا تم بھی نہیں
جن پہ تھا صحن گلستاں میں چراغاں کا مدار
ان خزاں سوز چراغوں کی ضیا تم بھی نہیں
حق ہمارا نہ سہی نظم چمن میں لیکن
آشیانے کے مقدر کے خدا تم بھی نہیں
ریاست کے تمام ادارے مفلوج ہیں یا روبوٹکس اصول پر کام کر رہے ہیں۔ چیک اینڈ بیلنس کے جو بھی ادارے ہیں انہیں آزاد کرنے میں حکومت مانع ہے۔ سیکورٹی ادارے سیاسی ورکر بن چکے ہیں۔ پارلیمان میں عوامی نمائندے پارٹی یا ذاتی مفادات کا تحفظ کے لیے یکجا ہوتے ہیں۔ ایک بد اعتمادی کی فضا چہار سو پھیلی ہوئی ہے۔ ایسے میں بیک قلم جنبش گورننس کو پس پشت ڈال کر جمہوریت کو موضوع بنانا یا مخالف کو طعنہ دینا عقلی و منطقی دانش نہیں۔ اس سے اذہان مزید منتشر ہی ہوں گے اور آمریت کی طلب میں اضافہ ہوگا ۔

Comments

Click here to post a comment