ہوم << کے الیکٹرک کا صارفین سےغیراسلامی اورغیرانسانی برتاؤ - مجیب الحق حقی

کے الیکٹرک کا صارفین سےغیراسلامی اورغیرانسانی برتاؤ - مجیب الحق حقی

مجیب الحق حقی جب سے کے الیکٹرک کی نئی انتظامیہ نے کراچی میں بجلی کی پیداوار اور سپلائی کا نظام سنبھالا ہے یہاں پر سروس میں بہت بہتری تو آئی ہے لیکن اس کے ساتھ شہر کے لوگوں کی مشکلات میں اضافہ بھی ہوا ہے ۔ سروس کے معیار کو بہتر بنانے کے ساتھ ایک ایسا قبیح فعل بھی ہورہا ہے جو اس ادارے کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ ہے۔ اس کی وجہ انتظامیہ کی خالص تجارتی اپروچ ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ پرانے نو آبادیاتی دور کی پالیسیوں پر عمل کیا جارہا ہے کہ جس میں عوام کی سہولت ثانوی اور اپنا نفع اوّلیت رکھتا ہے۔
موجودہ صورتحال میں گورنمنٹ کی یہ پالیسی کہ بجلی اسی کو دیجائے گی جو پیسہ دے گااور بجلی چوروں کو سزا دی جائے گی مناسب تو ہے لیکن یہ بھی مدّ ِ نظر رہے کہ بجلی اب بنیادی ضروریات میں سے ہے۔ مزید یہ کہ دستیاب بجلی ایک قومی اثاثہ ہے جس پر پاکستان کے ہر شہری کا مساوی حق ہے۔ یہ حکومت کی ذمّہ داری ہے کہ جتنی بھی بجلی دستیاب ہے اسکی تقسیم انصاف کی بنیاد پر ہو۔ لیکن یہاں سوال یہ ہے کہ کیا کراچی میں بجلی کی تقسیم انصاف کی بنیاد پر ہو رہی ہے؟
کےالیکٹرک نے غالباً اسی پالیسی کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے بنیادی انسانی حق، انصاف، اسلامی بھائی چارہ اور انسان دوستی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے محض نفع کمانے کے اُصول پر کراچی کو سپلائی اور ادائیگی کی بنیاد پر مختلف زون میں تقسیم کیا ہوا ہے۔ جس میں اوّل وی آئی پی گرین زون ہے جہاں کسی بھی حالت میں لوڈ شیڈنگ نہیں کی جاتی جبکہ آخری معتوب زون وہ بد قسمت علاقہ ہوتا ہے جہاں پر بجلی کی چوری زیادہ ہوتی ہے لہٰذا وہاں لوڈ شیڈنگ کا دورانیہ ساڑھے سات گھنٹے تو سرکاری اور اکثرایک آدھ گھنٹے تکنیکی بھی ہوتا ہے۔ مینٹیننس اور فیڈر ٹرپ ہونے پر سپلائی معطّل ہونا بھی انہی علاقوں سے مختص ہے۔ اس طرح دوسرے علاقوں میں تین سے گھنٹے سے زائدکی لوڈ شیدنگ ہوتی ہے۔ وی آئی پی زون میں عموماً تکنیکی خرابی بھی نہیں ہوتی۔
سارے ملک میں لوڈ شیڈنگ اس بنیاد پر ہوتی ہے کہ پیداوار مانگ کے مقابلے میں کم ہے لیکن کیا کراچی میں بھی ایسا ہی ہے؟ یہاں غالباًایسا ہے نہیں کیونکہ کے الیکٹرک کے ایک اعلیٰ افسر کا غالباً دو سال قبل ایف ایم ریڈیو پر انٹر ویو لوگوں کو یاد ہےجس میں انہوں ان الفاظ میں ایک دعویٰ کیا تھاکہ" ہمارے پاس بجلی کی کمی نہیں ہے لیکن ہم اپنی لاگت سے کم پر کیوں فروخت کریں؟" ان کے اس دعویٰ کی تصدیق بھی ادارے کےبڑھتے ہوئے نفع کو دیکھ کر کی جاسکتی ہے۔
کے الیکٹرک نے دسمبر 2015 کے اختتام پر آدھے مالی سال میں اس سے قبل کے مقابلے میں40٪ منافع میں اضافہ کیا جو اخباری اطلاع کے مطابق تقریباً 19 ارب روپے مزید ہوا۔ گویا سالانہ لگ بھگ چالیس ارب روپے !
(حوالہ)
https://www.thenews.com.pk/print/100431-K-Electrics-half-year-net-profit-soars-43-percent
اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پیداوار اور سپلائی کے حوالے سے صورتحال وہ نہیں جس کا ہم تائثر لیتے ہیں اور جس کا شکار پورا ملک ہے ۔ کے الیکٹرک کے پاس وافر پیداواری صلاحیت ہے جس کا مظاہرہ عید بقر عید اور دوسرے تہواروں پر ہوتا ہے جب پورے شہر کو کئی دن لگاتار بجلی دی جاتی ہے۔
بجلی کی سپلائی مختلف زون کو وہاں سے مالی وصولی کی بنیاد پر کی جاتی ہے۔ امراء کے علاقے جہاں سے ادائیگی پوری ہوتی ہے وہاں عموماً بجلی کی لوڈ شیڈنگ نہیں ہوتی یا برائے نام ہوتی ہے۔ آپ گھوم پھر کر دیکھ لیں آپکو جگہ جگہ یہ وی آئی پی علاقے ملیں گے۔ کسی با اثر سیاستدان یا کسی خاص شخصیت کی رہائش گاہ کا اطرافی علاقہ بھی لوڈ شیڈنگ میں چمکتا نظر آتا ہے۔ کچی آبادیاں جن میں غریب اور پسماندہ طبقہ رہتا ہے وہ لوڈ شیڈنگ کا سب سے زیادہ نشانہ بنتی ہیں۔لیکن سب سے ستم زوہ علاقے وہ ہیں جو کچّی آبادیوں سے ملحق ہیں وہاں اس لیئے لوڈشیدنگ کی جاتی ہے تاکہ کُنڈوں کے ذریعے بجلی چوری نہ کی جاسکے۔ ان علاقوں میں زیادہ تر صارفین بجلی کے بل بروقت ادا کرتے ہیں لیکن پھر بھی یہ کے -الیکٹرک کے عتاب کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ در حقیقت کے۔ الیکٹرک اپنا تمام نقصان مختلف مدوں میں صارف پر منتقل کردیتی ہے مثلاً پی ایم ٹی پرمیٹر لگا کر اُس علاقے سے پوری وصولی کرلی جاتی ہے ۔اس لیئے شہر کو مختلف زون میں بانٹنا اس لحاظ سے نامناسب ہے کہ اس کا مقصد عوام کو فائدہ پہچانے کےبجائے عوام کی اذیّت کی قیمت پرخود زیادہ منافع کمانا ہے۔
اب ہم اپنے سوال کی طرف آتے ہیں کہ کون سا قانون خواہ جمہوری ہو یا اسلامی اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ شہر میں کہیں لوڈ شیدنگ بالکل نہ ہو، کہیں تین گھنٹے ہو اور کہیں ساڑھے سات گھنٹے ہو! اس بات کی اجازت حکومت نے کس قانون کے تحت دی کہ شہریوں کے اسٹیٹس کو کے الیکٹرک اپنی صوابدید پر طے کرے؟ کیا اسلام اور ہمارا آئین عوام میں ایسی تفریق کی اجازت دیتا ہے۔ کیا کوئی سیاسی عالم دین اس پر فتویٰ نہیں لا سکتا کہ کے-الیکٹرک کا یہ غیر شرعئی، غیر انسانی اور غیر اخلاقی فعل ہے جو عوام کی کثیر تعداد کومحض مالی منفعت کے لیئے بلا کسی اخلاقی اور قانونی جواز کے تکلیف دیتا ہے۔
افسوسناک بات یہ ہے کہ انتہادرجے کی اس ناانصافی پر جس میں کے الیکٹرک کو پورا بل ادا کرنے والے صارفین بری طرح پس رہے ہیں کوئی نہیں بول رہا۔ یہ ہمارے معاشرے کی بدلتی اقدار ہیں جس میں خود غرضی ، نفسا نفسی بڑھتی جارہی ہے۔ جن لوگوں کو بجلی مل رہی ہے وہ ا ب اس سےبے فکر ہوچکے ہیں کہ پڑوس کے علاقے میں لوگ کتنے پریشان ہیں۔ لیکن بہ حیثیت ایک ذمّہ دار ادارے کے یہ کے الیکٹرک کی قانونی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر اس صارف کو مکمل سروس دے جو اس کو پوری ادائیگی کرتا ہے۔ پولیس کے اختیارات ملنے کی خبروں کے بعد تو کوئی عذر ہی نہیں بنتا۔ جب حکومت نے کے الیکٹرک کو اختیار دے دیا ہے کہ وہ بجلی چور کو گرفتار کرے یا کرائے تو پھر ان کا ایسا کرنے میں کیا عذر مانع ہے؟ جو بل نہیں دیتا اسکی بجلی کاٹیں مگر پورے علاقے کو زیر عتاب لانا تو اپنی ذمہ داریوں سے فرار ہے۔ پچھلے دنوں کے-الیکٹرک کی طرف سے ٹی وی پر زور شور سے اعلانات ہوئے تھے کہ اب بجلی چوروں کو گرفتار کیا جائے گا اور سزا بھی دی جائے گی۔ لیکن سب پیالی میں طوفان ہی ثابت ہوا۔ یہ بات ناقابل فہم ہے کہ انتظامیہ اپنی ذمہ داری سے پہلو تہی کرکے اپنی نااہلی کی سزا صار ف کو کیوں دیتی ہے۔ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ایک طرف کے- الیکٹرک نے بجلی کی چوری روکنے کے لیئے پرانے تار تبدیل کرکے نئے کنسیلڈ تار لگانے شروع کردیئے اور میٹر بھی گھر کے باہر منتقل کیئے جارہے ہیں تاکہ چوری کا سد باب ہو مگر دوسری طرف اکثر علاقوں میں یہ کام مکمّل ہونے کے باوجودلوڈ شیڈنگ میں کمی نہیں ہوئی۔
یہ بڑی سادہ سی بات ہے کہ صارف سے کے۔الیکٹرک کامعاہدہ رقم کے بدلے بجلی کی لگاتار فراہمی کی بنیاد پر ہے۔ کیا صارف سے معاہدے میں یہ تحریر ہے کہ وہ اپنے پڑوسی یا علاقے کے دیگر صارفین کے بل کی ادائیگی کا بھی ذمہ دار ہو گا یا کسی کی غیر قانونی حرکتوں پر بھی جوابدہ ہوگا ؟ ایسی صورت میں ہی آپ ایماندار صارف کی بجلی روکنے میں حق بجانب ہو سکتے ہیں ورنہ اتنے وسائل اور قانون کی طاقت کی مددکے ہوتے ہوئے کے۔ الیکٹرک عہد شکنی کی مرتکب ہورہی ہے۔ یہ بات کے الیکٹرک کے ارباب اختیار جان لیں کہ اللہ کے بندوں سے عہد شکنی اور حق تلفی کا جواب کہیں اور بھی دینا ہے۔ ادارے کی یہ منطق بڑی مضحکہ خیز ہے کہ میرا پڑوسی اگر بجلی چوری کرتا ہے تو میں اسکا ذمّہ دار ہوں۔ کے الیکٹرک ڈنکے کی چوٹ پر یہی کر رہی ہے۔ لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ معاف کیجیئے گا یہ تو سراسر زیادتی بلکہ دھاندلی ہے۔
کمپنی کے شکایاتی مرکز پر جاکر دیکھیں کہ غریب مرد اور بیوائیں فریاد کرتے نظر آتے ہیں کہ دس دس ہزار کے بل جاری کردیئے جاتے ہیں اور پھر شرط یہ ہوتی ہے کہ پہلے بل جمع کرادیں بعد میں تحقیق ہوگی اور اگر غلطی ہوئی تو آئندہ کے بل میں کٹوتی کردی جائے گی۔ اب اگر یہ بل جمع نہیں کرایا جائے تو جرمانہ الگ لگ کر آئے گا۔ یعنی اگر ان کی غلطی ہوئی بھی تو بھی سزا صارف کو ملے!
ایک عجوبہ یہ بھی ہے کہ اگر آپ مکان تعمیر کر رہے ہیں تو آپکے گلے میں ایک پھندہ کے الیکٹرک کا بھی پڑے گا۔ کنسٹرکشن چارجز کے نام پر ایک خطیر رقم آپکو ہر حال میں دینی ہے خواہ آپنے کتنی ہی کم بجلی کیوں نہ استعمال کی ہو ۔ تو خیر ہو، اندھیری نگری شاید ایسی ہی ہوتی ہوگی۔
سیاسی لیڈران صرف بیان بازی کر کے خاموش ہوجاتے ہیں ۔ اس طرز عمل کی مخالفت ایوانوں میں جس شدّت سے ہونی چاہیے تھی وہ نہیں ہوئی اس کی وجہ غالباً سیاسی شخصیات کا مالی مفاد ہوسکتا ہے جس کی بازگشت بھی سنی جاتی ہے ورنہ حکومت اتنی مجبور نہیں ہوسکتی۔ یا شاید سیاسی لیڈر اور حکمران اس لیئے توجہ نہیں دیتے ہوں کہ زیادہ تر گرین زون میں رہتے ہیں یا پھر ان کے علاقے پر نظر کرم ہو۔
کے-الیکٹرک کی ذمّہ داری :
مختصراً ہمارا سوال یہ ہے کہ وہ صارفین جو بجلی کا بل تو پورا دیتے ہیں لیکن بجلی چوری کے مخدوش زون سے متصل علاقوں میں رہتے ہیں انہیں بجلی سے کیوں محروم رکھا جارہا ہے، ان تک بجلی پہچانا کمپنی کی اخلاقی اور قانونی ذمّہ داری ہے۔ یہ تو وہی مثال ہوئی کہ دھوبی پر بس نہ چلا تو گدھے کے کان اینٹھ دیئے۔
مختلف زون بناکر اور بڑی تعداد میں ایماندار صارفین سے امتیازی سلوک کرکے کے -الیکٹرک کیا پیغام دے رہی ہے؟
کیا وی آئی پی زون طبقاتی نظام کی ایک شکل اور عام انسان کی توہین نہیں ہے؟
کیا یہ زون اسلامی بھائی چارے پر ضرب نہیں ہے؟
کیا یہ پاکستان کے ہر شہری کی دستیاب بجلی پر جائز حق کی نفی نہیں ہے؟
کچھ کو زیادہ اور کچھ کو کم بجلی دینا کسی کا حق غصب کرنا نہیں ہے؟
کیا اسطرح عوام کو تقسیم کرکے خود غرض نہیں بنایا جارہا؟
میرے ایک جاننے والے بجلی کا پورا بل بر وقت دیتے ہیں جس کا اعتراف کے الیکٹرک ان کے بل پر ایک ستارہ چھاپ کر دیتی ہے۔ وہ اسٹار کسٹمر ہیں گویا ان سے انتظامیہ کوشکایت نہیں لیکن پھر بھی وہ ساڑھے سات گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ بھگت رہے ہیں! انکےیہاں لوڈ شیڈنگ کے اوقات اسطرح ہیں، صبح ساڑھے آٹھ سے گیارہ، دو بجے سے ساڑھے چار، شام ساڑھے چھ سے نو بجے۔ مختلف دورانیئے کے ٹیکنیکل فالٹ علیحدہ ہیں۔ یہ بات اور بھی تکلیف دہ ہے کہ مذکورہ لوڈ شیڈنگ ساڑے بارہ گھنٹے کے دورانیئے میں ہوتی ہے۔ یعنی صبح ساڑھے آٹھ سے رات نو بجے کے درمیان ساڑھے سات گھنٹے بجلی بند ، اب دن بھر انسان کیا کرے؟ خواتین باورچی خانے میں کام کرنے کے بعد پنکھے کی ہوا کو ترسیں اور طالب علم الگ پریشان کہ کمپیوٹر انٹر نیٹ بند ہے کہ کوئی پرنٹ نکالنا ہو تو کہیں دور بازار جائیں۔ رات دیر تک جاگ کر ہوم ورک کیا جائے۔ اس مثال سے آپ اندازہ لگائیں کہ کے- الیکٹرک اپنے نفع کی خاطر اپنے "اسٹار صارفین " یعنی ہمیشہ وقت پر ادائیگی کرنے والے کے ساتھ بھی کتنی بے درد ہے۔ ایسے ہزاروں ایمانداروں کے لیئے انصاف کے حصول کی خاطر یہ معروضات قلمبند ہوئی ہیں۔
کیا ارباب اقتدار اور مقامی سیاسی لیڈران اس طرف توجّہ کریں گےکہ کون سا اسلامی اصول شہریوں میں تفریق کرنے کی اجازت دیتا ہےاورکون سا ملکی قانون اس طرز ِ عمل کی اجازت دیتا ہے۔ کیا کے -الیکٹرک اس غیر اسلامی، غیر اخلاقی اور قانون سے ماوراء اپنی پالیسی کی کوئی منصفانہ توجیہہ پیش کرسکتی ہے؟
پورے شہر میں یکساں اوقات کی لوڈ شیڈنگ کے سلسلے میں ارباب اختیار کو بھی اپنی ذمّہ داریوں کا احساس ہونا چاہیئے۔ اسلامی بھائ چارے کا تقاضہ تو یہ ہے کہ پورے شہر میں یکساں لوڈ شیڈنگ ہو اس طرح نا انصافی کا خاتمہ ہوگا اور عام لوگ بھی اعتراض نہیں کریں گے کیونکہ کسی کی حق تلفی نہیں ہوگی۔ چالیس ارب کے لگ بھگ منافع کی خبر کے بموجب تو بنیادی ضرورت بجلی کی لوڈشیڈنگ کا جواز نہیں بنتا پھر بھی اگر کوئی مناسب جواز ہے تو کے الیکٹرک اپنی پیداوار کو پورے کراچی میں مساویانہ لوڈ شیڈنگ کے ذریعے تقسیم کرے تو یہ انصاف پر مبنی بات ہوگی، لیکن ایسا صرف اس وقت ہی ہوگا جب نفع کی حصول کی جگہ انسانی ہمدردی کا عنصر اور بنیادی انسانی حقوق کی ادائیگی کا جذبہ حاوی ہوگا۔ اس اربوں روپے کے منافع میں سے کچی آبادیوں میں رہائش پذیرچھوٹے صارفین کو ٹیرف میں رعایت سے کمپنی کی عزت میں اضافہ ہوگا اگر واقعئی عوام کا درد محسوس کرنے کی آرزو ہو تو۔

Comments

Click here to post a comment