استحکام سے مالامال ادارے ہی ملک و ملت کی ترقی و خوشحالی کے ضامن ہوتے ہیں مستحکم اداروں کی بدولت ہی عوام انصاف اور ریلیف کے ثمرات سے مستفید ہو سکتی ہے استحکام کے فقدان کا شکار ادارے ملک و ملت کو ترقی و خوشحالی سے روشناس نہیں کروا سکتے ایسے اداروں میں بیٹھے عملہ کی جانب سے پیدا کی گئی خودساختہ پیچیدگیوں کے دو پاٹوں میں عوام پس کر رہ جاتی ہے اور پھر انصاف اور ریلیف سفارش اور پیسہ کے سامنے سرنگوں ہو کر سربازار بکتا ہے اور یہی عوامل اداروں میں عدم استحکام کے باعث ملکی ترقی و خوشحالی اور امن کے راستہ میں حائل ہو کر ملک و قوم کو پسیوں میں دھکیلتے ہیں آپ اس سر زمین پر قائم سرکاری اداروں کے پیچ و خم پر نظر دوڑائیں تو آپ ان اداروں کے پیچیدہ اعدادو شمار سے بخوبی واقف ہو جائیں گے.
پاکستان کی سیاسی تاریخ کا آپ بنظر غائر مطالعہ کر لیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ سابقہ ادوار میں جن حکمرانوں نے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ادارے اور پراجیکٹس لانچ کئے ان اداروں اور پراجیکٹس میں آپ کو خال خال ہی ایسی مثالیں ملیں گی جن کو آنے والی حکومتوں نے دوام بخشا یہ بھی آپ اپنی خوش قسمتی سمجھیں کہ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ چوہدری پرویز الٰہی نے ریسکیو 1122 جیسے ادارہ کو لانچ کیا جو کہ صحیح معنوں میں اپنے اغراض و مقاصد کی روشنی میں عملی طور پر عوام کو بر وقت ریلیف فراہم کر رہا ہے اور میں موجودہ حکومت کا عوام پر احسان سمجھوں گا کہ جنہوں نے اس ادارہ ریسکیو 1122 کے خدو خال کو قائم رکھا۔
انسانی حیات حادثات کا مجموعہ ہے نجانے کب، کہاں اور کیسے انسان حادثات کا شکار ہو جائے اور بروقت امداد نہ ملنے کے باعث لقمہ اجل بن گئے موجودہ حالات میں جہاں انسان کو قدرتی آفات یا زمینی سانحات کا سامنا رہتا ہے ایسے حالات میں اگر بروقت امداد نہ ملے تو آپ انسان کی بے بسی اور لاچاری کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں.
8 اکتوبر 2005ء کو اس ملک کی دھرتی پر آنے والے ہولناک زلزلہ کی تباہ کاریوں اور قیامت صغریٰ بپا ہونے سے جانی و مالی نقصانات کے پیش نظر ایسا نظام رائج کرنے کا باقاعدہ فیصلہ کیا گیا کہ مستقبل میں انسانیت کا دفاع اور ایسے قدرتی آفات کے نتیجہ میں پھیلنے والی تباہ کاریوں کے آگے بند باندھا جاسکے پاکستان کی اس سرزمین سے ریسکیو 1122جیسے ادارہ کو ایمرجنسی ایکٹ کے تحت 2006ء میں لانچ کیا گیا دن کی چکا چوند روشنی کو یا رات نے سیاہ چادر اوڑھ رکھی ہو آندھی ہو یا طوفان زمینی سانحات ہوں یا قدرتی آفات موسم کی قید سے آزاد ریسکیو 1122 کا ادارہ ہمہ وقت مدد کیلئے تیار کا نعرہ بلند کرتے ہوئے احساس تحفظ اور پر امن معاشرہ کے جذبہ سے سرشار اپنی سروس کو جاری رکھے ہوئے ہے یقینا ایسے ادارہ کا قیام کٹھن اور جان جوکھوں کا کام تھا پاکستان کے ہسپتالوں میں ایمرجنسی، میڈیکل اسٹاف کوئی تربیتی نظام اور ادارہ موجود نہ تھا اس ادارہ کے قیام کو عملی جامہ پہنانے کیلئے ڈاکٹر رضوان نصیر نے بیڑہ اٹھایا اور اس چیلنج کو سر آنکھوں پر لیا میں سمجھتا ہوں ڈاکٹر رضوان نصیر نے اس منصوبہ کو پایہ تکمیل تک پہنچا کر تاریخ رقم کی جس کی مثال ملکی تاریخ میں نہیں ملتی ڈاکٹر رضوان نصیر نے ثابت کیا کہ عزم صمیم اور جذبوں کے سامنے مشکلات دم توڑتی ہیں انہوں نے صوبائی دارالحکومت پنجاب کے دل شہر لاہور میں 80 لاکھ پر مشتمل نفوس کیلئے چھ ریسکیو اسٹیشنز،14ایمبولینسز اور 200 ریسکیو کی مدد سے اس سروس کی بنیاد رکھی صرف چھ ماہ کی قلیل مدت میں اس منصوبہ کو عملی جامہ پہنا کر عوام کو ریسکیو 1122 کی شکل میں تحفہ دے دیا یہ سروس اب تک لاکھوں متاثرین کو ریکارڈ سات منٹ دورانیہ کے ریسپانس ٹائم سے ریلیف فراہم کر چکی ہے یہ تمام مثالی پرفارمنس ریسکیو کے جذبے موثر نظام اور مانیٹرنگ سسٹم کی بدولت ممکن ہوا اب یہ سروس پنجاب کے 36 اضلاع میں بلا تفریق متاثرین کو ریلیف فراہم کررہی ہے اور 2017ء تک یہ سروس پنجاب بھر کی تحصیلیوں کی سطح پر بھی اپنی سروس کا آغاز کر دت گی
اس ادارہ کی محنت اور خدمت کے جذبہ کے تحت نہ صرف عوام نے اس ادارہ کو اعتماد کی دولت سے مالامال کی بلکہ اس کاکردگی کو ملک بھر میں بے حد پذیرائی سے نوازا گیا ایسے ادارہ کا قیام اس وطن عزیز کے باسیوں پر احسان عظیم سمجھتا ہوں لیکن یہ ادارہ جو کہ ایک تحریک کی شکل میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے ہوئے ہمارے درمیان موجود ہے عوام شعور کے فقدان کے باعث اس سروس کے اغراض و مقاصد اور اس سروس سے آگاہی نہ ہونے کی وجہ سے صحیح معنوں میں اس کو استعمال کرنے سے قاصر نظر آتی ہے عوام کو چاہئے کہ اس ادارہ کا استعمال صحیح موقعوں پر کرے کچھ باتیں میں قارئین سے شیئر کرنا ضروری سمجھتا ہوں تاکہ ہمیں اس سروس کے صحیح استعمال کا ادراک ہو سکے جب آپ ایمرجنسی سروس 1122 پر کال کریں تو اپنا پورا نام اور ایڈریس کے ساتھ ایمرجنسی کے متعلق پوری معلومات آپریٹر کو فراہم کریں بعض اوقات ادھوری کال کے باعث ریسکیو آپ کو سروس مہیا کرنے سے مشکل سے دو چار ہو جاتا ہے ریسکیو 1122کو زیادہ ایمرجنسی کالز سورج ڈھلنے کے بعد موصول ہوتی ہیں کوشش کریں کہ سورج ڈھلنے کے بعد اپنے بچوں کو گاڑی یا موٹر سائیکل نہ دیں کیونکہ روشنی کم ہونے کی وجہ سے سامنے سے آنیوالی گاڑیوں کی تیز روشنی کے باعث ڈرائیونگ کے متعلقہ احتیاطی تدابیر ممکن نہیں ہو سکتیں سامنے آنیوالی گاڑی یا جانور کے باعث بچے بروقت فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے ہیں اور حادثہ ہو جاتا ہے ایک بات جس کا ہمیں بہت خیال رکھنا چاہئے کہ اگر آپ کو راستے میں کوئی چھوٹی ایمرجنسی نظر آئے تو آپ کو چاہئے کہ ریسکیو بلانے کی بجائے خود اسے نزدیکی ہاسپٹل لے جائے تا کہ بڑی ایمرجنسی کو ڈیل کیا جاسکے اور ایسی ایمرجنسی بھی سامنے آتی ہیں کہ مریض پہلے سے بیمار ہوتا ہے اور ریسکیو کو کال کر دی جاتی ہے جو کہ سراسر غلط ہے ہمیں بہت احتیاط سے کام لینا چاہئے حکومت اور محکمہ ریسکیو 1122 کو چاہئے کہ عوام کو آگاہی دینے کیلئے مہم اور پروگرامز کا ضلع کی سطح پر انعقاد کرے
اس ادارہ کے حوالہ سے ریسکیو اور عوام کو جو مشکلات درپیش ہیں حکومت سے بھی دل بستہ چند گزارشات ہیں کہ ان پر عمل کر کے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات اٹھاتے ہوئے اس سروس کو مزید فعالیت سے ہمکنار کرے حکومت کو چاہئے کہ مصروف شاہرائوں پر بنے پٹرول پمپ کے سامنے کٹ یا یو ٹرن نہ دئیے جائیں بلکہ تھوڑے فاصلے پر دئیے جائیں تا کہ گاڑی کی رفتار میں کمی کے باعث حادثات سے بچا جاسکے اور عوام کیلئے گلیوں اور محلوں کی نمبرنگ کی جائے تا کہ ایمرجنسی کالر کو صحیح لوکیشن کا اندازہ ہو سکے بڑے شہروں میں اچھی اور کشادہ سڑکوں کے باعث ریسکیو کی گاڑیاں زیادہ عرصہ تک سروائیو کر سکتی ہیں جبکہ پنجاب کے پسماندہ اضلاع میں معیاری سڑکیں نہ ہونے کی وجہ سے گاڑیاں زیادہ دیر اپنی اصل حالت برقرار نہیں رکھ سکتیں اور ایسی گاڑیوں کی تبدیلی جلد از جلد ممکن بنائی جائے پسماندہ اضلاع میں ٹیکنیکل تعلیم نہ ہونے کی وجہ سے ریسکیو ادارہ میں دوسرے ضلعوں سے بھرتی ہونے والے اپنی ٹرانسفر کروا لیتے ہیں اور ادارہ اپنے مقاصد کے مدارج طے نہیں کر پاتا حکومت کو چاہئے کہ بھرتی ہونے والے ریسکیو کی ٹرانسفر پر کم از کم تین سے پانچ سال تک کیلئے پابندی لگائی جائے تاکہ نفری کی کمی کا سامنا نہ کرنا پڑے دو سال قبل حکومت نے نوٹیفکیشن جاری کیا تھا کہ 45 کلومیٹر سے کم فاصلہ پر ریسکیو اسٹیشن قائم نہ کیا جائے میں سمجھتا ہو ں کہ ہر 20 کلومیٹر کے فاصلہ پر ریسکیو اسٹیشن قائم کرنے چاہئیں تا کہ ان اضلاع کی تحصیلوں اور قصبات کو ریسکیو کی سروس مہیا ہو سکے اگر کسی ضلع کی شہری آبادی کو ریلوے لائن تقسیم کرتی ہے تو اس ضلع کی شہری آبادی کو دو ریسکیو اسٹیشن دینے چاہئیں تاکہ ریلوے پھاٹک بند ہونے کی صورت میں متاثرین کو بروقت امداد مل سکے
حکومت کو چاہئے کہ ادارہ کی فعالیت کے پیش نظر ریسکیو عملہ کیلئے ضلع کی سطح پر دفتری سہولیات کے فقدان کے باعث رہائشی کالونیاں بنائی جائیں عوام ادارہ کی ترقی، خوشحالی اور نیک نامی کیلئے دعا گو ہے اس ادارہ کے حوالہ سے عوام اور حکومت سے گزارشات کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ اگر ان پر عملدرآمد کرلیا جائے تو پھر شاید اس ادارہ کو استحکام بخشنے میں ہم بھی کردار ادا کر سکیں اگر ہم شعور و آگاہی کے زینے طے کرتے ہوئے ایک قدم اور آگے بڑھائیں اپنی گاڑیوں، گھروں اور کام کرنے والی جگہوں پر آگ بجھانے کا آلہ اور فرسٹ ایڈ کا سامان رکھ لیں تو پھر یقین جانئے کہ اس ملک کا ہر فرد احساس ذمہ داری اور جذبہ سے سرشار چلتا پھرتا ریسکیو ہو گا۔
تبصرہ لکھیے