ہوم << بھوک - عریبہ ناز

بھوک - عریبہ ناز

مجھے پاسپورٹ ری نیو کروانا تھا. علی الصبح پاسپورٹ آفس پہنچ گئے تو جلد ہی نمبر آگیا. پاسپورٹ جمع کروا کر باہر آئی تو بھائی نے کہا کہ "چلو آج تم لوگوں کو زبردست ناشتہ کرواتا ہوں." جب شرفیہ میں گاڑی داخل ہوئی , تو ایسا لگا جیسے کراچی کے صدر بازار میں آگئے ہوں. میں نےمنہ بناکر بھائی سے پوچھا "یہاں کون سا زبردست ہوٹل ہے؟" جواب دینے کی بجائے بھائی نے نرالا ہوٹل کے سامنے گاڑی روکی.
"یہاں کا کھانا کھا کر دیکھو، سب بھول جاؤ گی." بھائی گاڑی لاک کر کے آگے بڑھ گئے، تو میں اور بھابھی منہ بناکر بھائی کے پیچھے چلتے ہوٹل میں داخل ہوئے. سادہ سا صاف ستھرا فیملی ہال تھا، میزیں کرسیاں سلیقے سے لگی ہوئی تھیں، پہلی رو کی پہلی ٹیبل پر کوئی مدراسی فیملی بیٹھی تھی، ہم دوسری ٹیبل کے گرد بیٹھ گئے- میں نے ہال پر اک طائرانہ نظر ڈالی، سامنے والی رو میں ایک لمبی اوپن الماری تھی جہاں سالن کے چھوٹے ڈسپوزیبل ڈبے اور روٹیاں یا پراٹھا رکھنے کیلئے کاغذی چھوٹی تھیلیاں, شاپرز رکھے تھے، شاید پارسل لے جانے والوں کے لیے انتظام تھا.
اسی اثنا میں کوئی اندر داخل ہوا، بھائی کی نظر جیسے ہی آنے والے پر پڑی، ہمیں آہستگی سے کہا کہ میرا دوست ہے مل کر آتا ہوں. چند منٹ بعد بھابھی کا موبائل بجا، بھائی کی کال تھی جو کہہ رہے تھے کہ آپ لوگوں کا ناشتہ آرڈر کردیا ہے، میں یہیں کونے والی ٹیبل پر ہوں.
تھوڑی دیر بعد ویٹر نے ناشتہ کم کھانا ہمارے سامنے لا رکھا. حلوہ پوری، چنے، مغز نہاری، نان، پراٹھے اور پائے... نہاری دیکھتے ہی میری بھوک چمک اٹھی، اپنی پلیٹ میں تھوڑی نہاری ڈال کر کھانا کھانے لگی، ابھی دو تین نوالے ہی کھائے ہوں گے کہ بھابھی نے سرگوشی کی: "ناز انسان بن، کیا کبھی کھایا نہیں ہے؟" میں نے مسکراتے ہوئے کہا: "بھابھی پریوں کو کبھی انسان بنتے دیکھا ہے؟ ، اور سچ میں اتنی مزے دار نہاری کسی ہوٹل میں تو پہلی بار کھا رہی ہوں." اور دوبارہ کھانے میں مشغول ہوگئی. بھابھی نے کہا:- "پری کی بچی، سامنے دیکھو، وہ مدراسن آنٹی کیسے گھور کر تمہیں دیکھ رہی ہے." میں نے اک نظر سامنے ٹیبل پر ڈالی تو واقعی وہ میری طرف دیکھ رہی تھیں. "ویسے ان آنٹی کا شادی لائق کوئی بیٹا نظر تو نہیں آ رہا کیونکہ عموما وہی آنٹیاں اس طرح گھور گھور کر دیکھتی ہیں." میں نے شرارت سے بھابھی کو دیکھ کر کہا. بھابھی نے ہنستے ہوئے کہا: "بے فکر رہو، آنٹی کا ایسا کوئی ارادہ ہوا بھی تو اپنے بجٹ کا بیڑہ غرق ہوتا سوچ کر ہی کینسل کردیا ہوگا."
کھانا سچ میں زبردست بنا ہوا ہے.. مزہ آگیا.. پانی کا گلاس منہ سے لگایا کہ سامنے نظر پڑی تو نظریں اٹھی کہ اٹھی رہ گئیں، منظر ایسا عجیب تھا کہ پانی پینا بھول گئی. بھابھی نے زور سے اپنا بھاری پاؤں میرے نازک پاؤں پر مارا. "ناز شرم کر، پندرہ سال کا بچہ ہے وہ." میں نے حیرت سے بھابھی کی طرف دیکھا. "پندرہ سال کا وہ ہے اور شرم میں کروں .. شرم اسے آنی چاہیے جو چار سالہ بچے والی حرکت کر رہا ہے" بھابھی نے میری نظروں کے تعاقب میں دیکھا، جہاں وہ پندرہ سالہ بچہ ڈسپوزیبل ڈبوں میں بچا کھچا سالن ڈال رہا تھا، بھابھی اور میری پیشانی پر بل پڑ گئے.
"یہ پاکستانی بھی نا، کبھی نہیں سدھریں گے .." میں نے پوری کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا. "وہ پاکستانی نہیں مدراسی انڈینز ہیں" بھابھی نے جواب دیا. "ہاں تو پہلے پاکستان اور انڈیا ایک ہی تھا نا… دونوں کی حرکتیں بھی ایک جیسی ہیں."
سامنےبیٹھے لڑکے کو بھی ہمارے دیکھنے اور دبی دبی سرگوشی سے کچھ شرمندگی ہوئی، ڈبوں کو ویسے ہی چھوڑ کر منمناتے ہوئے آنٹی سے کچھ کہا مگر اس کی پیاری ماں کو اس کا عزت کے ساتھ بیٹھنا پسند نہ آیا، اپنی زبان میں اسے ڈانٹا تو وہ بیچارہ دوبارہ اپنے کام میں مشغول ہوگیا..اس پر میں نے اپنے بےاختیار آتے قہقہے کو اندر دبالیا … بھائی کا بھی میسج آیا کہ ناشتہ کر کے باہر آجاؤ..
چائے آئی، اور ہم چائے سے لطف اندوز ہونے لگے. اک معمر شخص جو شاید انچارج تھے، ایک راؤنڈ لگا کر ہماری ٹیبل پر آکر رک گئے،
"بیٹا یہ پیک کردوں، اگر آپ لوگوں نے کھا لیا ہو.."
ایک ناگوار سی لہر میرے اندر اٹھی..
"یہ بچا ہوا کھانا پیک کریں گے؟" حتی الوسع اپنے لہجے کو نارمل رکھتے ہوئے پوچھا..
اس نے الماری سے ڈسپوزیبل پیالے نکالے اور نہاری ڈبے میں ڈالتے ہوئے بہت شفقت سے کہا،
"بیٹا..یہ جھوٹا کھانا نہیں ہے، آپ لوگوں نے الگ پلیٹ میں کھایا ہے..گھر میں بھی آپ کا سالن بچ جاتا ہے تو اسے بھی فریج میں ہی رکھتے ہو نا، بس بیٹا فرق اتنا سا ہے کہ گھر میں آپ بناتے ہو اور یہاں ہم سے آپ خریدتے ہو. نادانی میں کتنے غریب لوگوں کے نصیب کا رزق ہم کچرے کی نذر کر دیتے ہیں، اگر یہی کھانا کسی غریب کو دے دیں یا گھر لے جائیں تو رزق کی بے حرمتی نہ ہو."
خان بابا کی اس بات نے مجھ پر جیسے گھڑوں پانی ڈال دیا. شرمندگی سے ادھوری چائے چھوڑ کر اٹھ کھڑی ہوئی..
ایک تفصیلی نظر اپنی ٹیبل ڈالی ہر چیز آدھی سے زیادہ بچی ہوئی تھی….. ایک آدمی پیٹ بھر کھانا آرام سے کھا سکتا تھا.
"لیکن خان بابا یہاں کون غریب ہے… اپنی جھینپ مٹانے کو میں نے پائے کا سالن ڈبے میں ڈالتے ہوئے پوچھا …. یہاں تو سب ہی ایک جیسے ہیں…"
"نہیں بیٹا… سب ایک جیسے نہیں ہیں یہ جو روڈ پر آپ کو صفائی کرنے والے نظر آتے ہیں نا. ان کی تنخواہ 300 سے 500 تک ہوتی ہے، بیچارے صبح 7 بجے سے دوپہر 3 بجے تک دھوپ میں سڑکوں پر صفائی کا کام کرتے ہیں اور پھر شام میں گاڑیاں دھونے کا کام بھی.. .مہینہ میں بمشکل 1000 یا 1200 ریال ہی کما پاتے ہیں بچارے کیا کھائیں اور کیا پیچھے بھیجیں.. خان بابا کے لہجے میں نہ جانے کیوں مجھے گہرا دکھ محسوس ہوا.
میں نے اس عظیم انسان کو بہت عقیدت سے دیکھا، وہ جو علم سکھا رہا تھا، وہ کسی کالج، یونیورسٹی میں نہیں سکھایا جاتا جو تجربات کی بھٹی سے گزرا ہو، اسے ہی ایسا علم عطا ہوتا ہے.
"بیٹا یہ سب پیک کر لو، میں جاتا ہوں …" "شکریہ خان بابا.." میں نے نہایت احترام سے شکریہ ادا کیا..
وہ "جیتے رہو بچو" کہتے ہوئے آگے بڑھ گئے.
اتنا کھانا دیکھ کر دل میں اک ہوک سی اٹھی … بھابھی سے کہا.
کیا ہی اچھا ہوتا اگر تھوڑا کم کھانا منگوا کر ایک پارسل بنوا کر کسی کو دے دیا جاتا..
ناز ان شاءاللہ آئندہ ایسے ہی کریں گے…
بھابھی نے مسکراتے ہوئے تسلی دی
.میں نے اور بھابھی نے سب چیزیں پیک کیں، نقاب لگایا کہ بے اختیار سامنے نظر اٹھی… وہ ہی 15 سالہ بچہ اسی طنزیہ انداز میں ہمیں دیکھ رہا تھا، جس طرح کچھ دیر پہلے ہم اسے دیکھ رہے تھے.. بےاختیار مجھے ہنسی آ گئی …. نقاب نے میری ہنسی کو چھپادیا دیا تھا…. کتنی بڑی نعمت یے یہ نقاب بھی ہمارے کتنے عیبوں کی پردہ پوشی کر دیتا ہے.
سر جهٹکتے ہم باہر آئے رش کی وجہ سے بھائی گاڑی آگے لے گئے تھے، وہیں ہوٹل کے باہر ایک بنگلہ دیشی ہمارا پھیلایا ہوا کچرا سمیٹ رہا تھا.
میں نے جلدی سے کچھ پیسے پارسل میں ڈال کر اسے دے دیا. جب بھائی نے یو ٹرن لیا, اسی ہوٹل کے سامنے سے گاڑی گزری تو میں نے دیکھا وہی بنگلہ دیشی ایک کونے میں, اپنے ہاتھ رومال سے صاف کرکے پارسل کھول رہا تھا.
ایکدم میری آنکھوں میں نمی در آئی.
اپنا سر سیٹ کی بیک سے ٹکا کر آنکھیں موند لیں … ایک سکون رگ و پے میں سرایت کرنے لگا.
طبقاتی فرق بے شک ہو مگر بھوک تو سب کو ایک جیسی لگتی ہے، کوئی ہماری طرح شاندار ہوٹل میں کھا کر اپنی بھوک مٹا کر پھر کھانے کی طرف دیکھتے بھی نہیں اور کچھ روڈ پر ہی بیٹھ کر ہمارے بچے ہوئے کھانے سے اپنی بھوک مٹا کر ڈھیروں دعائیں دیتے ہیں
ساری ذمہ داری حکومت ہی کی نہیں ہوتی، اگر کچھ ذمہ داریاں ہم انفرادی طور پر بانٹ لیں تو بھوک کا مسئلہ کافی حد تک حل ہو سکتا ہے.

Comments

Click here to post a comment