ہوم << پنجابی بےہودہ زبان ہے - مصطفی ملک

پنجابی بےہودہ زبان ہے - مصطفی ملک

مصطفی ملک تحریک انصاف کی خاتون راہنما کے سکولوں کے نیٹ ورک ”بیکن ہاؤس“ نے اپنے سکولوں میں پنجابی زبان کو بےہودہ زبان قرار دیتے ہوئے اس زبان میں گفتگو کرنے پر پابندی لگانے کا باقاعدہ نوٹیفیکیشن جاری کر کے پوری ایک تہذیب پر حملہ کیا ہے۔ اس افسوس ناک خبر نے اپنی مادری زبان سے محبت کرنے والے دنیا بھر میں پھیلے ہوئے میرے جیسے کروڑوں لوگوں کی دل آزاری کی ہے لیکن میرے خیال میں اس میں قصور وار شاید وہ سکول والے نہیں جتنے ہم خود پنجابی ہیں۔
ایک بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پنجابی متعصب نہیں ہیں، اس لیے پنجابی سے ان کی محبت بھی کمزور ہوتی جارہی ہے۔ اگر آپ اندرون سندھ جائیں تو آپ کو ہر ریلوے اسٹیشن پر نام اردو کے ساتھ سندھی میں بھی لکھا نظر آئے گا۔ بعض جگہوں پر دکانوں کے سائن بورڈ بھی سندھی میں لکھے نظر آئیں گے، دوسری طرف پختون بھائیوں کی ایک انتہائی اچھی عادت ہے، جب بھی اور جہاں بھی دو پختون اکھٹے ہوں گے تو پشتو میں بات کریں گے لیکن ہمارے ہاں پہلے گھروں میں پنجابی کی جگہ اردو نے لی اور اب اس کی جگہ بتدریج انگریزی لے رہی ہے۔ مائوں کا اپنے بچوں سے گفتگو کا سٹائل کچھ اس طرح ہے ـ ”پپو بیٹا، جلدی سے میڈیسن لے لو، یو نو سنڈے کو تمہاری برتھ ڈے ہے، مما پاپا آپ کو وش کریں گے، کیک کاٹیں گے، پپا آپ کو سرپرائز گفٹ دیں گے، اس لیے جلدی جدی ہیل اپ ہو جائو.“ اب جو لوگ اردو کے ساتھ یہ کھلواڑ کر سکتے ہیں، پنجابی ان کی کیا لگتی ہے۔
یہ لوگ جو جی چاہیں کریں مگر میرے جیسے کروڑوں پنجابی، جنہیں اس زبان سے اپنی مائوں کی خوشبو آتی ہے، کبھی اس سے ناطہ نہیں توڑیں گے۔ بچوں کے ساتھ ہونے والے اس کھلواڑ نے بچوں کو ذہنی مریض بنا دیا ہے،گھر میں اردو بولی جاتی ہے، سکول میں انگریزی بولنے کا حکم آتا ہے تو محلے میں دوسرے بچوں کے ساتھ پنجابی بولنی پڑتی ہے جس سے بچوں کی ذہنی نشوونما پر انتہائی برے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
پنجابی کو بے ہودہ زبان کہنے والوں کو معلوم ہی نہیں کہ یہ تو صوفیائے کرام کی زبان ہے، یہ توبابا بلھے شاہ، بابا فرید گنج شکر، وارث شاہ اور شاہ حسین جیسے بزرگوں کی زبان ہے۔کیا ایسا ممکن ہے کہ کسی زبان کو ہی بےہودہ قرار دے دیا جائے۔ آپ کو کبھی کینیڈا، برطانیہ یا ان یورپی ممالک جانے کا اتفاق ہوا جہاں بھارتی سکھ آباد ہیں، وہ آج بھی اپنےگھروں میں اور اپنے بچوں کے ساتھ پنجابی بولتے ہیں، ان کے معصوم بچے ٹھیٹھ پنجابی میں گفتگو کرتے کتنے پیارے لگتے ہیں. حیرت ہے ان لوگوں پر جو اپنی ماں بولی، اپنی تہذیب کو چھوڑنے اور برا بھلا کہنے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے ماہرین تعلیم اس بات پر متفق ہیں کہ اگر مادری زبان میں تعلیم دی جائے تو اس کے دور رس اثرات مرتب ہوتے ہیں کیونکہ سکول جانے کی عمر سے پہلے ہی بچے کے پاس اپنی مادری زبان کے ہزاروں الفاظ کا ذخیرہ ہوتا ہے لیکن جب اسے سکول میں جا کر نئے الفاظ اور نئی زبان سیکھنی پڑتی ہے تو اسے اس کے لیے کئی سال لگ جاتے ہیں ۔
ایک طرف تو آئین پاکستان کی دفعہ 251 میں صوبائی حکومتوں کو مقامی زبانوں کی ترویج و اشاعت کا پابند کیا گیا ہے تو دوسری طرف ایک سکول کی طرف سے اس طرح کا نوٹیفیکیشن جاری ہونا قابل افسوس ہے، میرا خیال ہے کہ وزیر اعلیٰ پنجاب کو بھی اس پر نوٹس لینے کی ضرورت ہے۔

Comments

Click here to post a comment